’گروک پاکستانیوں کے ہاتھ لگ گیا ہے، اب اللہ ہی بچائے‘
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایکس کا فیچر ’گروک‘ پذیرائی حاصل کر رہا ہے اور پاکستان میں اس وقت ٹاپ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ کئی صارفین اس سے طرح طرح کے سوال پوچھتے نظر آ رہے ہیں جن میں زیادہ تر سیاسی نوعیت کے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر کئی صارفین خبروں کی تصدیق یا تردید کے لیے ’گروک‘ سے سوالات کرتے نظر آتے ہیں اور اپنی من مرضی کے جوابات کو سیاسی وابستگیوں اور دلچسپیوں کے پیرائے میں پیش کرتے ہیں۔
پاکستان میں بہت سے انٹرنیٹ صارف جس سے مختلف نوعیت کے سوال کر رہے ہیں۔ صحافی عمر چیمہ نے گروک سے پاکستانی سیاست پر سوال کیا کہ کسی ایسے پاکستانی سیاستدان کا نام بتاؤ جو تمہارے خیال میں خبط عظمت اور نرگسیت کا شکار ہو۔ اس کا جواب دیتے ہوئے گروک نے کہا کہ میرے خیال میں عمران خان خبط عظمت اور نرگسیت کا شکار ہیں کیونکہ متعدد ذرائع میں ان کی تنقید نہ برداشت کرنے، گفتگو پر غلبہ اور خود کو مسیحا سمجھنے کی نشاندہی کی گئی ہے۔
عمران خان۔ میرے خیال میں وہ خبط عظمت اور نرگسیت کا شکار ہیں، کیونکہ متعدد ذرائع میں ان کی تنقید نہ برداشت کرنے، گفتگو پر غلبہ اور خود کو مسیحا سمجھنے کی نشاندہی کی گئی ہے۔
— Grok (@grok) July 6, 2025
پاکستانی صارفین نے گروک کی معلومات کو جانچنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ایک صارف نے سوال کیا کہ پاکستان کا سب سے کامیاب وزیراعظم کون تھا عمران خان، نواز شریف، شہباز شریف کا یا بے نظیر بھٹو جس کے جواب میں گروک نےنواز شریف کو بہترین وزیراعظم قرار دیا تو ن لیگ کے حامی صارفین نے اس پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کو تو گروک بھی اچھا نہیں ملا۔
گروک بھائی جان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا سب سے کامیاب وزیراعظم نواز شریف ہے اور ساتھ وجہ بھی بتا دی ہے
یوتھیوں کو گروک بھی اچھا نہی ملا ???????? pic.
— RAShahzaddk (@RShahzaddk) March 17, 2025
ایک ایکس صارف نے لکھا کہ گروک بھی سوچتا جوگا کہ کس قوم سے واسطہ پڑ گیا ہے۔
گروک بھی سوچتا جوگا کہ کس قوم سے واسطہ پڑ گیا ہے ????????????????????????@grok pic.twitter.com/PFGOmrC7W5
— حق پرست (@HParst) July 5, 2025
صحافی اسد اللہ خان نے گروک کے تحریک انصاف کے حق میں جوابات دیکھتے ہوئے کہا کہ ’گروک پر یوتھیا ہونے کا الزام بس لگنے ہی والا ہے‘۔
گروک پر یوتھیا ہونے کا الزام بس لگنے ہی والا ہے pic.twitter.com/2lICLsmlL3
— Asad Ullah Khan (@AUKhanOfficial1) July 6, 2025
صنم جاوید خان نے لکھا کہ گروک میرے ٹوئٹس کی ایسی تشریح کر رہا ہے لگتا ہے اس بار میں گروک کی وجہ سے جیل میں جاؤں گی۔
میرے ٹویٹس کی grok ایسی ایسی تشریح کر رہا ہے اس بار میں grok کی وجہ سے جیل جاؤ گی ????????
— Sanam Javaid Khan (@sanamkh22) July 6, 2025
صابر شاکر لکھتے ہیں کہ بے بسی کا عالم یہ ہے گروک کے خلاف پیکا ایکٹ بھی نہیں لگتا۔
بےبسی کا عالم ہے کہ @grok کیخلاف پیکا ایکٹ بھی نہیں لگتا ہے اور وہ نظام اور اسکے تمام حامیوں کو کو ننگا کرنے پر تُلا ہوا ہے
— Sabir Shakir (@ARYSabirShakir) July 6, 2025
احتشام الحق نے لکھا کہ گروک پاکستانیوں کے ہاتھ لگ گیا ہے، اب اللہ ہی بچائے۔
گروک پاکستانیوں کے ہاتھ لگ گیا ہے، اب اللہ ہی بچائے۔
— Ihtisham Ul Haq (@iihtishamm) July 6, 2025
ایک ایکس صارف نے لکھا کہ گروک تو ن لیگ اور پی ٹی آئی کی لڑائی میں پھنس گیا ہے۔
گروک بھائی ن لیگ اور پی ٹی آئی کی لڑائی میں پھنس گئے pic.twitter.com/yoL7O6FCwD
— Iftikhar Alam (@imiftikharalam) July 1, 2025
افتخار حسین نے لکھا کہ گروک بڑا شاطر ہے جواب دینے سے پہلے سوال کرنے والے کی پروفائل وزٹ کرتا ہے اس کے مطابق جواب لکھ دیتا ہے لہٰذا سب کو خوش رکھنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔
گروک بڑا شاطر ہے جواب دینے سے پہلے سوال کرنے والے کی پروفائل وزٹ کرتا ہے اسکے مطابق جواب لکھ دیتا ہے لہٰذا سب کو خوش رکھنے کی پالیسی اپنائ ہوئ ہے۔
— Iftikhar Hussain (@I_H_101) July 7, 2025
واضح رہے کہ ایلون مسک کا دعویٰ تھا کہ ’گروک‘ اب تک دنیا میں متعارف کرائے جانے والا سب سے اسمارٹ اے آئی چیٹ بوٹ ہے، جس کا مقابلہ دیگر چیٹ بوٹس نہیں کرسکتے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستانی سیاست گروکذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستانی سیاست گروک کر رہا ہے گروک بھی گیا ہے
پڑھیں:
لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
اسلام ٹائمز: اسرائیل ایک ایسے سراب کا پیچھا کر رہا ہے، جو اسے فوری عسکری حل دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں دوررس سیاسی و سماجی نتائج کو نظر انداز کرتا ہے۔ حزبِ اللہ وقتی دھچکوں کے بعد دوبارہ منظم ہونے اور عسکری و سیاسی سطح پر خود کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر امن چاہتے ہیں تو طاقت کے استعمال کی بجائے سیاسی تصورِ امن، لبنانی خود مختاری اور بین الاقوامی معاونت (اقتصادی و سیاسی) کو اولین ترجیح دی جانی چاہیئے۔ اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی لبنان میں کچھ حاصل نہیں کیا، سوائے اس کے کہ عمارتوں کو تباہ کیا، شخصیات کو قتل کیا، لیکن فتح آج بھی حزب اللہ کی ہے، کیونکہ عقیدہ اور نظریہ آج بھی زندہ ہے اور پہلے سے زیادہ توانائیوں کے ساتھ میدان میں آنے کے لئے تیار ہے۔ یہی امریکہ اور اسرائیل کی شکست کا ثبوت ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
لبنان پر حالیہ اسرائیلی جارحیت اور جنگ بندی معاہدے کے بعد اسرائیلی خلاف ورزیوں میں روز بروز اضافہ دیکھا جا رہا ہے، ایسے حالات میں عالمی سطح پر مبصرین کے مابین ایک سوال اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ کیا اسرائیل کو لبنان میں کامیابی نہیں ملی۔؟ حالانکہ امریکہ اور اسرائیل نے حزب اللہ لبنان کے اہم ترین کمانڈروں اور بالخصوص سید حسن نصراللہ اور سید ہاشم صفی الدین کو قتل کرنے کے بعد پوری دنیا کو یہی تاثر دیا ہے کہ حزب اللہ کو لبنان میں ختم کر دیا گیا ہے اور اب لبنان میں حزب اللہ کمزور ہوچکی ہے۔ ایسے حالات میں پھر اسرائیل کو مسلسل جنوبی لبنان اور دیگر علاقوں پر بمباری کی کیا ضرورت ہے۔؟ اس عنوان سے اسرائیلی مبصرین بعض اوقات لبنان کی موجودہ کشیدگی کو ایک سنگین صورتحال قرار دے رہے ہیں۔ اسرائیلی مبصرین کے مطابق اسرائیل پوری کوشش کر رہا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال کو اپنے لئے ایک موقع میں تبدیل کرے اور یہ ایک ایسا موقع ہو، جس سے حتمی طور پر حزبِ اللہ کو کمزور یا غیر مسلح کیا جاسکے۔
اس تجزیہ کی بنیاد سے لگتا ہے کہ اس سے پہلے اسرائیل اور امریکہ کے کئے گئے دعوے سب کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں۔ موجودہ صورتحال میں لبنان کا توازن یہ بتا رہا ہے کہ حزب اللہ بھرپور عوامی حمایت کی حامل ہے اور سیاسی سطح پر بھی اچھی پوزیشن میں ہے۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسرائیل کے سابق میجر جنرل تامیر ہیمن نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان اور دیگر ملحقہ علاقوں میں فضائی حملے ایک اچھی حکمتِ عملی نہیں ہیں، کیونکہ بمباری عمارتیں تباہ کر دیتی ہے، مگر نظریات اور سیاسی سرمایہ کو نیست و نابود نہیں کرتی۔ جنرل تامیر نے تاکید کے ساتھ کہا کہ اسرائیل عمارتوں اور شخصیات کو ختم کر رہا ہے، لیکن عقائد ختم نہیں کئے جا سکتے۔ اسرائیل کے حالیہ حملے خود اس کی اپنی عارضی کمزوری کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، جبکہ مخالف قوتوں کو منظم ہونے، تجربات سے سیکھنے اور دوبارہ تیار ہونے کا عزم حاصل ہو رہا ہے۔
اسرائیلی مبصرین کا کہنا ہے کہ حزب اللہ نے ایک بڑی جنگ کا سامنا کیا ہے اور ابھی تک اسرائیلی جارحیت کا سامنا کر رہی ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ حزب اللہ اپنی طاقت کو منظم کر رہی ہے اور جنگ میں ہونے والے نقصانات اور جنگی تجربات سے سبق حاصل کرکے آگے کے لئے مضبوط اور موثر حکمت عملی بنانے میں مصروف ہے۔ دوسری جانب اسرائیل ہے کہ جو صرف اپنی فضائی قوت کی برتری پر لبنان کے علاقوں پر بمباری کر رہا ہے، جو اب اس کے خلاف ایک سیاسی حکمت عملی بنتی چلی جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں بلیدا (Blida) پر اسرائیلی حملے اور اس کے بعد صدر جوزف عون کی فوجی ردعمل کی ہدایت نے صورتحال کو مزید گرم کر دیا ہے۔ لبنانی صدر عون نے آئندہ کسی بھی اسرائیلی دراندازی کے خلاف فوج کو کارروائی کا حکم دیا ہے۔ حزبِ اللہ اور سیاسی حلقوں نے بھی سخت موقف اپنایا ہے۔
یہ واقعہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کشمکش ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ نہ صرف یہیبلکہ اسرائیلی جارحیت نے لبنان کے تمام حلقوں اور گروہوں کو اتحاد کی طرف پلٹنے کا بھی ایک موقع فراہم کیا ہے۔ اسرائیلی مبصرین نے مختلف ٹی وی چینلز پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ میدانی رپورٹس بتاتی ہیں کہ اگرچہ حزبِ اللہ بعض علاقوں سے پیچھے ہٹ گئی تھی، لیکن وہ اپنی فوجی صلاحیتوں کو دوبارہ منظم کر رہی ہے۔ زمینی روٹس، ذخائر اور مقامی نیٹ ورکس کی بحالی کا کام بھی جاری ہے، جسے اسرائیل اور مغربی حلقے تشویش کا باعث قرار دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محض فضائی بمباری سے بقاء کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
لبنانی حکومت اور فوج کو بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ جنوبی علاقوں میں اسلحہ کی گزرگاہیں بند کریں یا مخصوص مقامات سے اسلحہ نکالا جائے، مگر یہ عمل داخلی سیاسی حساسیت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے پیچیدہ ہے۔ فوج کا کردار پارٹیوں کے مابین توازن برقرار رکھنے تک محدود رہنے کا خدشہ ہے۔ لبنان کے اندرونی معاملات میں امریکی شرکت یا ساز باز کے شواہد بھی موجود ہیں، کیونکہ امریکہ اور اسرائیل جہاں ایک طرف جنگی کارروائیوں کی مدد سے حزب اللہ کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہاں ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر مختلف سیاسی گروہوں کے ساتھ ساز باز کے ذریعے حزب اللہ کے اسلحہ کے خلاف اور سیاسی حیثیت پر بھی سوال اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن نتیجہ یہ ہے کہ دونوں میدانوں میں ان کو کامیابی حاصل ہوتی دکھائی نہیں دیتی ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کی موجودہ حکمت عملی یہی ہے کہ وہ کسی بھی طرح لبنان کو اندر سے کمزور کر دیں۔ اگر اسرائیل براہِ راست حزبِ اللہ کو عسکری طور پر ختم نہیں کرسکتا تو بعض مبصرین کہتے ہیں کہ وہ اب سیاسی اور سماجی انتشار پیدا کرکے لبنان کو اندر سے کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لبنانی فوج کو الجھانا، معاشرتی تقسیم کو ہوا دینا اور بیرونی شراکت داری کے ذریعے مقامی تنازعات کو گرم رکھنا۔ یہ حکمتِ عملی خطرناک اور غیر مستحکم ہے، کیونکہ اس کے طویل مدتی نتائج پورے خطے میں تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی مسئلہ کے حل کے لئے لمبے عرصے کے لیے امن سیاسی حل، اعتماد سازی اور معاشی استحکام کے منصوبوں کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ فضائی مہمات اور بار بار کے حملے وقتی فتح دکھا سکتے ہیں، مگر وہ تنازعے کے بنیادی اسباب قبضہ، سلامتی کے توازن اور علاقائی مداخلت کو حل نہیں کرتے۔ بین الاقوامی اداروں کو فوجی دباؤ کے بجائے بحالی، ڈپلومیسی اور واضح سیاسی ڈھانچے کی حمایت پر زور دینا چاہیئے۔
خلاصہ یہ کہ اسرائیل ایک ایسے سراب کا پیچھا کر رہا ہے، جو اسے فوری عسکری حل دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں دوررس سیاسی و سماجی نتائج کو نظر انداز کرتا ہے۔ حزبِ اللہ وقتی دھچکوں کے بعد دوبارہ منظم ہونے اور عسکری و سیاسی سطح پر خود کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر امن چاہتے ہیں تو طاقت کے استعمال کی بجائے سیاسی تصورِ امن، لبنانی خود مختاری اور بین الاقوامی معاونت (اقتصادی و سیاسی) کو اولین ترجیح دی جانی چاہیئے۔ اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی لبنان میں کچھ حاصل نہیں کیا، سوائے اس کے کہ عمارتوں کو تباہ کیا، شخصیات کو قتل کیا، لیکن فتح آج بھی حزب اللہ کی ہے، کیونکہ عقیدہ اور نظریہ آج بھی زندہ ہے اور پہلے سے زیادہ توانائیوں کے ساتھ میدان میں آنے کے لئے تیار ہے۔ یہی امریکہ اور اسرائیل کی شکست کا ثبوت ہے۔