بارشیں ہمیشہ سے زمین کی زرخیزی اور فطری نظام کا حصہ رہی ہیں، لیکن جب یہی نعمت انسانی غفلت، حکومتی نااہلی اور ناقص انفراسٹرکچر کے باعث قیامت کی صورت اختیار کر لے تو سوال اٹھتے ہیں۔

کیا ہم موسمیاتی تبدیلی کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں؟ کیا ہمارے ادارے اس بڑھتے ہوئے عالمی بحران سے نمٹنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟

اسلام آباد اور راولپنڈی میں حالیہ موسلادھار بارشوں نے شہری زندگی مفلوج کر دی۔ سڑکیں ندی نالوں میں تبدیل ہو گئیں، ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوا، درخت اور سائن بورڈز تیز ہوا کے باعث گر پڑے، کئی گھروں کی چھتیں منہدم ہو گئیں، اور عوام ایک بار پھر بنیادی سہولیات کو ترستے نظر آئے۔ لوگ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کو پانی میں بہتے دیکھتے رہے لیکن کوئی مددگار نہ آیا۔

سوات واقعے میں چیئرمین انسپیکشن ٹیم نے عدالت میں اعتراف کیا کہ حادثے میں مختلف محکموں کی کوتاہی شامل ہے۔ یہ بیان نہ صرف ادارہ جاتی ناکامی کا ثبوت ہے بلکہ یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ کیا پاکستان میں انسانی جان کی کوئی قیمت ہے؟

اگر بروقت حفاظتی اقدامات کیے جاتے، ندی نالوں کی درست صفائی اور نکاسی کی جاتی، اور ضابطہ کار پر عمل درآمد ہوتا، تو شاید قیمتی جانیں ضائع نہ ہوتیں۔

امریکی ریاست ٹیکساس میں حالیہ شدید بارشوں اور سیلاب سے 24 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کا بحران صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ ایک عالمی چیلنج بن چکا ہے۔

تاہم، ترقی یافتہ ممالک اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدامات اور بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں، جبکہ پاکستان میں یہ معاملہ محض بیانات تک محدود ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کی کئی بنیادی وجوہات ہیں جن میں انسانی سرگرمیاں سب سے نمایاں ہیں۔ صنعتی فیکٹریوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسیں، خاص طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین، زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔

جنگلات کی بے دریغ کٹائی، جس کی جگہ پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور تجارتی مراکز تعمیر کیے جا رہے ہیں، ماحولیاتی توازن کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ ندی نالوں پر ناجائز تجاوزات اور ان کی بروقت صفائی نہ ہونا شہری علاقوں میں سیلاب کی بنیادی وجہ ہے۔

بڑھتی ہوئی آبادی اور غیر منصوبہ بند اربنائزیشن کے باعث سبزہ زار ختم ہو رہے ہیں، جو قدرتی ماحولیاتی نظام کے تحفظ میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔ سموگ کی شدت میں اضافہ بھی گاڑیوں، بھٹوں، اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں کا نتیجہ ہے جو نہ صرف ماحول بلکہ انسانی صحت پر بھی مضر اثرات مرتب کر رہا ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق جون کے مہینے میں سب سے زیادہ بارش کراچی کے علاقے گلشنِ حدید میں 210 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی۔ سب سے زیادہ درجہ حرارت جیکب آباد میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا۔

پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ کے مختلف علاقوں میں بارشوں کے باعث درجنوں چھتیں گریں، کئی افراد ملبے تلے دب گئے، جبکہ تیز ہواؤں نے درختوں اور سائن بورڈز کو جڑوں سے اکھاڑ دیا۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پاکستان میں ہر سال ہزاروں خاندانوں کو ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار کر رہے ہیں۔ صرف جون سے اب تک مختلف حادثات میں 100 سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

موسلادھار بارشوں کے نتیجے میں درجنوں مکانات کی چھتیں گرنے سے خاندانوں کے خاندان بے گھر ہو چکے ہیں۔ تیز ہواؤں نے درختوں، بجلی کے کھمبوں اور سائن بورڈز کو گرا دیا، جس سے نہ صرف جانی نقصان ہوا بلکہ شہر کا نظام بھی مفلوج ہو گیا۔

پنجاب میں 10 ارب روپے سے زائد کا معاشی نقصان ریکارڈ کیا گیا ہے۔ سڑکیں اور پل تباہ ہونے سے آمدورفت متاثر ہوئی جبکہ کھڑی فصلیں تباہ ہو کر کسانوں کو شدید مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستان میں موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے موجودہ حفاظتی اقدامات ناکافی اور غیر مؤثر ثابت ہو رہے ہیں۔ اگرچہ NDMA اور PDMA  جیسے ادارے موجود ہیں، لیکن ان کے پاس جدید ٹیکنالوجی، مناسب فنڈز اور تربیت یافتہ عملے کی کمی ہے۔

بارشوں سے قبل الرٹ تو جاری ہوتے ہیں مگر نچلی سطح پر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ندی نالوں کی صفائی صرف کاغذی کارروائیوں تک محدود ہے، جس کے نتیجے میں ہلکی بارش بھی شدید سیلابی کیفیت اختیار کر لیتی ہے۔

بلدیاتی ادارے غیرفعال ہیں اور سیاسی مداخلت کے باعث انتظامی معاملات متاثر ہوتے ہیں۔ عوامی آگاہی مہمات کا بھی شدید فقدان ہے، جس سے عام شہری موسمی خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اور طویل المدتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے حکومت کو قومی ماحولیاتی ایمرجنسی کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ تمام ادارے متحرک ہوں۔

’گرین پاکستان‘ مہم کو نہ صرف جاری رکھا جائے بلکہ اس کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے ملک بھر میں شجرکاری کی مہمات کو منظم کیا جائے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی منظوری ماحولیاتی اثرات کی رپورٹ سے مشروط کی جائے اور ندی نالوں پر تجاوزات کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ NDMA اور PDMA  کو جدید آلات اور ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے اور ان کے عملے کی تربیت کی جائے۔ سموگ کی روک تھام کے لیے فیکٹریوں، بھٹوں اور گاڑیوں کی مانیٹرنگ کا مؤثر نظام قائم کیا جائے۔

اسکولوں اور کالجوں میں ماحولیاتی تعلیم کو نصاب کا مستقل حصہ بنایا جائے تاکہ نئی نسل کو آغاز سے ہی اس مسئلے کی سنگینی سے آگاہی حاصل ہو۔

موسمیاتی تبدیلی اب صرف قدرتی تبدیلی نہیں بلکہ انسانی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ ہماری ترقیاتی ترجیحات میں ماحولیاتی تحفظ کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

جب تک حکومت، ادارے اور عوام مل کر اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیں گے، ہر سال مون سون اور سردیوں کی سموگ پاکستان میں انسانی المیے کو جنم دیتی رہے گی۔ ہمیں صرف بیانات اور اعلانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے، ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انعم ملک

امریکی ریاست پاکستان محکمہ موسمیات موسمیاتی تبدیلی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکی ریاست پاکستان محکمہ موسمیات موسمیاتی تبدیلی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے پاکستان میں ندی نالوں رہے ہیں کے باعث

پڑھیں:

غزہ کی جنگ بندی اور انسانی بحران پر استنبول میں اعلیٰ سطح اجلاس، مسلم وزرائے خارجہ کی شرکت متوقع

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

استنبول: ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان کی میزبانی میں پیر کے روز غزہ کی تازہ صورتحال اور جنگ بندی کے مستقبل پر ایک اہم اجلاس منعقد ہوگا، جس میں متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، قطر، پاکستان، سعودی عرب اور اردن کے وزرائے خارجہ شرکت کریں گے۔

ترک سفارتی ذرائع کے مطابق یہ اجلاس انہی ممالک کے وزرائے خارجہ کا تسلسل ہے جنہوں نے 23 ستمبر کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی، استنبول میں ہونے والے اجلاس میں 10 اکتوبر کی جنگ بندی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور غزہ میں انسانی بحران پر تفصیلی غور کیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق ہاکان فیدان اجلاس میں اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی ختم کرنے کے بہانے تراشنے کی کوششوں کی مذمت کریں گے اور اس بات پر زور دیں گے کہ عالمی برادری کو تل ابیب کے اشتعال انگیز اقدامات کے خلاف مضبوط اور مؤثر موقف اختیار کرنا ہوگا۔

ترک وزیر خارجہ اس بات پر بھی زور دیں گے کہ مسلم ممالک کو مشترکہ حکمتِ عملی اپناتے ہوئے جنگ بندی کو مستقل امن میں تبدیل کرنے کے لیے مربوط کردار ادا کرنا چاہیے۔ وہ یہ بھی واضح کریں گے کہ غزہ میں پہنچنے والی انسانی امداد ناکافی ہے اور اسرائیل اپنی انسانی و قانونی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہا ہے۔

ہاکان فیدان اس بات کو بھی اجاگر کریں گے کہ غزہ میں مسلسل اور بلا رکاوٹ انسانی امداد کی فراہمی انسانی اور قانونی تقاضہ ہے، لہٰذا اسرائیل پر دباؤ بڑھایا جانا چاہیے تاکہ امدادی سامان کی ترسیل یقینی بنائی جا سکے۔

انہوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ اجلاس میں فلسطینی انتظامیہ کو غزہ کی سلامتی اور انتظامی امور کی ذمہ داری دینے کے حوالے سے عملی اقدامات پر بھی غور کیا جائے گا، تاکہ فلسطینی عوام کے جائز حقوق کا تحفظ ہو اور دو ریاستی حل کے وژن کو تقویت ملے۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں شریک ممالک اقوام متحدہ کے پلیٹ فارمز پر آئندہ کے اقدامات کے لیے بھی مشاورت اور قریبی رابطہ برقرار رکھنے پر اتفاق کریں گے۔

خیال رہےکہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • ہوم بیسڈ ورکرز کے عالمی دن پرہوم نیٹ پاکستان کے تحت اجلاس
  • ماحولیاتی و آفات سے متعلق صحافت، دو روزہ قومی تربیتی ورکشاپ نے صحافیوں کو موسمیاتی شعور پر مبنی رپورٹنگ کیلئے بااختیار بنایا
  • حکومت بجلی، گیس و توانائی بحران پر قابوپانے کیلئے کوشاں ہے،احسن اقبال
  • غزہ کی جنگ بندی اور انسانی بحران پر استنبول میں اعلیٰ سطح اجلاس، مسلم وزرائے خارجہ کی شرکت متوقع
  • پاکستان میں تعلیم کا بحران؛ ماہرین کا صنفی مساوات، سماجی شمولیت اور مالی معاونت بڑھانے پر زور
  • ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
  • محاذ آرائی ترک کیے بغیر پی ٹی آئی کے لیے موجودہ بحران سے نکلنا ممکن نہیں، فواد چوہدری
  • ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی
  • سڑکیں کچے سے بدتر، جرمانے عالمی معیار کے
  • ایشیائی ترقیاتی بینک اور گرین کلائمٹ فنڈ پاکستان کے لیے موسمیاتی موافقت کے منصوبے کی منظوری