موسمیاتی تبدیلی ایک بڑھتا ہوا عالمی بحران اور پاکستان کی آزمائش
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
بارشیں ہمیشہ سے زمین کی زرخیزی اور فطری نظام کا حصہ رہی ہیں، لیکن جب یہی نعمت انسانی غفلت، حکومتی نااہلی اور ناقص انفراسٹرکچر کے باعث قیامت کی صورت اختیار کر لے تو سوال اٹھتے ہیں۔
کیا ہم موسمیاتی تبدیلی کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں؟ کیا ہمارے ادارے اس بڑھتے ہوئے عالمی بحران سے نمٹنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟
اسلام آباد اور راولپنڈی میں حالیہ موسلادھار بارشوں نے شہری زندگی مفلوج کر دی۔ سڑکیں ندی نالوں میں تبدیل ہو گئیں، ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوا، درخت اور سائن بورڈز تیز ہوا کے باعث گر پڑے، کئی گھروں کی چھتیں منہدم ہو گئیں، اور عوام ایک بار پھر بنیادی سہولیات کو ترستے نظر آئے۔ لوگ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کو پانی میں بہتے دیکھتے رہے لیکن کوئی مددگار نہ آیا۔
سوات واقعے میں چیئرمین انسپیکشن ٹیم نے عدالت میں اعتراف کیا کہ حادثے میں مختلف محکموں کی کوتاہی شامل ہے۔ یہ بیان نہ صرف ادارہ جاتی ناکامی کا ثبوت ہے بلکہ یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ کیا پاکستان میں انسانی جان کی کوئی قیمت ہے؟
اگر بروقت حفاظتی اقدامات کیے جاتے، ندی نالوں کی درست صفائی اور نکاسی کی جاتی، اور ضابطہ کار پر عمل درآمد ہوتا، تو شاید قیمتی جانیں ضائع نہ ہوتیں۔
امریکی ریاست ٹیکساس میں حالیہ شدید بارشوں اور سیلاب سے 24 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کا بحران صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ ایک عالمی چیلنج بن چکا ہے۔
تاہم، ترقی یافتہ ممالک اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدامات اور بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں، جبکہ پاکستان میں یہ معاملہ محض بیانات تک محدود ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کی کئی بنیادی وجوہات ہیں جن میں انسانی سرگرمیاں سب سے نمایاں ہیں۔ صنعتی فیکٹریوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسیں، خاص طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین، زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔
جنگلات کی بے دریغ کٹائی، جس کی جگہ پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور تجارتی مراکز تعمیر کیے جا رہے ہیں، ماحولیاتی توازن کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ ندی نالوں پر ناجائز تجاوزات اور ان کی بروقت صفائی نہ ہونا شہری علاقوں میں سیلاب کی بنیادی وجہ ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی اور غیر منصوبہ بند اربنائزیشن کے باعث سبزہ زار ختم ہو رہے ہیں، جو قدرتی ماحولیاتی نظام کے تحفظ میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔ سموگ کی شدت میں اضافہ بھی گاڑیوں، بھٹوں، اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں کا نتیجہ ہے جو نہ صرف ماحول بلکہ انسانی صحت پر بھی مضر اثرات مرتب کر رہا ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق جون کے مہینے میں سب سے زیادہ بارش کراچی کے علاقے گلشنِ حدید میں 210 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی۔ سب سے زیادہ درجہ حرارت جیکب آباد میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا۔
پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ کے مختلف علاقوں میں بارشوں کے باعث درجنوں چھتیں گریں، کئی افراد ملبے تلے دب گئے، جبکہ تیز ہواؤں نے درختوں اور سائن بورڈز کو جڑوں سے اکھاڑ دیا۔
موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پاکستان میں ہر سال ہزاروں خاندانوں کو ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار کر رہے ہیں۔ صرف جون سے اب تک مختلف حادثات میں 100 سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
موسلادھار بارشوں کے نتیجے میں درجنوں مکانات کی چھتیں گرنے سے خاندانوں کے خاندان بے گھر ہو چکے ہیں۔ تیز ہواؤں نے درختوں، بجلی کے کھمبوں اور سائن بورڈز کو گرا دیا، جس سے نہ صرف جانی نقصان ہوا بلکہ شہر کا نظام بھی مفلوج ہو گیا۔
پنجاب میں 10 ارب روپے سے زائد کا معاشی نقصان ریکارڈ کیا گیا ہے۔ سڑکیں اور پل تباہ ہونے سے آمدورفت متاثر ہوئی جبکہ کھڑی فصلیں تباہ ہو کر کسانوں کو شدید مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان میں موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے موجودہ حفاظتی اقدامات ناکافی اور غیر مؤثر ثابت ہو رہے ہیں۔ اگرچہ NDMA اور PDMA جیسے ادارے موجود ہیں، لیکن ان کے پاس جدید ٹیکنالوجی، مناسب فنڈز اور تربیت یافتہ عملے کی کمی ہے۔
بارشوں سے قبل الرٹ تو جاری ہوتے ہیں مگر نچلی سطح پر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ندی نالوں کی صفائی صرف کاغذی کارروائیوں تک محدود ہے، جس کے نتیجے میں ہلکی بارش بھی شدید سیلابی کیفیت اختیار کر لیتی ہے۔
بلدیاتی ادارے غیرفعال ہیں اور سیاسی مداخلت کے باعث انتظامی معاملات متاثر ہوتے ہیں۔ عوامی آگاہی مہمات کا بھی شدید فقدان ہے، جس سے عام شہری موسمی خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اور طویل المدتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے حکومت کو قومی ماحولیاتی ایمرجنسی کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ تمام ادارے متحرک ہوں۔
’گرین پاکستان‘ مہم کو نہ صرف جاری رکھا جائے بلکہ اس کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے ملک بھر میں شجرکاری کی مہمات کو منظم کیا جائے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی منظوری ماحولیاتی اثرات کی رپورٹ سے مشروط کی جائے اور ندی نالوں پر تجاوزات کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ NDMA اور PDMA کو جدید آلات اور ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے اور ان کے عملے کی تربیت کی جائے۔ سموگ کی روک تھام کے لیے فیکٹریوں، بھٹوں اور گاڑیوں کی مانیٹرنگ کا مؤثر نظام قائم کیا جائے۔
اسکولوں اور کالجوں میں ماحولیاتی تعلیم کو نصاب کا مستقل حصہ بنایا جائے تاکہ نئی نسل کو آغاز سے ہی اس مسئلے کی سنگینی سے آگاہی حاصل ہو۔
موسمیاتی تبدیلی اب صرف قدرتی تبدیلی نہیں بلکہ انسانی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ ہماری ترقیاتی ترجیحات میں ماحولیاتی تحفظ کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
جب تک حکومت، ادارے اور عوام مل کر اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیں گے، ہر سال مون سون اور سردیوں کی سموگ پاکستان میں انسانی المیے کو جنم دیتی رہے گی۔ ہمیں صرف بیانات اور اعلانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے، ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی ریاست پاکستان محکمہ موسمیات موسمیاتی تبدیلی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے پاکستان میں ندی نالوں رہے ہیں کے باعث
پڑھیں:
گیس بحران کے باوجود حکومت کا 30 ہزار نئے گھریلو کنکشنز دینے پر غور
گیس بحران اور مقامی گیس کے ذخائر میں کمی کے باوجود، حکومت نے ری گیسیفائیڈ لیکویفائیڈ نیچرل گیس (RLNG) کی بنیاد پر نئے 30 ہزار گھریلو کنکشنز دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم مقامی قدرتی گیس (Indigenous Gas) پر عائد پابندی بدستور برقرار رہے گی۔
سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (SNGPL) کے مینیجنگ ڈائریکٹر عامر طفیل کے مطابق، حکومت کی نئی پالیسی کے تحت یہ کنکشنز جون 30، 2025 تک اُن صارفین کو فراہم کیے جائیں گے جو RLNG کی بنیاد پر کنکشن لینے کے خواہشمند ہیں۔ ہمیں حکومت نے RLNG پر مبنی نئے گھریلو صارفین کو کنکشن دینے کی اجازت دے دی ہے، تاہم مقامی گیس پر پابندی تاحال برقرار ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب سمیت کمپنی کے سروس ایریاز میں گھریلو صارفین کی طرف سے کنکشن کے لیے جمع درخواستوں کا بیک لاگ 40 لاکھ سے تجاوز کر چکا ہے، جن میں سے قریباً 50 ہزار وہ صارفین ہیں جو RLNG پر مہنگا مگر دستیاب کنکشن لینا چاہتے ہیں۔
مزید پڑھیں: گیس پریشر میں کمی کے ذمہ دار صارفین کیوں؟ سوئی گیس حکام نے بتا دیا
پابندی کی وجوہات:یاد رہے کہ حکومت نے 4 سال قبل نئے گیس کنکشنز پر پابندی عائد کی تھی، کیونکہ ملک میں قدرتی گیس کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور سالانہ 8 سے 10 فیصد تک کمی واقع ہو رہی ہے۔
گزشتہ سال جنوری میں اس وقت کے وزیرِ مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے سینیٹ کو بتایا تھا کہ گیس کی کل پیداوار صرف 3200 ایم ایم سی ایف ٹی ہے، جس کا بڑا حصہ پاور اور فرٹیلائزر سیکٹر کو جاتا ہے، جبکہ گھریلو ضروریات پوری کرنا ممکن نہیں رہا۔
نئے RLNG کنکشنز کن کو دیے جائیں گے؟عامر طفیل کے مطابق،RLNG کنکشن صرف اُن نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز کو دیے جائیں گے جہاں زیرِ زمین گیس انفراسٹرکچر، NOC اور متعلقہ اجازت نامے موجود ہیں۔ دوسری جانب، سوئی سدرن گیس کمپنی (SSGC) نے بھی سندھ اور بلوچستان میں اسی طرز پر RLNG کنکشنز دینا شروع کر دیے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
RLNG SNGPL گھریلو کنکشنز گیس