محصولات کا اطلاق یکم اگست سے ہوگا؛ ٹرمپ کا نیا یوٹرن اور نئی دھمکی
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ محصولات کا اطلاق یکم اگست سے ہوگا تاہم اب بھی بے یقینی کی صورت حال برقرار ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ 9 جولائی کو ختم ہونے والی 90 روزہ معطلی کے بعد نئی محصولات کے بارے میں تجارتی شراکت داروں کو خط بھیجنا شروع کردیں گے۔
صحافیوں سے گفتگو میں امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے 12 یا 15 خطوط بھیج سکتے ہیں اور ساتھ ہی بعض معاملات میں معاہدے بھی کیے جا چکے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے اس امید کا اظہار کیا کہ زیادہ تر ممالک یا تو خط کے ذریعے یا کسی ڈیل کے ذریعے معاملات 9 جولائی تک طے کر لیں گے۔
تاہم جب صدر سے پوچھا گیا کہ آیا محصولات اس ہفتے ہی نافذ ہوں گی یا یکم اگست سے، تو انہوں نے اپنے بیان کو بار بار دہرایا اور واضح نہیں کیا۔
اس کے بعد امریکی کامرس سیکریٹری ہاورڈ لیٹنک نے مداخلت کی اور بتایا کہ نہیں محصولات یکم اگست سے نافذ ہوں گی، صدر ابھی شرحیں اور معاہدے طے کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ اپریل میں صدر ٹرمپ نے عموماً 10 فیصد کی بنیادی شرح اور کچھ درآمدات پر 50 فیصد تک اضافی محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بعد ازاں محصولات کو بھی 9 جولائی تک مؤخر کر دیا گیا تھا۔ اب یکم اگست کی نئی تاریخ شراکت داروں کو مزید تین ہفتے کی نرمی دیتی ہے تاہم اس دوران درآمد کنندگان کو بھی مزید غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا سائٹ Truth Social پر بھی اعلان کیا کہ پیر دوپہر سے “TARIFF Letters یا Deals” بھیجنا شروع ہو جائیں گے۔
انھوں نے اپنی پوسٹ میں یہ نئی دھمکی بھی دی کہ اگر کوئی ملک برکس ممالک (برازیل، روس، بھارت، چین، جنوبی افریقا) کے ’’امریکا خالف‘‘ مؤقف کا حصہ بنتا ہے تو اس پر اضافی 10 فیصد محصول بھی عائد کیا جائے گا۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پینٹاگون کی یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دینے کی منظوری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی محکمہ دفاع نے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے امریکی ساختہ ٹوماہاک میزائل فراہم کرنے کی منظوری دے دی ہے، جبکہ اس فیصلے پر آخری دستخط صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کرنے ہیں۔
امریکی میڈیا اور حکام کے مطابق پینٹاگون نے وائٹ ہاؤس کو رپورٹ کی ہے کہ یوکرین کو یہ میزائل دینے سے امریکا کے اپنے دفاعی ذخائر پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔ اس کے باوجود صدر ٹرمپ نے حال ہی میں یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ وہ یہ میزائل یوکرین کو دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اس ملاقات سے ایک روز قبل روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے بھی ٹیلیفونک گفتگو کی تھی جس میں پیوٹن نے خبردار کیا کہ ٹوماہاک میزائل ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ جیسے بڑے شہروں تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور ان کی فراہمی امریکا روس تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ ٹوماہاک کروز میزائل 1983 سے امریکی اسلحے کا حصہ ہیں۔ اپنی طویل رینج اور درستگی کے باعث یہ میزائل کئی بڑی عسکری کارروائیوں میں استعمال ہو چکے ہیں۔