data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (خصوصی رپورٹ / محمد علی فاروق) پاکستان میں جعل سازی کا عفریت خطرناک حد تک پھیل چکا ہے۔ جعلی ڈاکٹروں، پولیس افسران، انسپکٹروں کے بعد اب جعلی جج بھی منظر عام پر آ گیا ہے، جس کی گرفتاری نے پورے نظام کی کمزوریوں کو عیاں کر دیا ہے۔ یہ بڑھتا ہوا رجحان نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں بلکہ عدالتی اور انتظامی نظام کے لیے بھی لمحہ فکریہ بن چکا ہے، جہاں عوام کو حکومتی اداروں کے نام پر بے دریغ لوٹا جا رہا ہے۔ پولیس نے خود کو ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد ظاہر کرنے والا ایک جعلساز رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا گیا۔ یہ شخص ایک “فلمی” انداز میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھا۔ اس کے پاس جعلی نیلی بتی، سرکاری نمبر پلیٹ والی گاڑی، آٹومیٹک اسلحہ اور پرائیویٹ گن مین بھی موجود تھا۔ وہ لوگوں پر رعب جماتا اور مختلف طریقوں سے مالی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے اس کے اس ڈرامے کا خاتمہ کر دیا اور اسے گرفتار کر لیا۔یہ واقعہ اپنی نوعیت کا اکیلا نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں کراچی سے ایسے کئی عناصر کو گرفتار کیا گیا ہے جو جعلی سرکاری اہلکار بن کر عوام کو لوٹ رہے تھے۔ پچھلے دنوں ڈیفنس اور کلفٹن کے علاقوں سے کئی ایسے گروہ پکڑے گئے جو خود کو پولیس اہلکار ظاہر کرکے شہریوں سے لوٹ مار کرتے تھے۔ یہ ملزمان عام طور پر پولیس کی وردی یا ایسے لباس پہنتے تھے جو انہیں پولیس اہلکار ظاہر کرے اور ناکے لگا کر یا گھروں میں گھس کر وارداتیں کرتے تھے۔ بعض واقعات میں ایسے ملزمان بھی پکڑے گئے جو خود کو حساس اداروں کا اہلکار ظاہر کرکے لوگوں کو ڈراتے دھمکاتے اور ان سے مال بٹورتے تھے۔ ان کے پاس اکثر جعلی شناختی کارڈز اور بعض اوقات سرکاری اداروں سے ملتی جلتی گاڑیاں بھی ہوتی تھیں۔ جعلی اہلکاروں کا یہ رجحان صرف پولیس اور عدلیہ تک محدود نہیں، بلکہ صحت، تعلیم اور ٹیکس کے محکموں میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو خود کو سرکاری اہلکار ظاہر کرکے لوگوں سے فراڈ کرتے ہیں۔ یہ جعلی ڈاکٹر، جعلی انسپکٹر اور جعلی سرکاری افسر بن کر عوام کی صحت، تعلیم اور مالیات سے کھلواڑ کرتے ہیں۔اس طرح کے واقعات ملک کے نظام پر سنگین سوالات کھڑے کرتے ہیں،ایک عام شہری اتنی آسانی سے سرکاری اہلکار کا روپ دھار کر کیسے گھومتا رہا۔اسے جعلی دستاویزات، وردیاں، سرکاری اشیاء اور اسلحہ کہاں سے حاصل ہوا۔کیا یہ کسی منظم گروہ کا حصہ ہے جو بڑے پیمانے پر فراڈ میں ملوث ہے۔قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے عناصر کو روکنے میں کیوں مؤثر ثابت نہیں ہو رہے۔عوام میں بھی شدید تشویش پائی جاتی ہے کہ جب سرکاری اہلکاروں کے روپ میں ایسے فراڈ ممکن ہیں، تو وہ کس پر اعتماد کریں۔ یہ صورتحال نہ صرف عدالتی اور انتظامی نظام کی ساکھ کو متاثر کرتی ہے بلکہ معاشرتی اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچاتی ہے۔پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کو اس معاملے کی تہہ تک پہنچ کر ایسے تمام جعل سازوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنی چاہیے۔ مزید یہ کہ عوام کو بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور کسی بھی سرکاری اہلکار کی شناخت پر شبہ ہونے کی صورت میں فوری طور پر متعلقہ محکمے یا مددگار 15 پر اطلاع دینی چاہیے۔ حکومت کو بھی سرکاری شناخت اور دستاویزات کے تحفظ کے لیے مزید سخت اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سرکاری اہلکار اہلکار ظاہر خود کو

پڑھیں:

کیا اب پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ایسے ہی چلے گی؟

لاہور:

ایشیا کپ میں پاکستان اور انڈیا کے میچ نے اسپورٹس مین اسپرٹ کی پامالی، کرکٹ روایات کی دھجیاں اڑانے سمیت کئی سوالات کھڑے دیے۔

ایشیا کپ میں پاکستان کے خلاف میچ میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے رویے نے گیم آف جنٹلمین کہلانے والے کھیل کو داغدار کرنے کے ساتھ اس کی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔

روایات کی پامالی، اسپورٹس مین اسپرٹ کی خلاف ورزی اور میچ ریفری کے متنازع کردار پر آئی سی سی اور ایشین کرکٹ کونسل نے بھی چپ سدھ لی ہے۔

پہلا سوال، میچ ریفری نے کن رولز اور کس کے کہنے پر ٹیموں کے کپتانوں کو ٹاس کے وقت ہاتھ نہ ملانے کی احکامات دیے۔

دوسرا سوال، پاکستان کی بیٹنگ کے دوران بھارتی بولرز کی ہر اپیل پر امپائرز کا انگلی اٹھانا کیا سوچا سمجھا منصوبہ تھا؟

تیسرا سوال، کیا بھارتی ٹیم نے طے شدہ منصوبے کے تحت میچ ختم ہونے کے بعد ڈریسنگ روم سے باہر آکر پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہاتھ نہیں ملایا؟

چوتھا سوال، اختتامی تقریب میں بھارتی کپتان کی جانب سے جیت کو پہلگام واقعے سے جوڑ کر کھیل میں سیاست کو لانے پر بھی کوئی ایکشن ہوگا؟

پانچواں سوال، اس سارے معاملے میں تاحال آئی سی سی کرکٹ کونسل اب تک خاموش کیوں، کیا اب کرکٹ ایسے ہی چلے گی؟

چھٹا سوال، کیا پاکستانی ٹیم مینجر کی بھارتی رویے پر میچ ریفری کو شکایت پر کوئی ایکشن ہوگا؟

دوسری جانب اے سی سی کے صدر اور پی سی بی کے چیئرمین سید محسن نقوی بھی اس ساری صورتحال پر سخت رنجیدہ ہیں۔

انکا موقف ہے کہ پاک بھارت میچ میں اسپورٹس مین شپ نہ دیکھ کر مایوسی ہوئی، کھیل میں سیاست کو گھسیٹنا اس کی اصل روح کے خلاف ہے، اُمید ہے آئندہ فتوحات تمام ٹیمیں وقار اور خوش اخلاقی سے منائیں گی۔

قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ مائیک ہیسن نے بھی اختتامی تقریب میں پاکستانی ٹیم کے کپتان کی عدم موجودگی کو بھارتی رویہ کا جواب قرار دیا ہے۔

پاکستان اور انڈیا کا میچ تو ختم ہوگیا لیکن بھارتی کرکٹ اور آئی سی سی کے گھناؤنے کرداروں کو پوری دنیا کے سامنے عیاں کر دیا ہے۔ کرکٹ سے دیوانہ وار پیار کرنے والے پوچھ رہے ہیں کہ کیا اب پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ایسے ہی چلے گی۔

متعلقہ مضامین

  • صوابی: ٹک ٹاک پر غیراخلاقی ویڈیو وائرل کرنے والا لڑکا  گرفتار
  • پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹرکوسرکاری گاڑی میں سواریاں بٹھانا مہنگا پڑ گیا
  • لیویز اور پولیس نے حملے پر جوابی کارروائی کی، ڈی سی شیرانی
  • جعلی فٹبال ٹیم بنا کر 17 افراد کو جاپان بھجوانے والا ایجنٹ گرفتار
  • چارسدہ میں اشتہاریوں کی فائرنگ سے پولیس اہلکار شہید‘ سب انسپکٹر زخمی
  • خیبرپختونخوا کے سرکاری اداروں کی نجکاری اور پنشن اصلاحات کیخلاف ملازمین کا سڑکوں پر آنے کا عندیہ
  • سرکاری اداروں کی اجتماعی آڈٹ رپورٹ میں بڑی غلطیوں کا انکشاف
  • رہنماء کی گرفتاری قابل مذمت، کسی دباؤ میں نہیں آئینگے، جے یو آئی کوئٹہ
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور صوبائی وزرا دہشتگردی کا مقابلہ کرنیوالے سیکیورٹی اہلکاروں کے جنازوں میں شرکت کیوں نہیں کرتے؟
  • کیا اب پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ایسے ہی چلے گی؟