کراچی کے مشہور ساحل پر لاکھوں سیپوں کا انوکھا نظارہ، ماہرین حیران
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
کراچی کی کلِفٹن بیچ پر ایک غیر معمولی اور حیران کن قدرتی منظر اُس وقت دیکھنے کو ملا جب ساحل پر لاکھوں زندہ سیپ (Oysters) اچانک اُمڈ آئے۔ عینی شاہدین کے مطابق ساحل کی ریت پر ہر طرف چمکتے ہوئے خول بکھرے ہوئے تھے، جن میں سے کئی ابھی تک زندہ تھے اور حرکت کررہے تھے۔
یہ منظر دیکھنے کے لیے شہریوں کی بڑی تعداد ساحل پر جمع ہو گئی، جنہوں نے سیپوں کے خول جمع کیے اور اس غیر معمولی واقعے کو اپنے موبائل کیمروں میں محفوظ کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ واقعہ سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث بن گیا اور تصاویر و ویڈیوز وائرل ہو گئیں۔
یہ بھی پڑھیں: سوات کی روایتی خوراک گونگڑی میں خاص کیا ہے؟
ماہرینِ حیاتیات کے مطابق یہ مظاہرہ غیر معمولی سمندری لہروں اور ہوا کے رخ میں اچانک تبدیلی کی وجہ سے پیش آیا۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ٹیکنیکل ایڈوائزر، معظم خان کے مطابق تیز ہواؤں نے سمندر کی تہہ میں موجود سیپوں کو اُن کے قدرتی مسکن سے اکھاڑ کر ساحل تک پہنچا دیا۔
معظم خان نے وضاحت کی کہ اگرچہ عام طور پر آلودگی کی وجہ سے سیپ ہلاک ہوجاتے ہیں، لیکن اس موقع پر زندہ سیپوں کی بڑی تعداد یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ قدرتی لہروں کا نتیجہ تھا، نہ کہ آلودگی کا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان سیپوں میں بڑی تعداد میں ’بلڈ کلیمز‘ین حیران بھی شامل تھے، جو سمندری بائیوالو (دو خول والے) جانوروں کی ایک قسم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹیونا مچھلی چھ کروڑ سے زائد میں فروخت
واقعے کے بعد کلِفٹن کنٹونمنٹ بورڈ نے فوری صفائی مہم شروع کر دی اور بھاری مشینری کے ذریعے سیپوں کی باقیات کو ہٹانے کا کام جاری رکھا۔ گرمی کے باعث جب یہ مخلوق مرنے لگی تو تیز بدبو نے ماحول کو متاثر کیا، جس پر بروقت اقدامات کیے گئے۔
واضح رہے کہ سیپ سمندری خول دار جاندار ہوتے ہیں جن کا گوشت کئی ایشیائی ممالک، جیسے تھائی لینڈ، چین، کوریا، ملائیشیا اور انڈونیشیا میں لذیذ خوراک سمجھا جاتا ہے۔ بعض اقسام جیسے کہ پرل اویسٹر، نایاب طور پر قدرتی موتی بھی پیدا کرتی ہیں، جو زیورات میں استعمال کیے جاتے ہیں۔
عموماً دنیا بھر کے ساحلوں پر سیپ کے خالی خول ملتے ہیں، لیکن اس بار کلِفٹن کے ساحل پر زندہ سیپوں کی بھرمار نے سب کو حیران کر دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ مظاہرہ ایک نایاب اور قابلِ مطالعہ قدرتی واقعہ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اوسٹرز ساحل سمندر سیپی کراچی کلفٹن بیچ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اوسٹرز سیپی کراچی کے مطابق
پڑھیں:
ماہرین نے فضائی آلودگی اور اسموگ میں کمی کا حل بتا دیا
لاہور:جیسے ہی سردیاں شروع ہوئیں، لاہور ایک بار پھر خطرناک فضائی آلودگی اور اسموگ کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔ مگر ماہرین ماحولیات کے مطابق اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے قدرتی حل خود فطرت میں موجود ہے، درخت اور پودے، جو فضا کے لیے قدرتی فلٹر کا کردار ادا کرتے ہیں۔
باغِ جناح لاہور کے ڈائریکٹر جلیل احمد کے مطابق چوڑے پتوں والے درخت جیسے برگد، جامن ، پیپل، نیم، شیشم، املتاس اور اریٹا گرد و غبار اور کاربن کے ذرات کو مؤثر انداز میں جذب کرتے ہیں، جس سے فضا صاف اور آکسیجن کی مقدار متوازن رہتی ہے۔ درخت نہ صرف آکسیجن پیدا کرتے ہیں بلکہ مٹی اور کاربن کے ذرات کو روک کر فضا کو صاف رکھتے ہیں۔
لاہور میں بڑھتی تعمیرات اور کم ہوتے سبزے کے باعث شہری جنگلات (اربن فاریسٹری) اور چھتوں پر باغبانی (روف ٹاپ گارڈننگ) کا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔
پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی (پی ایچ اے) کے مطابق شہر کی 500 سے زائد عمارتوں پر روف ٹاپ گارڈنز قائم کیے جا چکے ہیں جن میں پھل دار پودے، سبزیاں اور گھاس شامل ہیں۔ یہ گارڈنز نہ صرف نقصان دہ گیسوں کو جذب کرتے ہیں بلکہ درجہ حرارت کو اوسطاً 2 سے 5 ڈگری سینٹی گریڈ تک کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
پی ایچ اے کے ڈائریکٹر جنرل راجہ منصور احمد کے مطابق لنگز آف لاہور منصوبہ شہر میں فضائی آلودگی کے تدارک کے لیے ایک ماڈل کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔ منصوبے کے تحت 48 لاکھ سے زائد پودے لگائے جائیں گے، جو 112 کلومیٹر طویل اور 1711 ایکڑ پر محیط جنگلاتی پٹی (رِنگ فاریسٹیشن) کا حصہ ہوں گے۔ اس منصوبے سے دو کروڑ سے زائد شہری براہِ راست فائدہ اٹھائیں گے۔
ماہر ماحولیات نسیم الرحمن کہتے ہیں کہ فضائی آلودگی اور اسموگ میں کمی کے لیے جہاں فیکٹریوں، کارخانوں اور گاڑیوں سے خارج ہونے والی آلودگی کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے وہیں شہری علاقوں میں اربن فاریسٹری اور روف ٹاپ گارڈننگ کا فروغ بھی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اربن فاریسٹری اور روف ٹاپ گارڈننگ شہری درجہ حرارت کم کرنے کے ساتھ بارش کے پانی کے مؤثر استعمال کا ذریعہ بھی ہے۔ یہ شہری ماحولیاتی دباؤ کم کرنے کا ایک پائیدار حل ہے۔
ماہر جنگلات بدر منیر کے مطابق دنیا بھر میں فضائی آلودگی کے خلاف سب سے مؤثر حیاتیاتی ہتھیار درخت ہیں۔ محکمے کی رپورٹ کے مطابق برگد کو فضائی آلودگی صاف کرنے کے لحاظ سے سب سے مؤثر درخت قرار دیا گیا ہے، اس کے بعد ارجن اور جامن کے درخت فضا سے مضر ذرات جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ درختوں کی بقا اور مؤثریت کا انحصار ان کی دیکھ بھال پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خشک یا بیمار درخت اپنی افادیت کھو دیتے ہیں اور بعض اوقات خود کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے لگتے ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ شہروں میں مقامی درختوں کو ترجیح دی جائے اور شہریوں میں ان کی دیکھ بھال کا شعور پیدا کیا جائے۔
ماہرین متفق ہیں کہ اگر شہری سطح پر مقامی درختوں کی شجرکاری، روف ٹاپ گارڈننگ اور مناسب دیکھ بھال کے اقدامات مستقل بنیادوں پر کیے جائیں تو لاہور جیسے شہروں میں اسموگ اور فضائی آلودگی کے اثرات میں نمایاں کمی ممکن ہے۔