اسمارٹ فونز کے زیادہ استعمال سے بچوں کی سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، تحقیق
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسمارٹ فونز کا استعمال آج کل بیشتر گھروں میں روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے، مگر ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ بچپن میں اسکرین کے سامنے زیادہ وقت گزارنا بچوں کی سیکھنے اور بولنے کی صلاحیت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
یہ انکشاف امریکا کی Southern Methodist University میں کی گئی ایک طبی تحقیق میں ہوا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اسمارٹ فونز یا دیگر اسکرینز کا حد سے زیادہ استعمال بچوں کی ذہنی نشوونما کو متاثر کرتا ہے۔ بچے بہتر طور پر اس وقت سیکھتے ہیں جب وہ حقیقی چیزوں سے کھیلتے اور انہیں چھوتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق، جب بچے کسی چیز کا نام سیکھتے ہیں، جیسے “سیب”، تو یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ اس چیز کو ہاتھ لگائیں، اسے مختلف زاویوں سے دیکھیں، اور اس کی ساخت محسوس کریں۔ صرف تصویر دیکھنے سے وہ تمام تفصیلات نہیں سیکھ پاتے۔
سیدھی زبان میں کہا جائے تو بچوں کو کسی شے کو صرف اسکرین پر دکھانے سے وہ تجربہ حاصل نہیں ہوتا جو حقیقی زندگی میں اُسے چھونے اور برتنے سے حاصل ہوتا ہے۔
محققین نے مشورہ دیا کہ بچوں، خصوصاً ابتدائی عمر کے بچوں، کو اسمارٹ فون یا اسکرینز کے استعمال سے حتی الامکان دور رکھا جائے، کیونکہ یہی وہ دور ہوتا ہے جب ان کی دماغی نشوونما اور زبان سیکھنے کی صلاحیتیں تیزی سے ترقی کرتی ہیں۔
انہوں نے والدین کو یہ بھی تجویز دی کہ اگر وہ بچوں کو مصروف رکھنے کے لیے اسمارٹ فون دیتے ہیں تاکہ خود سکون سے اپنا کام کر سکیں، تو بہتر ہوگا کہ اس کی جگہ انہیں کھلونے یا دیگر تخلیقی سرگرمیوں میں مشغول کیا جائے۔
اس سے قبل ستمبر 2024 میں Tartu University (ایسٹونیا) کی ایک تحقیق میں بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ اسکرین کا زیادہ استعمال بچوں کی بولنے کی صلاحیت کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بچوں کی
پڑھیں:
گندم کی قیمت 4700 روپے فی من مقرر کی جائے،سندھ آبادگار بورڈ کا مطالبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-2-14
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)سندھ آبادگار بورڈ نے مطالبہ کیا ہے کہ گندم کی امدادی قیمت 4700 روپے فی من اور گنے کی قیمت 500 روپے فی من مقرر کی جائے۔ بورڈ نے پیاز کی فصل کی تباہی کی بڑی وجہ زرعی تحقیق کی کمی کو بھی قرار دیا ہے۔اس سلسلے میں سندھ آبادگار بورڈ کا اجلاس صدر محمود نواز شاہ کی زیر صدارت حیدرآباد میں ہوا، جس میں ڈاکٹر محمد بشیر نظامانی، عمران بزدار، محمد اسلم مری، طھ میمن، یار محمد لغاری، ارباب احسن، عبدالجلیل نظامانی، مراد علی شاہ بکیرئی اور دیگر نے شرکت کی۔اجلاس میں کاشتکاروں نے زراعت سے متعلق اہم مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مطلوبہ زرعی تحقیق نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے نئی اور بہتر ٹیکنالوجیز بھی متعارف نہیں ہو رہی اور مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زرعی تحقیق کی کمی کے باعث پیاز کی فصل کی تباہی بھی اس کی واضح مثال ہے۔۔اجلاس کو بتایا گیا کہ اکتوبر اور نومبر میں پیدا ہونے والی پیاز نہ صرف سال بھر کی مقامی طلب پوری کر رہی تھی بلکہ برآمد بھی کی جا رہی تھی۔ لیکن گزشتہ تین سالوں سے اکتوبر اور نومبر میں پیاز کی فصل تباھ ہوتی رہی اور اس مسئلے کے حل کے لیے نہ تو تحقیق کی گئی اور نہ ہی اسے بچانے کے لیے کوئی اور موثر اقدامات کیے گئے، جس کی وجہ سے کسانوں کی اکثریت نے پیاز اگانا بند کر دی۔ نتیجتا پاکستان کو اب پیاز برآمد کرنے کی بجائے مزید درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔سندھ آبادگار بورڈ نے کہا ہے کہ زراعت میں مسلسل تحقیق اور ترقی ضروری ہے، کیونکہ کم پیداوار، فصل سے پہلے اور بعد میں ہونے والے نقصانات اور موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ مضبوط زرعی تحقیق کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ زراعت کو پائیدار رکھنا بہت ضروری ہے۔سندھ آبادگار بورڈ کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے پیداواری لاگت میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اگر زرعی مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت کو پورا نہیں کرتیں تو ان کی کاشت معاشی طور پر ناقابل عمل ہو جائے گی۔ اس لیے زرعی معیشت کو بچانے کے لیے زرعی اجناس کی کم از کم امدادی قیمت کا تعین کرنا بہت ضروری ہے۔ اجلاس میں سندھ آبادگار بورڈ نے مطالبہ کیا کہ گندم کی فی من امدادی قیمت 4700 روپے اور گنے کی قیمت 500 روپے فی من مقرر کی جائے یہ امدادی قیمتیں کاشت کی لاگت اور کسانوں کے معقول منافع کو مدنظر رکھتے ہوئے طئے کی گئی ہیں۔ جہاں زرعی مصنوعات کی مفت برآمد کی اجازت نہیں ہے وہاں حکومت سپورٹ پرائس مقرر کرے۔سندھ آبادگار بورڈ نے گندم کی کاشت کے لیے چھوٹے کاشتکاروں کو ڈی اے پی اور یوریا کھاد فراہم کرنے کے حوالے سے سندھ حکومت کے اقدام کو بھی سراہا اور کہا کہ اس پروگرام کی کامیابی کا دارومدار کسانوں کے لیے دیگر متعلقہ امور میں سہولت فراہم کرنے پر ہے۔