مری میں دلکش موسم، بادل زمین پر اُتر آئے
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ملکہ کوہسار مری میں موسم نے دلکشی کی نئی مثال قائم کر دی ہے، جہاں بادل زمین پر اتر آئے ہیں۔ ٹھنڈی ہواؤں، دھند اور کم ہوتی حد نگاہ نے نہ صرف نظاروں کو خوابناک بنا دیا ہے بلکہ سیاحوں کو بھی بڑی تعداد میں مری کی جانب کھینچ لایا ہے۔
گاڑیوں کی طویل قطاریں، مقامی ہوٹلوں میں گہما گہمی، اور سیاحوں کے چہروں پر خوشی کے تاثرات—یہ سب موسم کی خوبصورتی کا عکس ہیں۔
تاہم، محکمہ موسمیات نے اگلے 24 گھنٹوں میں بارش اور ژالہ باری کی پیش گوئی کی ہے، جس کے پیش نظر ٹریفک پولیس نے احتیاطی سفری ہدایات جاری کی ہیں۔ مری میں اس وقت درجہ حرارت 20 سے 25 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان ہے جو موسم کو نہایت خوشگوار بنا رہا ہے۔
دوسری جانب این ڈی ایم اے نے 10 جولائی تک شدید بارشوں اور ممکنہ سیلابی صورتحال کا الرٹ جاری کیا ہے۔ دریائے سندھ، کابل، چناب اور جہلم سمیت دیگر علاقوں میں پانی کی سطح بڑھنے کا امکان ہے، اور مختلف مقامات پر نچلے درجے کے سیلاب کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
پہاڑی علاقوں میں ندی نالوں میں طغیانی جبکہ لاہور، سیالکوٹ، راولپنڈی جیسے شہروں میں اربن فلڈنگ کا خطرہ ہے۔ شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ سفر یا تفریح کی منصوبہ بندی کرتے وقت محکمہ موسمیات اور مقامی انتظامیہ کی ہدایات کو ضرور مدِنظر رکھیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
مریخ پر زندگی کی تلاش: ناسا کے تازہ ترین انکشافات کی کہانی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سائنس کی دنیا میں مریخ پر زندگی کے امکان پر ہونے والی بحث نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے۔ ناسا کے حالیہ تحقیقی نتائج نے سرخ سیارے کے بارے میں کئی دیرینہ سوالات کے جواب دیے ہیں۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے سائنسدان ڈاکٹر ایڈون کائٹ کی قیادت میں کی گئی اس تحقیق نے مریخ کے ماضی اور موجودہ حالات کے بارے میں اہم انکشافات کیے ہیں۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مریخ نے اپنے ارتقائی سفر میں مختصر مدتی نمی کے دورانیے ضرور دیکھے ہیں، لیکن یہ سیارہ بنیادی طور پر ایک خشک اور زندگی کےلیے بنجر دنیا رہا ہے۔ ڈاکٹر کائٹ کے مطابق ’’مریخ پر پانی کے وجود کے ثبوت تو موجود ہیں، لیکن یہ کبھی بھی زمین جیسا مستقل اور پائیدار آبی ماحول نہیں رہا‘‘۔
سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں مریخ کی چٹانوں کے نمونوں اور زمینی ماڈلز کا گہرائی سے تجزیہ کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق مریخ پر پانی کے بہاؤ کے شواہد ضرور ملتے ہیں، لیکن یہ واقعات وقتی اور مقامی نوعیت کے تھے۔ ڈاکٹر کائٹ اس کا موازنہ صحرا میں کسی نخلستان سے کرتے ہیں جو ایک محدود اور عارضی کیفیت ہوتی ہے۔
زمین اور مریخ کے ماحولیاتی نظاموں میں بنیادی فرق کو واضح کرتے ہوئے ماہرین نے بتایا کہ جہاں زمین پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کا توازن برقرار رہتا ہے، وہیں مریخ پر یہ نظام کبھی بھی مستحکم نہیں ہوسکا۔ مریخ کے آتش فشانی نظام کے کمزور ہونے سے یہاں کا درجہ حرارت ہمیشہ کم رہا، جس کے نتیجے میں پانی طویل عرصے تک سطح پر موجود نہ رہ سکا۔
حالیہ برسوں میں ناسا کے کیوروسٹی روور اور دیگر مشنز نے مریخ کی سطح پر کاربونیٹ معدنیات کی موجودگی کا پتہ لگایا ہے۔ یہ معدنیات زمین پر چونے کے پتھروں کی طرح فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتی ہیں۔ اس دریافت نے سائنسدانوں میں اس خیال کو تقویت دی ہے کہ شاید ماضی میں مریخ کا ماحول زندگی کےلیے زیادہ موزوں رہا ہو۔
فلکیاتی تحقیق کے موجودہ دور میں مریخ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر کائٹ کہتے ہیں کہ ’’مریخ ہمارے لیے ایک منفرد موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ زمین کے قریب ترین سیارہ ہے جہاں سے ہم نمونے لے کر ان کا زمین پر تجزیہ کرسکتے ہیں‘‘۔
اگرچہ اب تک کی تحقیق سے مریخ کی سطح پر زندگی کے موجودہ یا ماضی کے ثبوت نہیں ملے ہیں، لیکن سائنسدان زیر زمین پانی کے ذخائر میں زندگی کے آثار کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر کائٹ کے مطابق ’’اگر ہم مریخ سے نمونے زمین پر لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، تو ہم اس بنیادی سوال کا جواب دے سکیں گے کہ کیا زمین کے علاوہ کسی اور جگہ زندگی موجود ہے‘‘۔
یہ تحقیق نہ صرف مریخ کے ماضی کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگی، بلکہ یہ ہمیں یہ جاننے میں بھی معاون ہوگی کہ کائنات میں زندگی کا ظہور ایک عام واقعہ ہے یا پھر ایک نایاب اور منفرد عمل۔ جیسے جیسے ہماری تحقیق آگے بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے ہم کائنات اور اس میں زندگی کے مقام کو بہتر طور پر سمجھ پا رہے ہیں۔