کے پی حکومت کا ضم اضلاع کے متعلق وفاقی کمیٹی پر تحفظات کا اظہار
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
پشاور(ڈیلی پاکستان آن لائن) خیبرپختونخوا حکومت نے ضم اضلاع کے حوالے سے قائم وفاق کی کمیٹی پر تحفظات کا اظہار کر دیا۔
نجی ٹی وی دنیا نیوز کے مطابق خیبرپختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے اسلام آباد میں کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعلیٰ کے نمائندہ کی حیثیت سے شرکت کی، چیف سیکرٹری اور آئی جی بھی شریک ہوئے۔
بیرسٹر سیف نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت کی مشاورت کے بغیر کمیٹی کی تشکیل سوالیہ نشان ہے، ضم شدہ اضلاع کا سب سے بڑا سٹیک ہولڈر خیبر پختونخوا ہے، مگر کمیٹی کی تشکیل میں خیبر پختونخوا سے مشاورت نہیں کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ضم اضلاع حساس علاقے ہیں، وہاں کسی بھی قسم کی تبدیلی خیبر پختونخوا سے مشاورت کے بغیر ناقابلِ قبول ہوگی، ضم اضلاع خیبر پختون خوا کا باقاعدہ حصہ ہیں، کمیٹی کی تشکیل کی مشاورت میں نظرانداز کرنا قابل قبول نہیں ہے۔
انہوں نے پوچھا کہ خیبرپختونخوا کے ضم اضلاع کا فیصلہ کرنے والے امیر مقام کون ہیں؟ امیر مقام تو خود مسترد شدہ ہیں اور فارم 47 کے سہارے پارلیمنٹ پہنچے، مسترد شدہ آدمی کیسے قبائلی اضلاع کے فیصلہ کرسکتے ہیں، کمیٹی کے ارکان کس نے اور کیسے منتخب کیے، ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گی
بھارت آپریشن سندور کے دوران اپنے مقرر کردہ فوجی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا، فیلڈ مارشل عاصم منیر
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: خیبر پختونخوا ضم اضلاع
پڑھیں:
خیبر پختونخوا میں سینیٹ انتخابات، حکومت اور اپوزیشن کو کتنی نشستیں ملنے کا امکان ہے؟
خیبر پختونخوا سے سینیٹ کی 11 نشستوں پر انتخابات 21 جولائی کو منعقد ہوں گے، ان انتخابات کے بعد یہ واضح ہو جائے گا کہ کیا قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ میں بھی حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو سکتی ہے یا نہیں، اس وقت سینیٹ کی کل 96 نشستوں میں سے 54 نشستیں حکمراں اتحاد کے پاس ہیں اور دو تہائی اکثریت کے لیے حکمران اتحاد کو مزید 10 نشستیں یعنی کل 64 نشستیں درکار ہیں۔
سینیٹ کی 7 جنرل نشستوں، 2 خواتین اور 2 علما یا ٹیکنوکریٹ کی نشستوں پر انتخابات ہونا ہیں، ذرائع کے مطابق اگر جمیعت علماء اسلام اور پی ٹی آئی کے تمام ارکان پارٹی ڈسپلن کی پاسداری کریں تو حکمران اتحاد کو صرف ایک نشست ملنے کا امکان ہے، جبکہ اگر پی ٹی ائی کے کچھ ارکان حلف کی خلاف ورزی کریں اور جمیعت علما اسلام حکمراں اتحاد کا ساتھ دے تو اس صورتحال میں حکمراں اتحاد کو 5 نشستیں ملنے کا امکان ہے اس کے علاوہ جمعیت علماء اسلام ف کی پہلے سے سینیٹ میں 5 نشستیں موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
21 جولائی کو متوقع انتخابات میں حکمراں اتحاد اگر 5 نشستیں حاصل کر لیتا ہے اور سینیٹ میں جمیعت علما اسلام ف کی بھی حمایت حاصل کرلیتا ہے تو حکمراں اتحاد کو سینیٹ میں بھی دو تہائی اکثریت یعنی کہ 64 ارکان کی حمایت حاصل ہو جائے گی، اس طرح حکمراں اتحاد کے لیے قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی آئینی ترمیم کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
اس وقت سینیٹ کی کل 96 نشستوں میں سے 83 نشستوں پر ارکان موجود ہیں، 11 نشستوں پر اب 21 جولائی کو انتخاب ہونا ہے اس کے علاوہ پروفیسر ساجد میر کے انتقال اور ثانیہ نشتر کے استعفے کے بعد خالی نشستوں پر بھی انتخاب ہونا ہے۔
مزید پڑھیں:
حکمراں اتحاد کے پاس اس وقت 54 جبکہ اپوزیشن کے پاس 29 نشستیں ہیں، 83 نشستوں میں سے 3 نشستیں عوامی نیشنل پارٹی، 4 نشستیں بلوچستان عوامی پارٹی، 6 نشستیں آزاد اراکین، 5 نشستیں جمعیت علما اسلام ف، ایک نشست مجلس وحدت المسلمین کی ہیں۔
اسی طرح 3 نشستیں ایم کیو ایم، ایک نشست نیشنل پارٹی، ایک نشست پاکستان مسلم لیگ، 18 نشستیں پاکستان مسلم لیگ ن، 24 نشستیں پاکستان پیپلز پارٹی، 16 نشستیں پاکستان تحریک انصاف اور ایک نشست سنی اتحاد کونسل کے پاس ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایم کیو ایم بلوچستان عوامی پارٹی پروفیسر ساجد میر پیپلز پارٹی تحریک انصاف ثانیہ نشتر جمیعت علما اسلام حکمراں اتحاد خیبر پختونخوا سنی اتحاد کونسل سینیٹ قومی اسمبلی مسلم لیگ