اب ہمیں معاشی جنگ جیتنی ہے: غریدہ فاروقی
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
لاہور (ویب ڈیسک) سینئر صحافی و اینکرپرسن غریدہ فاروقی نے کہا ہے کہ ہمیں جو جنگ جیتنی ہے وہ معاشی ترقی کی ہے لیکن معذرت کے ساتھ اس میں شہبازشریف کی حکومت انتہائی کمزورنظرآتی ہے، ابھی وزارت خزانہ کی اپنی رپورٹ اٹھا کر دیکھ لیں، اس میں بھی اعدادوشمار اچھے نہیں۔
نجی ٹی وی چینل 365کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ان کاکہناتھاکہ میں سمجھتی ہوں کہ اس وقت آپ کے جو وزیر خزانہ ہیں، کوئی بینکر کبھی بھی معیشت نہیں چلاسکتا، ہمیں ہرچند سال بعد یہ بات کرنے کی ضرورت آخرکیوں پیش آتی ہے؟ آپ نے معیشت چلانی ہے تو آپ کو ایک ماہر چاہیے ، اس ٹیم کا سربراہ کوئی سیاسی شخصیت ہونی چاہیے جسے کچھ علم بھی ہوا اوراس کا عوامی سطح پر احتساب بھی ہو۔
ان کامزید کہناتھاکہ یہ بینکرز اور ٹیکنوکریٹ آتے ہیں، کچھ عرصہ انجوائے کرتے ہیں ،تنخواہیں، گاڑیاں اور مراعات لیتے ہیں ، اس کے بعد اپنی اپنی جگہوں پر اڑان بھرجاتے ہیں، کوئی عالمی بینک چلاجاتا ہے توآئی ایم ایف تو کوئی کہیں اور۔
اے ایف سی ویمنز ایشین کپ کوالیفائرز، انڈونیشیا کے بعد پاکستان نے کرغزستان کو بھی شکست سے دوچار کردیا
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی نے ملک چھوڑ کر چلے گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور:3 برس میں تقریباً 30 لاکھ پاکستانی ملک کو خیرباد کہہ گئے، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری نے ملک کے نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔ بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاو ¿نٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔
پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاو ¿نٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔ باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔
بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔ خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔