ویب ڈیسک :سابق وزیر ابراہیم مراد نے کہا کہ آئی ایم ایف سخت ٹیکسیشن کی بجائے پائیدار معاشی ترقی کو ترجیح دے۔

 ابراہیم مراد نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان کی مڈل کلاس 70 فیصد تک سکڑ چکی ہے، 44.7 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، گزشتہ 8 سے 10 سہ ماہیوں میں صنعتی پیداوار مسلسل تنزلی کا شکار رہی ہے، کاروبار معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، ریاست کو ان کا تحفظ یقینی بنانا چاہئے، سرمایہ کاری روزگار، پیداوار اور معاشی استحکام کی بنیاد ہے۔

سکولوں کی انسپکشن کرنے والے افسران کی آن لائن مانیٹرنگ کا فیصلہ

 سابق وزیر کا مزید کہنا تھا کہ بھاری ٹیکسیشن اور مہنگائی کاروباری مارجن کو شدید متاثر کر رہی ہے، سرمایہ کاری کے فروغ سے مڈل کلاس کو استحکام اور صنعت کو نئی جہت ملے گی، معیشت کی بحالی سرمایہ کاروں کو بااختیار بنانے سے ممکن ہے، بوجھ ڈالنے سے نہیں۔
 
 

.

ذریعہ: City 42

پڑھیں:

خواتین کی معاشی ترقی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اگرچہ پاکستان کی رسمی افرادی قوت میں خواتین کی تعداد نہایت کم ہے، لیکن گلگت بلتستان کے چند دیہات میں خواتین کی قیادت میں قائم کاروبار روایت کو چیلنج کر رہے ہیں۔ بِی بی آمنہ نے 2008 میں 30 برس کی عمر میں اپنی کارپینٹری ورکشاپ قائم کی، وہ کہتی ہیں: ’ہمارے پاس 22 ملازمین ہیں اور ہم تقریباً 100 خواتین کو تربیت دے چکے ہیں۔‘
وادی ہنزہ، جس کی آبادی تقریباً 50 ہزار ہے، خوبانی، چیری، اخروٹ اور شہتوت کے باغات سے بھرے پہاڑوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 2024 تک پاکستان میں صرف 23 فیصد خواتین رسمی طور پر افرادی قوت کا حصہ تھیں۔دیہی علاقوں میں خواتین شاذ و نادر ہی کسی باقاعدہ ملازمت میں نظر آتی ہیں، البتہ وہ اکثر کھیتوں میں خاندان کی آمدن بڑھانے میں ہاتھبٹاتی ہیں۔گذشتہ سال شائع ہونے والے ایک گیلپ سروے کے مطابق ایک تہائی خواتین نے بتایا کہ ان کے والد یا شوہر انہیں کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے، جب کہ 43.5 فیصد خواتین نے گھریلو کاموں پر توجہ دینے کے لیے ملازمت چھوڑ دی۔ایک کیفے کی مالک لال شہزادی نے ہنزہ میں خواتین کے زیرِ قیادت ریسٹورنٹ کے کاروبار کی بنیاد رکھی۔انہوں نے اپنے شوہر کی معمولی فوجی پینشن میں مدد کے لیے ایک بل کھاتی ہوئی اونچی گلی کے سرے پر اپنا کیفے کھولا۔
16 سال بعد وادی کے نظارے پیش کرنے والا ان کا سادہ سا کیفے رات کے وقت ایک مقبول سیاحتی مقام بن چکا ہے۔وہ مہمانوں کو یاک کے گوشت، خوبانی کے تیل اور پہاڑی پنیر سمیت روایتی کھانے پیش کرتی ہیں۔وہ کہتی ہیں: ’شروع میں میں اکیلی کام کرتی تھی۔ اب یہاں 11 لوگ کام کرتے ہیں، جن میں سے اکثر خواتین ہیں۔ میرے بچے بھی اسی جگہ کام کر رہے ہیں۔لال شہزادی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سفینہ نے بھی تقریباً ایک دہائی قبل اپنی نوکری چھوڑ کر اپنا ریسٹورنٹ کھولا۔انہوں نے کہا: ’کوئی میری مدد کرنے کو تیار نہیں تھا۔‘ بالآخر انہوں نے اپنے اہل خانہ کو دو گائیں اور کچھ بکریاں فروخت کرنے پر راضی کیا تاکہ وہ اپنا کاروبار شروع کر سکیں۔آج وہ ماہانہ تقریباً 170 امریکی ڈالر کماتی ہیں، جو ان کی پچھلی آمدنی سے پندرہ گنا زیادہ ہے۔ ہنزہ میں خواتین کی سماجی و معاشی ترقی کی ِسب سے بڑی وجہ بہت بلند شرح خواندگی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اتصالات گروپ کے وفد کی اسحاق ڈار سے ملاقات، پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھانے کے عزم کا اظہار
  • معاشی جنگ جیتنے کا چیلنج
  • برکس بزنس فورم کا آغاز، ڈیجیٹل معیشت سمیت مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال
  • خواتین کی معاشی ترقی
  • آذربائیجان کے پاکستان میں 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط
  • پاکستان، آذربائیجان کے 2 ارب ڈالرز سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط
  • پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان اقتصادی تعاون میں اہم پیشرفت، 2 ارب ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط
  • پاکستان اور آذربائیجان نے 2 ارب ڈالرز کے سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کر دیئے
  • آذربائیجان کی پاکستان میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری، معاہدے پر دستخط