پنجاب میں شیر سمیت دیگر خطرناک جانوروں کی نس بندی کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
لاہور:
پنجاب میں نجی تحویل میں رکھے جانے والے شیر، ٹائیگر، تیندوے اور اس انواع کے دیگر جانوروں کی آبادی کنٹرول کرنے کے لیے ان کی نس بندی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان خطرناک جانوروں کی خرید و فروخت پر پابندی لگائی جائے گی۔
چیف وائلڈ لائف رینجرز پنجاب مبین الہٰی نے ایکسپریس نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ پنجاب میں پہلی بار بگ کیٹس کو ریگولیٹ کیا گیا ہے۔ نجی تحویل میں رکھے گئے شیر، ٹائیگر، تیندوے اور اس انواع کے دیگر جانور ڈکلیئر کرنے کے لیے دو مئی تک کی مہلت دی گئی تھی۔ پنجاب میں 180 رجسٹرڈ وائلڈ اینیمل بریڈنگ فارم ہیں جنہوں نے اپنے پاس موجود بگ کیٹس کی تعداد کو ڈکلیئر کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اب دوسرے مرحلے میں تصدیق کی جا رہی ہے اور اب تک 40 وائلڈ اینیمل بریڈنگ فارموں کی تصدیق کر لی گئی ہے۔ رجسٹرڈ بریڈنگ فارموں کو سہولیات کی بہتری کے لیے ایک ماہ کی مہلت دی گئی ہے جبکہ بگ کیٹس ڈکلیئر نہ کرنے والوں اور غیرقانونی طور پر شیر، ٹائیگر رکھنے والوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔ اب تک غیرقانونی طور پر رکھی گئیں 18 بگ کیٹس تحویل میں لی گئیں، 7 ایف آئی آر درج ، 8 افراد گرفتار ہوئے ہیں۔
چیف وائلڈ لائف رینجرز مبین الہٰی نے بتایا کہ اربن ایریا، ہاوسنگ سوسائٹیوں اور محلوں میں کسی صورت شیر، ٹائیگر رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ صرف ایسے بریڈنگ فارم جو وائلڈ لائف ایکٹ کے مطابق ہاؤسنگ سہولیات تیار کریں گے انہیں ہی بگ کیٹس رکھنے کی اجازت ہوگی۔ ایس او پیز میں پنجرے کا سائز، ایریا واضع کیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک بگ کیٹ کی رجسٹریشن فیس 50 ہزار روپے ہے جس کی ہر سال تجدید کروانا ہوگی۔
تیسرے مرحلے میں ان جانوروں کی خرید و فروخت پر پابندی لگائیں گے جبکہ آخری مرحلے میں شیر، ٹائیگر اور تیندوے کی نس بندی کی جائے گی تاکہ ان کی آبادی کو کنٹرول کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جو جانور برآمد کیے گئے ہیں انہیں لاہور، راولپنڈی اور بہاولپور منتقل کیا گیا ہے۔
جنگلی حیات کے ماہر اور ٹاسک فورس برائے جنگلات، جنگلی حیات پنجاب کے سابق چیئرمین بدر منیر کہتے ہیں انہوں نے دنیا کے کسی ملک میں نہیں دیکھا کہ شہری اپنے گھروں میں خطرناک جانور رکھیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ کلچر بن گیا ہے کہ لوگ بگ کیٹس کے ساتھ گاڑیوں میں گھومتے ہیں، ٹک ٹاک بناتے ہیں اور جب کبھی ان کی زنجیر کھل جائے یا وہ پنجرے سے بھاگ نکلیں تو پھر حادثات رونما ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بگ کیٹس صرف چڑیا گھروں، وائلڈ لائف پارکس اور وائلڈ اینیمل بریڈنگ فارم میں رکھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ رہائشی علاقوں میں خطرناک جانور رکھنے کی کسی صورت اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ پنجاب وائلڈ لائف نے وائلڈ اینیمل بریڈنگ فارم کی رجسٹریشن اور بگ کیٹس رکھنے کے حوالے سے جو قوانین بنائے ہیں ان پر سختی سے عمل درآمد ہونا چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خطرناک جانور جانوروں کی وائلڈ لائف کیا گیا ہے بتایا کہ رکھنے کی انہوں نے بگ کیٹس
پڑھیں:
پنجاب میں ائیر کوالٹی انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ گیا، شہری مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے لگے
آج ڈیرہ غازی خان اور قصور میں ائیر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) 500 ریکارڈ کیا گیا، جو خطرناک ترین سطح ہے۔ ان دونوں شہروں نے آلودگی کے لحاظ سے لاہور کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
لاہور میں الودگی انتہائی حد تک بڑھ گئی جو انسانی صحت کیلئے انتہائی مضحر ہے، شہری نزلہ زکام بخار سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہونے لگے ہیں۔
حکومت پنجاب کی جانب سے آلودگی کی روک تھام کیلئے کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے، ترقیاتی کاموں اور صفائی سے قبل پانی کے چھڑکاو کا سلسلہ جاری ہے۔
دھوآں چھوڑنے والی گاڑیوں الودگی پھیلانے والے بھٹو کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، شہر بھر کے ہوٹلوں بار بی کیو کو کوئلہ اور لکڑیاں جلانے کی ڈیڈ لائن ختم ہوگئی، ماہرین کے مطابق بیماریوں سے بچنے کیلئے ماسک اور عینک کا استعمال کریں۔
پنجاب کے بیشتر شہر فضائی آلودگی اور سموگ کی شدید لپیٹ میں ہیں، جہاں ہفتے کی صبح فضائی معیار خطرناک حد تک گر گیا۔
بین الاقوامی ماحولیاتی ادارے آئی کیو ائیر کے مطابق صبح نو بجے ڈیرہ غازی خان اور قصور میں ائیر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) 500 ریکارڈ کیا گیا، جو خطرناک ترین سطح ہے۔ ان دونوں شہروں نے آلودگی کے لحاظ سے لاہور کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
اے کیوائیر پنجاب کے مطابق لاہور میں صبح کے وقت اے کیو آئی 385، شیخوپورہ میں 313 اور گوجرانوالہ میں 243 ریکارڈ کیا گیا۔
بین الاقوامی ادارے آئی کیو ائیر کے مطابق گوجرانوالہ میں آلودگی کی شدت 442، لاہور میں 400 اور فیصل آباد میں 337 تک پہنچ گئی۔ لاہور کے مختلف علاقوں میں آلودگی کی سطح میں نمایاں فرق دیکھا گیا۔
آئی کیو ائیر کے مطابق سول سیکرٹریٹ کے علاقے میں اے کیو آئی 1018، وائلڈ لائف پارکس میں 997 اور فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کے علاقے میں 820 ریکارڈ کیا گیا۔ تاہم سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شاہدرہ، ملتان روڈ اور جی ٹی روڈ پر اے کیو آئی 500، برکی روڈ پر 396، ایجرٹن روڈ پر 377 اور کاہنہ میں 365 رہا۔
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق بھارتی سرحدی علاقوں سے آنے والی آلودہ مشرقی ہوائیں، درجہ حرارت میں کمی، کم ہوا کی رفتار (ایک سے چار کلومیٹر فی گھنٹہ) اور بارش نہ ہونے کے باعث آلودگی کے بکھراؤ میں کمی دیکھی جارہی ہے۔
محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب کے مطابق دن کے اوقات، خصوصاً دوپہر ایک بجے سے شام پانچ بجے کے درمیان، ہوا کی رفتار میں معمولی اضافہ متوقع ہے جس سے فضائی معیار میں جزوی بہتری آسکتی ہے۔
پاکستان ائیر کوالٹی انیشی ایٹو کی ممبر اور ماہر ماحولیات مریم شاہ کہتی ہیں 2025 میں سال کے آغاز پر فضا نسبتاً صاف تھی، تاہم اکتوبر میں پی ایم 2.5 کی سطح گزشتہ سال 2024 کے مساوی ہو گئی ہے۔
ماہرین کے مطابق ہم نومبر میں، جو سموگ کا سب سے خطرناک مہینہ سمجھا جاتا ہے، اسی بلند آلودگی کی بنیاد کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں جس کے بعد پچھلے سال شدید سموگ دیکھی گئی تھی۔ موجودہ بلند سطح اور موسمی حالات کے امتزاج سے امسال بھی شدید سموگ کے خطرے میں اضافہ ہوگیا ہے۔
محکمہ ماحولیات کا کہنا ہے کہ حکومت پنجاب صاف، صحت مند اور محفوظ فضا کے قیام کے لیے تمام اداروں کے اشتراک سے مسلسل اقدامات کر رہی ہے۔
محکمہ ماحولیات کے ترجمان کے مطابق پنجاب حکومت کے تمام متعلقہ ادارے وزیراعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر انسدادِ سموگ کے لیے دن رات تین شفٹوں میں کام کر رہے ہیں۔ شہر کے مختلف علاقوں میں ٹریفک کنٹرول، پانی کے چھڑکاؤ اور انڈسٹریل چیکنگ مہم جاری ہے۔
پی ایم 2.5 اور پی ایم 10 کے ذرات کی مسلسل نگرانی کے لیے جدید مانیٹرنگ اسٹیشن متحرک ہیں۔
محکمہ ماحولیات نے شہریوں کو غیر ضروری سفر سے گریز، ماسک کے استعمال اور گھروں کے اندر رہنے کی ہدایت کی ہے۔
وزیراعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر تمام محکمے فعال — ٹریفک کنٹرول، پانی کے چھڑکاؤ اور انڈسٹری چیکنگ مہم جاری ہے، شہر کے مختلف علاقوں میں پی ایم 2.5 اور پی ایم 10 کی سطح کی نگرانی کے لیے جدید اسٹیشن متحرک ہے۔
محکمہ ماحولیات نے کہا کہ صورتحال قابو میں ہے، کسی قسم کی گھبراہٹ کی ضرورت نہیں ہے۔