کسی سزا یافتہ شخص کی مشاورت پر حکومتی فیصلے کرنا آئینی طور پر درست نہیں; طلال چوہدری
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
سٹی 42:طلال چوہدری نے کہا خیبرپختونخوا میں حکومت کو آئین و قانون کے تقاضوں کے مطابق چلایا جانا چاہیے۔
طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ کسی سزا یافتہ شخص کی مشاورت پر حکومتی فیصلے کرنا آئینی طور پر درست نہیں۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی جانب سے بانی پی ٹی آئی کی ہدایت یا مشاورت سے کابینہ کی تشکیل کے اعلانات آئین اور عدالتی فیصلوں کے منافی ہیں۔آئین پاکستان کسی ایسے شخص کو، جو عدالت سے سزا یافتہ ہو یا جیل میں قید ہو، حکومتی یا انتظامی فیصلوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتا۔
لیسکو کی جانب سے سنگل فیز اسمارٹ میٹر کی قیمت مقرر
ماضی میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں بھی عدالتِ عظمیٰ نے واضح کیا تھا کہ جیل میں موجود شخص کے فیصلے کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہوتی۔پی ٹی آئی کی جانب سے ’’بانی‘‘ کے فیصلوں کو پارٹی پالیسی قرار دینا خود جماعت کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔پارٹی کا آئینی ڈھانچہ صرف چیئرمین کے عہدے کو تسلیم کرتا ہے۔اگر کسی صوبے کی حکومت اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پسِ پشت ڈال کر کسی سزا یافتہ شخص کی مشاورت سے فیصلے کرے گی تو یہ نہ صرف آئینی بحران پیدا کرے گا بلکہ عوامی مینڈیٹ کی توہین بھی ہوگی۔
امتحانات سے قبل ہی لاہور بورڈ کی نااہلی سامنے آگئی
طلال چوہدری نے کہا موجودہ وفاقی حکومت آئین کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے، کسی ’’نیازی لاء‘‘ یا ذاتی قانون کے تصور کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ملک میں قانون سب کے لیے برابر ہے، کسی فردِ واحد کو آئین سے بالاتر حیثیت نہیں دی جا سکتی۔خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت اپنی صوابدید کے مطابق آزادانہ فیصلے کرے۔
آئینی استحقاق کا احترام کیا جائے اور کسی غیر متعلقہ فرد کے دباؤ میں آ کر حکومتی ڈھانچہ تشکیل نہ دے۔ پاکستان کے عوام یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ صوبے میں حکمرانی آئین کے تابع ہوگی یا کسی سزا یافتہ شخص کے اشاروں پر۔وزارتِ داخلہ اور وفاقی حکومت ملک میں آئینی نظم و ضبط اور ادارہ جاتی استحکام کے لیے ہر ممکن اقدام جاری رکھے گی۔
پی ٹی اے نے شہریوں کو خبردار کر دیا
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: کسی سزا یافتہ شخص طلال چوہدری
پڑھیں:
چینی مافیا، حکومتی ایوانوں سے منڈیوں تک پھیلا منظم کھیل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251027-03-3
پاکستان میں چینی ایک بار پھر عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ ایک ہفتے کے اندر دس روپے فی کلو اضافہ اس بات کا اعلان ہے کہ مہنگائی کے اس طوفان کے پیچھے کوئی قدرتی عمل نہیں بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی ہے۔ چینی کی قیمت 210 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے، جبکہ حکومت کی جانب سے قیمتوں میں کمی کے تمام دعوے اور اقدامات ایک تماشا بن کر رہ گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون لوگ ہیں جو ہر دورِ حکومت میں عوام کے خون پسینے سے کماتے ہیں، اور ریاست ان کے سامنے بے بس کیوں نظر آتی ہے؟ یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب پاکستان میں چینی بحران نے سر اٹھایا ہو۔ ہر چند سال بعد یہی کہانی نئے اور پرانے کرداروں کے ساتھ دہرائی جاتی ہے۔ کبھی کسی حکومت کے وزیر ِ خزانہ، کبھی کسی وزیر ِ صنعت، اور کبھی خود وزرائے اعلیٰ کے خاندان اس بحران کے تانے بانے میں نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں چینی مافیا صرف منڈیوں تک محدود نہیں، بلکہ اس کی جڑیں براہِ راست حکومتی ایوانوں، سیاسی جماعتوں اور اثر رسوخ رکھنے والے خاندانوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کی ذیلی کمیٹی کی رپورٹ نے اس بار ایک بار پھر اسی تلخ حقیقت کو عیاں کیا ہے کہ شوگر ملز ایسوسی ایشن، ہی اس بحران کی اصل ذمے دار ہے۔ رپورٹ کے مطابق مل مالکان نے منڈی میں مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتوں میں اضافہ کیا، چینی بیرونِ ملک برآمد کی، اور جب ملک میں قلت پیدا ہوئی تو وہی چینی زیادہ قیمتوں پر درآمد کر کے بیچی گئی۔ یہ وہ کھیل ہے جس میں ایک طرف عوام کا استحصال کیا گیا اور دوسری جانب حکومتی پالیسیوں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا گیا۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ چینی درآمد پر ٹیکس میں 48 فی صد سے کمی کر کے محض 0.5 فی صد کر دیا گیا، مگر قیمتیں کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئیں۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ بحران مصنوعی طور پر پیدا کیا گیا، اور حکومت کے اندر موجود کچھ بااثر عناصر نے اس میں سہولت کاری کا کردار ادا کیا۔ یہ وہی مافیا ہے جس کا دائرہ شوگر ملز سے نکل کر پارلیمان، بیوروکریسی اور سرمایہ دارانہ نیٹ ورک تک پھیلا ہوا ہے۔ چینی مافیا کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ماضی میں جب بھی حکومت نے اس کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا، نتیجہ یا تو محض بیانات کی حد تک محدود رہا یا پھر رپورٹیں دبادی گئیں۔ تحقیقاتی کمیشن بنتے ہیں، مگر نتائج وہی رہتے ہیں۔ یہی مافیا اپنی دولت، رشتے داریوں اور سیاسی روابط کے بل پر ہر حکومت کے ساتھ بیٹھا ہوتا ہے۔ کوئی حزبِ اقتدار میں ہو یا حزبِ اختلاف میں، چینی کے کارخانے اور ان کے منافع کے تحفظ پر سب متفق نظر آتے ہیں۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان میں چینی صرف ایک روز مرہ کے استعمال کی چیز نہیں ہے بلکہ پاور گیم کا اہم ہتھیار بن چکی ہے۔ ڈاکٹر فرخ سلیم نے بجا طور پر کہا ہے کہ ’’چینی کا معاملہ صرف ایک کموڈیٹی نہیں، یہ پاور اور پالیسی کا کھیل ہے‘‘۔ جب تک حکومت اس کھیل کے قواعد نہیں بدلتی، عوام ہمیشہ اس کے مہرے بنے رہیں گے۔ چینی مافیا کے خلاف سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ یہ لوگ صرف سرمایہ دار نہیں بلکہ پالیسی ساز بھی ہیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جو پارلیمان میں بیٹھ کر اپنے لیے قوانین بناتا ہے، حکومت کے معاشی فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے، اور اپنی اجارہ داری کو قانونی تحفظ دلواتا ہے۔ پاکستان میں چینی بحران دراصل نظام کی اس کمزوری کا مظہر ہے جہاں احتساب کا نظام صرف کمزوروں کے لیے ہے۔ اگر کوئی عام دکاندار ذخیرہ اندوزی کرے تو پولیس فوراً حرکت میں آتی ہے، مگر جب کوئی شوگر مل مالک ہزاروں ٹن چینی غائب کر دے تو پورا نظام خاموش ہو جاتا ہے۔ یہی دوہرا معیار ملک میں انصاف کے فقدان اور عوامی اعتماد کی زبوں حالی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ قائمہ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ ملک میں پانچ لاکھ چالیس ہزار میٹرک ٹن چینی کا ذخیرہ ہر وقت موجود رہنا چاہیے تاکہ بحران کی صورت میں عوام کو ریلیف دیا جا سکے۔ یہ ایک درست تجویز ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس ذخیرے کی نگرانی بھی انہی مافیا کے ہاتھ میں ہوگی جو آج قیمتوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں؟ اگر ایسا ہوا تو یہ اقدام بھی صرف فائلوں میں رہ جائے گا۔ حکومت اگر واقعی چینی مافیا کے خلاف سنجیدہ ہے تو اسے محض بیانات سے آگے بڑھنا ہوگا۔ ضروری ہے کہ شوگر ایڈوائزری بورڈ، ایف بی آر، اور وزارتِ صنعت میں موجود ان افراد کی نشاندہی کی جائے جو اس کھیل کے سہولت کار ہیں۔ ان ملوں کے مالکان کے مالی گوشوارے، برآمدی معاہدے اور سبسڈی کی تفصیلات عوام کے سامنے رکھی جائیں۔ جب تک شفافیت نہیں ہوگی، اعتماد بحال نہیں ہوگا۔ پاکستان کے عوام اس وقت مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ چینی ہو، آٹا ہو، بجلی ہو یا پٹرول، ہر بحران کے پیچھے ایک منظم نیٹ ورک کام کرتا ہے جس کی رسی بالآخر انہی لوگوں سے ملتی ہے جو اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں یا ان کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ یہی وہ ’’مافیا کلچر‘‘ ہے جس نے ریاست کے نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اگر ریاست نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں تو چینی کا بحران کل گندم، تیل اور ادویات کے بحران کی شکل میں پھر سر اٹھائے گا۔ قوم اب صرف تحقیقات نہیں بلکہ نتائج چاہتی ہے، ان لوگوں کے نام، ان کے احتساب، اور ان کے خلاف عملی کارروائی چاہتی ہے۔