WE News:
2025-07-07@11:49:55 GMT

ٹیکنالوجی کے اُجالے میں تنہائی کا اندھیرا؟

اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT

یہ زمانہ روشنیوں کا ہے۔ اسکرینز کی جگمگاہٹ، نوٹیفکیشن کی چمک، اور ہر وقت کسی نہ کسی سے ’کنیکٹڈ‘ ہونے کا فریب دیتی دنیا۔ ہم رابطوں کی ایسی طلسماتی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں فاصلے مٹ چکے ہیں، آوازیں لمحوں میں سرحدیں پار کرلیتی ہیں، اور وڈیو کالز پر آنکھوں کے اشارے دھڑکنوں سے جُڑ جاتے ہیں۔ پھر بھی ۔ ۔ ۔ یہ کیسا دور ہے کہ جتنا قریب آتے جا رہے ہیں، اتنا ہی تنہا ہوتے جا رہے ہیں؟

ٹیکنالوجی کے شور میں ہم ہر لمحے کسی نہ کسی سے جُڑے ہوئے محسوس کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ڈیجیٹل چمک نے انسانوں کے بیچ ایک ایسی تاریکی بھر دی ہے جو ماضی میں تنہا پہاڑوں یا سنسان گلیوں میں ہوا کرتی تھی۔ ہم نے تعلق کو لمحاتی پیغامات،GIFs اور ایموجیز میں ناپنا سیکھ لیا ہے اور یوں ایک ایسا خلا پیدا ہو چکا ہے جسے نہ کوئی ایپ پُر کر سکتی ہے، نہ کوئی اسکرین۔

عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی تازہ رپورٹ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ دنیا کا ہر چھٹا انسان کسی نہ کسی شکل میں تنہائی کا شکار ہے۔ اور یہ کوئی معمولی احساسِ محرومی نہیں بلکہ ایک خاموش وبا ہے، جو ہر گھنٹے 100 انسانوں کو زندگی کی ڈور سے کاٹ دیتی ہے۔

یہ تحریر محض ایک رپورٹ کا خلاصہ نہیں، بلکہ ایک آئینہ ہے جو ہمیں ہمارا اپنا عکس دکھاتا ہے۔ اسمارٹ فونز، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل دنیا میں گم ہوتے وجود کا عکس۔

ہم نے واٹس ایپ گروپس بنائے، فالوورز بڑھائے، انسٹاگرام پر تصویریں پوسٹ کیں، لیکن رات کے آخری پہر تنہائی کا عفریت چپکے سے ہمیں آن گھیرتا ہے۔ چیٹ باکسز بھرے ہوتے ہیں، مگر دل کے خانے خالی۔ سوال یہ نہیں کہ ہم کس سے بات کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ کس کے ساتھ دل کی بات کر رہے ہیں؟

رپورٹ بتاتی ہے کہ تنہائی ہر عمر کو متاثر کرتی ہے، مگر سب سے زیادہ متاثر نوجوان ہیں۔ وہی نسل جو ٹیکنالوجی سے سب سے زیادہ قریب ہے۔ کیا ہم نے تعلق کو اس حد تک ٹیکنالوجی میں تلاش کیا کہ تعلق کا اصل مفہوم کھو دیا؟

مزید پڑھیں: تنہائی ہر گھنٹے 100 جانیں نگل جاتی ہے، عالمی ادارہ صحت کی چونکا دینے والی رپورٹ

سوشل میڈیا کی رنگینی کے پیچھے ایک گہرا اندھیرا ہے۔ اسکرولنگ کی لت، ورچوئل مقبولیت کی دوڑ، اور ریئل لائف سے بیزاری۔ ہم نے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا ہے جہاں لوگ سینکڑوں دوستوں کے باوجود ایک سچے ہم دم کو ترس رہے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ ایک اور پہلو بھی واضح کرتی ہے کہ تنہائی صرف جذباتی کیفیت نہیں، بلکہ ایک جسمانی بیماری بھی ہے۔ یہ فالج، دل کے امراض، ذہنی زوال، اور قبل از وقت موت کا باعث بن سکتی ہے۔ کبھی کبھی انسان کو جسمانی زخموں سے زیادہ تنہا شاموں کا دکھ کھا جاتا ہے۔

اگر مسئلہ محض ٹیکنالوجی نہیں تو حل بھی صرف ڈیجیٹل ڈیٹاکس (Digital Detox) نہیں ہو سکتا۔ ہمیں رشتے نبھانے، وقت دینے اور سننے سنانے کا فن دوبارہ سیکھنا ہوگا۔ اسکرین پر رابطہ ہونا، دل کا تعلق ہونے کے برابر نہیں۔ اور اصل رابطہ وہ ہوتا ہے جس میں خامشی بھی معنی رکھتی ہو۔

ہمیں چاہیے کہ ڈیجیٹل دنیا میں جیتے ہوئے بھی حقیقی انسانوں کے ساتھ جینا سیکھیں۔ انسٹاگرام لائیکس یا واٹس ایپ اسٹیٹس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ کسی کی آنکھوں میں دیکھ کر مسکرایا جائے، کسی کی آواز سُن کر اس کا درد بانٹا جائے، اور کسی خاموش دل کو اپنا وقت دیا جائے۔

یہ مسئلہ صرف مغرب تک محدود نہیں۔ پاکستانی معاشرہ جہاں خاندانی نظام، مذہبی رشتے اور سماجی میل جول ہمیشہ سے مضبوط رہا ہے، اب تیزی سے ڈیجیٹل تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔ دیہی اور شہری نوجوان، جو پہلے بزرگوں، ہمسایوں اور ’چوپال‘ سے جُڑے ہوتے تھے، اب اسکرینز کے پیچھے ایک الگ دنیا میں قید ہوچکے ہیں۔ کچھ کی تنہائی اضطراب میں، کچھ کا سکون ’سوشل میڈیا ایڈکشن‘ میں بدل چکا ہے۔

وقت ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کی روشنی سے دھوکا نہ کھائیں بلکہ اسے رابطوں کی حرارت میں بدلیں۔ ورنہ ایک دن ایسا آئے گا کہ ہر نوجوان کے ہاتھ میں فون تو ہوگا، لیکن دل میں صرف ایک سوال! کیا کوئی واقعی میرے ساتھ ہے؟ قومیں ٹیکنالوجی سے نہیں، رشتوں سے زندہ رہتی ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

Digital Detox تنہائی تنہائی کا زہر ٹیکنالوجی کے اُجالے میں تنہائی کا اندھیرا؟ چوپال دل سے رابطہ عالمی ادارہ صحت مشکورعلی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: تنہائی تنہائی کا زہر عالمی ادارہ صحت مشکورعلی تنہائی کا سے زیادہ دنیا میں رہے ہیں

پڑھیں:

معرکۂ کربلا، دعوتِ فکرِ آخرت

چودہ سو سال قبل دس محرم الحرام اکسٹھ ہجری کو حق و باطل کا جو معرکہ میدانِ کربلا میں پیش آیا، اس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔

تاریخ آج تک ایسے خونیں معرکے اور دل سوز واقعات کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے، جہاں ایک طرف سپاہ یزید اپنی عددی برتری اور ہتھیاروں سے لیس رعونت، تکبّر، سنگ دلی اور بے رحمی کا مجسمہ بنی ہوئی تھی وہاں دوسری طرف حسینی فوج کے چھے ماہ کے شیر خوار بچے سے لے کر اسّی سالہ عمر رسیدہ گنے چنے مجاہد صبر، حوصلے، استقامت، بہادری اور جواں مردی کی زندہ مثال بنے ہوئے تھے۔ فرش تا عرش اس قلیل فوج کی بہادری اور حوصلے کی گونج تھی۔

جہاں نوجوان یداﷲ کی نظیر بنے ہوئے تھے۔ وہاں بچے بھی اس معرکے میں اپنے جوہر دکھانے کو بے تاب نظر آئے۔ مستورات بڑے حوصلے اور استقامت سے اپنے پیاروں کو تیار کرکے میدانِ جنگ میں پیش کر رہی تھیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ چہرے کبھی دوبارہ دیکھنے کو نہیں ملیں گے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ جب امام عالی مقام حسین ابن علی کرم اﷲ وجہہ نے ایک رات قبل جب تمام رفقاء کو بلا کر رات کے اندھیرے میں چلے جانے کا کہا، تو کوئی ایک فردِ واحد بھی امام عالی مقام حضرت حسینؓ کو چھوڑنے کو تیار نہ ہُوا بل کہ جذبے اور جوش سے ساتھ دینے کو تیار تھے۔ ان تمام ہستیوں کے ذہن میں صرف یہی امر قابل حال تھا کہ چند دنوں کی زندگی کو بچا کر وہ اپنی اخروی دنیا کو نیست و نابود نہیں کرنا چاہتے تھے۔

سب کی ایک ہی سوچ تھی کہ دنیا فانی ہے اور اگر اس حق و باطل کے معرکے میں حسین ابن حیدرؓ کا ساتھ چھوڑ دیا، تو آخرت میں ناکامی اور رسوائی ان کا مقدر ہوگی۔ یہی فکرِ آخرت اور سوچ حضرت حر کو یزیدی فوج سے نکال کر فوجِ حسینی میں لے آئی۔ یہی فکر آخرت موت کا ڈر و خوف ختم کیے ہوئے تھی۔ بوڑھوں میں تازگی، جوانوں میں جوش اور بچوں میں جذبہ اور عورتوں میں حوصلہ پیدا کیے ہوئے تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بہتّر افراد پر مشتمل قلیل اور مٹھی بھر فوج نو لاکھ فوج سے معرکہ زن ہوئی۔ ان کو جب حوضِ کوثر یاد آتا تو اپنی پیاس کی شدت کو بھول جاتے۔ جب سایۂ تختِ رحمت ذہن میں آتا تو آگ اُگلتے ریت کے صحرا اور سورج کی قہر برساتی تپش کو فراموش کر دیتے تھے۔

یہ ہستیاں حق کا ساتھ چھوڑ کر روزِ محشر اﷲ اور اس کے بھیجے ہوئے آخری پیام بر خاتم الانبیاء جناب رسول کریم ﷺ کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتی تھیں۔ ان ہستیوں نے اپنے خون سے شجرِ توحید کی ایسی آب یاری کی کہ تا حشر یہ شجر برگ و بار رہے گا۔

امام حسینؓ اگر چاہتے تو یزید ملعون کی بیعت کرکے اپنی اور اپنے رفقاء کی زندگی بچا سکتے تھے اور باقی زندگی آرام و سکون سے بسر کر سکتے تھے، مگر آپؓ کے سامنے فکرِ آخرت تھی لہٰذا آپؓ نے ایسا نہ کیا۔ آپؓ نے آخرت کو دنیا پر ترجیح دی اور حق کی خاطر لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ معرکہ کربلا نے جہاں سچائی اور منافقت کے درمیان خطِ امتیاز کھینچ دیا، وہاں فکر آخرت کی دعوت بھی دی کہ یہ دنیا فانی ہے۔

ہر چیز کو فنا حاصل ہے، کام یاب اور کام ران وہی لوگ ہیں جنھوں نے عارضی دنیا اور لذتوں کو اخروی اور ابدی زندگی پر قربان کیا۔ اﷲ نے ایسے ہی لوگوں پر اپنی نعمتیں تمام کی ہیں۔ آسائشِ دنیا کو اسلام کی خاطر چھوڑنے والوں کے لیے ابدی سکون اور نعمتوں کا وعدہ کیا ہے۔ حق اور سچائی کی خاطر لڑنے والوں کے لیے اور جان نثار کرنے والوں کے لیے شہادت جیسا اعلیٰ مرتبہ رکھا ہے۔

آج کے موجودہ حالات میں معرکہ کربلا درس دیتا ہے کہ کبھی بھی یزیدی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہیں ہونا چاہیے۔ یہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں ہے، ہمیں ابدی زندگی کی فکر کرنی چاہیے اور حق و سچائی کا ساتھ دینا چاہیے۔ اور جتنے زیادہ مصائب اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑے صبر و استقامت سے کام لینا چاہیے۔

ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جس نے حق کا ساتھ دیا اور دشمن سے مرعوب نہ ہوا اُسی نے دائمی کام یابی حاصل کی اور فلاح پائی۔ صرف اپنے سواد کے لیے جینا ہی زندگی نہیں بل کہ حق کی راہ میں جان دینے کا نام بھی زندگی ہے۔ ایسے لوگ ہی ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں اور آخرت میں بھی جنت میں اپنا اعلیٰ ٹھکانا حاصل کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے قرآن مجید میں اﷲ رب العزت نے فرمایا ہے، مفہوم: ’’یہ لوگ دل پسند اور عیش و عشرت والی زندگی میں مگن ہوں گے، نہ وہ رنجیدہ ہوں گے اور نہ ہی انھیں کوئی غم ہوگا، اور وہ ایسی جنت میں ہوں گے جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

متعلقہ مضامین

  • جنگ زدہ فلسطینی بچوں کے لیے پاکستانی ٹیکنالوجی امید کی کرن کیسے بن گئی؟
  • اہلبیت ؓکی عظیم قربانی کو رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جا سکتا، گورنر پنجاب
  • ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے، ساقی!
  • لیاری، ملبے تلے دبے افراد کی نشاندہی کیلیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال
  • بھارت کی بڑھتی ہوئی تنہائی
  • دنیا کا نایاب ترین نیا بلڈ گروپ دریافت؛ نام جانیے
  • ملبے کے نیچے پھنسے انسان کی حرکت کا پتا لگانے والی نئی ٹیکنالوجی تیار
  • دوحہ کا وعدہ اور خوارج کی تلوار
  • معرکۂ کربلا، دعوتِ فکرِ آخرت