Express News:
2025-10-04@20:13:55 GMT

معرکۂ کربلا، دعوتِ فکرِ آخرت

اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT

چودہ سو سال قبل دس محرم الحرام اکسٹھ ہجری کو حق و باطل کا جو معرکہ میدانِ کربلا میں پیش آیا، اس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔

تاریخ آج تک ایسے خونیں معرکے اور دل سوز واقعات کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے، جہاں ایک طرف سپاہ یزید اپنی عددی برتری اور ہتھیاروں سے لیس رعونت، تکبّر، سنگ دلی اور بے رحمی کا مجسمہ بنی ہوئی تھی وہاں دوسری طرف حسینی فوج کے چھے ماہ کے شیر خوار بچے سے لے کر اسّی سالہ عمر رسیدہ گنے چنے مجاہد صبر، حوصلے، استقامت، بہادری اور جواں مردی کی زندہ مثال بنے ہوئے تھے۔ فرش تا عرش اس قلیل فوج کی بہادری اور حوصلے کی گونج تھی۔

جہاں نوجوان یداﷲ کی نظیر بنے ہوئے تھے۔ وہاں بچے بھی اس معرکے میں اپنے جوہر دکھانے کو بے تاب نظر آئے۔ مستورات بڑے حوصلے اور استقامت سے اپنے پیاروں کو تیار کرکے میدانِ جنگ میں پیش کر رہی تھیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ چہرے کبھی دوبارہ دیکھنے کو نہیں ملیں گے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ جب امام عالی مقام حسین ابن علی کرم اﷲ وجہہ نے ایک رات قبل جب تمام رفقاء کو بلا کر رات کے اندھیرے میں چلے جانے کا کہا، تو کوئی ایک فردِ واحد بھی امام عالی مقام حضرت حسینؓ کو چھوڑنے کو تیار نہ ہُوا بل کہ جذبے اور جوش سے ساتھ دینے کو تیار تھے۔ ان تمام ہستیوں کے ذہن میں صرف یہی امر قابل حال تھا کہ چند دنوں کی زندگی کو بچا کر وہ اپنی اخروی دنیا کو نیست و نابود نہیں کرنا چاہتے تھے۔

سب کی ایک ہی سوچ تھی کہ دنیا فانی ہے اور اگر اس حق و باطل کے معرکے میں حسین ابن حیدرؓ کا ساتھ چھوڑ دیا، تو آخرت میں ناکامی اور رسوائی ان کا مقدر ہوگی۔ یہی فکرِ آخرت اور سوچ حضرت حر کو یزیدی فوج سے نکال کر فوجِ حسینی میں لے آئی۔ یہی فکر آخرت موت کا ڈر و خوف ختم کیے ہوئے تھی۔ بوڑھوں میں تازگی، جوانوں میں جوش اور بچوں میں جذبہ اور عورتوں میں حوصلہ پیدا کیے ہوئے تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بہتّر افراد پر مشتمل قلیل اور مٹھی بھر فوج نو لاکھ فوج سے معرکہ زن ہوئی۔ ان کو جب حوضِ کوثر یاد آتا تو اپنی پیاس کی شدت کو بھول جاتے۔ جب سایۂ تختِ رحمت ذہن میں آتا تو آگ اُگلتے ریت کے صحرا اور سورج کی قہر برساتی تپش کو فراموش کر دیتے تھے۔

یہ ہستیاں حق کا ساتھ چھوڑ کر روزِ محشر اﷲ اور اس کے بھیجے ہوئے آخری پیام بر خاتم الانبیاء جناب رسول کریم ﷺ کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتی تھیں۔ ان ہستیوں نے اپنے خون سے شجرِ توحید کی ایسی آب یاری کی کہ تا حشر یہ شجر برگ و بار رہے گا۔

امام حسینؓ اگر چاہتے تو یزید ملعون کی بیعت کرکے اپنی اور اپنے رفقاء کی زندگی بچا سکتے تھے اور باقی زندگی آرام و سکون سے بسر کر سکتے تھے، مگر آپؓ کے سامنے فکرِ آخرت تھی لہٰذا آپؓ نے ایسا نہ کیا۔ آپؓ نے آخرت کو دنیا پر ترجیح دی اور حق کی خاطر لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ معرکہ کربلا نے جہاں سچائی اور منافقت کے درمیان خطِ امتیاز کھینچ دیا، وہاں فکر آخرت کی دعوت بھی دی کہ یہ دنیا فانی ہے۔

ہر چیز کو فنا حاصل ہے، کام یاب اور کام ران وہی لوگ ہیں جنھوں نے عارضی دنیا اور لذتوں کو اخروی اور ابدی زندگی پر قربان کیا۔ اﷲ نے ایسے ہی لوگوں پر اپنی نعمتیں تمام کی ہیں۔ آسائشِ دنیا کو اسلام کی خاطر چھوڑنے والوں کے لیے ابدی سکون اور نعمتوں کا وعدہ کیا ہے۔ حق اور سچائی کی خاطر لڑنے والوں کے لیے اور جان نثار کرنے والوں کے لیے شہادت جیسا اعلیٰ مرتبہ رکھا ہے۔

آج کے موجودہ حالات میں معرکہ کربلا درس دیتا ہے کہ کبھی بھی یزیدی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہیں ہونا چاہیے۔ یہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں ہے، ہمیں ابدی زندگی کی فکر کرنی چاہیے اور حق و سچائی کا ساتھ دینا چاہیے۔ اور جتنے زیادہ مصائب اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑے صبر و استقامت سے کام لینا چاہیے۔

ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جس نے حق کا ساتھ دیا اور دشمن سے مرعوب نہ ہوا اُسی نے دائمی کام یابی حاصل کی اور فلاح پائی۔ صرف اپنے سواد کے لیے جینا ہی زندگی نہیں بل کہ حق کی راہ میں جان دینے کا نام بھی زندگی ہے۔ ایسے لوگ ہی ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں اور آخرت میں بھی جنت میں اپنا اعلیٰ ٹھکانا حاصل کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے قرآن مجید میں اﷲ رب العزت نے فرمایا ہے، مفہوم: ’’یہ لوگ دل پسند اور عیش و عشرت والی زندگی میں مگن ہوں گے، نہ وہ رنجیدہ ہوں گے اور نہ ہی انھیں کوئی غم ہوگا، اور وہ ایسی جنت میں ہوں گے جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کا ساتھ کے لیے

پڑھیں:

جین زی (Gen Z) کی تنہائی اور بے چینی

کیا آپ کو کسی نوعمر لڑکی یا لڑکے نے بتایا کہ وہ سٹریس اور تنہائی کا شکار ہے؟ آپ نے سوچا ہوگا یہ تو دنیا بھر سے جڑا ہوا ہے، ہزاروں دوست آن لائن ہیں، پھر کیسی تنہائی ؟ یہ ہے جین زی (Gen Z) ، وہ نسل ہے جو 1997 سے 2012 کے درمیان پیدا ہوئی اور آج ان کی عمریں قریباً 13 سے 28 برس کے درمیان ہیں۔

میرے اپنے بچے جین زی سے ہیں تو اس کالم کو ایک ماں کا مکالمہ سمجھا جائے۔ یہ نوجوان موبائل اور ٹیکنالوجی کے حصار میں بڑے ہوئے ہیں۔ ذہین ہیں۔ بہت سے معاملات میں اپنے سے پہلے کی نسل سے آگے ہیں، مگر سماجی سطح پر کوئی خلا بہر طور ان کی زندگیوں میں موجود ہے۔

امریکی ماہرِ نفسیات جین ٹوینج (Jean Twenge) اپنی کتاب iGen میں لکھتی ہیں کہ یہ نسل سوشل میڈیا کے ذریعے ہر وقت جڑی رہتی ہے لیکن عملی زندگی میں پہلے سے زیادہ تنہا اور بے چین دکھائی دیتی ہے، 2023 کی ایک رپورٹ (Deloitte Global Survey) کے مطابق 46 فیصد جین زی نوجوان روزانہ دباؤ اور اضطراب کا شکار رہتے ہیں اور ماہرین سماجیات انہیں “Loneliest Generation” یعنی سب سے تنہا نسل قرار دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں:’لائیو چیٹ نوجوان نسل کو تباہ کر رہی ہے‘،پنجاب اسمبلی میں ٹک ٹاک پر پابندی کی قرارداد جمع

سوال یہ ہے کہ آخر یہ نسل اتنی اکیلی کیوں ہے؟ جب کہ ان کے اردگرد دنیا سکڑ کر جام جم میں آگئی ہے۔ یہ صبح اٹھتے ہی اپنا موبائل کھولتے ہیں اور ان کی مرضی کی دنیا، مرضی کے لوگ ان کا استقبال کرتے ہیں ۔ ہماری نسل یا اس سے پچھلی نسل کو یہ ’میری دنیا، میری مرضی‘ والی سہولت میسر نہ تھی۔

ہمارے بچپن میں دوست، محلے دار بلا تفریق ساتھ کھیلا کرتے۔ ساتھ پڑھا کرتے۔ کوئی زیادہ امیر کوئی مڈل کلاس کسی کا گھر تنگی معاش کا شکار ، اگر کبھی مڈل کلاس بچہ اپنا موازنہ امیر دوست سے کرتا تو ماں باپ کے پاس وہی گھڑے گھڑائے جواب ہوتے، ’بیٹا قناعت اختیار کرو، اپنے جیسوں میں دوستی کرو، ان کی قسمت ان کے ساتھ ہماری قسمت ہمارے ساتھ‘ اور مزے کی بات ہماری اکثریت مان بھی جاتی۔

جین زی کو آپ اس قسم کی فرسودہ مثالیں نہیں دے سکتے۔ ان کے دور کا ایک بڑا المیہ ہے کمپیریزن/موازنہ کلچر، جو شاید پہلے مین اسٹریم نہیں تھا۔ لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی دوسروں سے مقابلہ اور موازنہ اب ان کے رہن سہن کا حصہ ہے۔

مزید پڑھیں: نوجوان نسل کو جھوٹے پروپیگنڈے سے بچانے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل اپنا کردار ادا کرے، وزیراعظم شہباز شریف

اس تنہائی کی ایک بڑی وجہ بہت سارے غیر اہم، غیر متعلقہ لوگوں اور معلومات تک فوری رسائی ہے۔ ان کے دن کا بڑا حصہ انسٹاگرام، فیس بک اور ٹک ٹاک پر گزرتا ہے۔ وہاں ہمیں زیادہ تر جھوٹ یا آدھا سچ دکھایا جا رہا ہوتا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے سے بات بات پر لڑنے والے میاں بیوی، سوشل میڈیا پر بغل گیر ہوتے وڈیو، تصاویر اپ لوڈ کرتے ہیں، سر عام اظہار محبت کرتے ہیں۔

لوگ کامیابی، خوشی، چمک دمک، شادیاں، مہنگے کپڑے، گاڑیاں دکھائیں گے تو کیا وہ کچے ذہن پر اثر نہ کریں گی؟ معصوم ذہن یہی سوچے گا کہ زندگی یہی ہے، اور پھر سوچے گا میری زندگی ایسی کیوں نہیں؟ نتیجتاً اپنے آپ کو کمتر سمجھنے لگے گا۔ یہی وہ comparison culture ہے جو بے سکون کرتا ہے۔ زندگی سے توقعات بڑھاتا ہے، خواب اور حقیقت کا فرق مٹا دیتا ہے۔

نفسیات دان کہتے ہیں کہ جب کوئی ہر وقت دوسروں کی کامیابی کو معیار بنائے تو اس کا نتیجہ anxiety اور depression کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ اسی کیفیت نے آج جین زی کو اپنے ہی بنائے سراب کا قیدی بنا رکھا ہے۔

مزید پڑھیں: نوجوان نسل میں نفرت اور مایوسی پھیلانے والے عناصر کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے، صدر آصف زرداری

تنہائی کی ایک اور بڑی وجہ شاید صبر کا نہ ہونا ہے۔ صبر ایسا کمال وصف ہے کہ یہ انسانی دماغ کے لیے سب سے بڑا anti-depressant ہے۔ جین زی کو فوری نتائج کی جلدی ہوتی ہے۔ محبت ہے تو فوری اظہار ہو، نفرت ہے تو منہ پر کہہ دو، بالکل اسی طرح جیسے پوسٹ لگا کر فوری لائیکس اور کمنٹس کا انتظار کیا جاتا ہے جسے ماہرین instant gratification بھی کہتے ہیں۔

یہ نسل فوری نتیجہ چاہتی ہے جبکہ زندگی مشکل ہے، پیچیدہ ہے، تعلقات، رشتوں، دوستیوں میں آئیڈیل ملنا یا آئیڈیل حالات نصیب ہونا، قریباً ناممکن ہے۔ رشتوں کی پیچیدہ گرہیں اگر ہاتھوں سے کھولنی ہیں تو سوچنے، غور کرنے، دوسرے کی بات سننے، دوسرے کے جوتوں میں اپنا پیر رکھنے یعنی empathise کرنے سے ہی ممکن ہے۔

سمجھداری اور صبر کا کوئی نعم البدل نہیں ، جین زی کو فوری ری ایکشن دینے کی عادت ہے، یہ عادت تعلق اور دوستیوں میں دراڑ ڈالتی ہے۔ منہ پھٹ ہونا کوئی طرہ امتیاز نہیں۔ جب آپ سب سے ذرا ذرا سی بات پر نالاں رہیں گے تو تنہا ہی رہ جائیں گے ناں۔ کیا خیال ہے؟ محبت ہو، رشتہ ہو یا پروفیشنل کامیابی، یہ سب صبر، سمجھداری اور وقت مانگتی ہیں۔

مزید پڑھیں: چین نے سوشل میڈیا پر سختی کیوں بڑھا دی؟

یہی عادت انہیں ورک پلیس پر بھی مشکل میں ڈالتی ہے۔ ایک پراجیکٹ جسے ہفتوں یا مہینوں لگنے ہیں، وہ چاہتے ہیں کل ختم ہو جائے۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو مایوسی اور دباؤ کا احساس بڑھتا ہے۔ یوں فوری خوشی کی چاہ انہیں مسلسل ذہنی تناؤ میں رکھتی ہے۔

اس نسل کا کمال یہ ہے کہ کھل کر ذہنی صحت پر بات تو کرتی ہے لیکن عملی طور پر جذباتی ذہانت (Emotional Intelligence) میں کمزور دکھائی دیتی ہے۔ ایک دوست کے غصے کو برداشت کرنا، نفسیاتی بیماریوں کے شکار باس کے ساتھ کام کرنا اور اچھا کام کرنا، میاں بیوی کے درمیان مسائل، لڑائیوں میں درمیانی رستہ نکالنا، رشتوں کی نزاکت کو سمجھنا، یا اختلاف کو خوش اسلوبی سے سنبھالنا۔ یہ سب چیزیں مشکل ہیں۔

یہ آمنے سامنے مکالمے سے حل ہوتی ہیں، ٹیکسٹ میسج پر نہ جذبات کی ٹھیک ترجمانی ہوتی ہے نہ باڈی لینگویج کے ذریعے بات پہنچائی جا سکتی ہے۔ اب ملاقات سے گریز ہے اور مکالمے کا رواج کمزور ہو رہا ہے۔ نتیجہ یہ کہ فیس بک پوسٹ لگائی جاتی ہے کہ ” feeling alone with 99 others”

کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں

جاری ہے ۔۔۔۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

قرۃ العین حیدر

تنہائی کا شکار ٹوئٹر جین زی سٹریس سوشل میڈیا فیس بک نوجوان نسل

متعلقہ مضامین

  • معرکہ حق میں جگ ہنسائی ،بھارت نے آپریشن سندور ٹو کی تیاری شروع کردی
  • معرکہ حق میں شکست کے باوجود مودی سرکار کی افواج میں جارحیت کا سلسلہ جاری
  • معرکہ حق میں عالمی رسوائی کے باوجود انتہا پسند مودی کی  شکست خوردہ افواج  کا جنگی جنون برقرار 
  • پاکستان اور آسیان ممالک کا دوطرفہ تجارت و سرمایہ کاری بڑھانے پر اتفاق
  • جین زی (Gen Z) کی تنہائی اور بے چینی
  • سابق سینیٹرسراج الحق کی دوحا میں الشیخ علی القرہ داغی سے ملاقات
  • پورٹ قاسم عالمی رینکنگ میں نمایاں، دنیا کی نویں تیزی سے ترقی کرتی کنٹینر بندرگاہ قرار
  • حماس نے دنیا کو فلسطین کو تسلیم کرنے پر قائل کردیا، ڈاکٹر واسع شاکر
  • ہانیہ عامر بنگلادیش کے معروف یوٹیوبر کے گھر پہنچ گئیں؛ خصوصی دعوت کی ویڈیو وائرل
  • چینی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی: گورنر سندھ