جوں ہی میں بوا کے گھر کے دروازے پہ پہنچا، دروازہ کھلا پایا۔ رات کے پونے تین بج رہے تھے؛ اور، دروازہ کھلا تھا! میں داخل ہوگیا۔ حدِ وحشت کو چھوتی ہوئی خامشی اور رات کا پچھلا پہر، مجھ پر کسی پہاڑ کی طرح ٹوٹتا محسوس ہوا۔
میں گھر کی لابی میں داخل ہوا ہی تھا کہ سرد ہوا کے جھونکے نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا اور مجھے ایک مانوس سی خوشبو اپنے گرد مہکتی محسوس ہونے لگی۔ یہ بوا مہرو کی خوشبو تھی، اس کے گھر کی خوشبو، میرے گھر کی خوشبو، جو مجھ سمیت میرے خانوادے کا اثاثہ رہی ہے۔ سامنے سنگھار تھا، خاموش، اور شاید میں نے اس کی خاموشی کو پڑھ لیا تھا۔
بوا مہرو اپنی آخری سانسیں لے چکی تھیں۔ سنگھار نے مجھے بتایا کہ میں گھر میں داخل ہوا ہی تھا کہ بوا مہرو کے دنیاوی سفر کی آخری ساعتیں تھیں اور وہ اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملیں۔ مجھے لگا کہ شاید ان کو میرے آنے کا ہی انتظار تھا! یا شاید یہ میری خام خیالی تھی اور ان کو اس مخصوص وقت پہ جانا ہی تھا! میرا اُسی وقت گھر میں داخل ہونا محض ایک اتفاق تھا؛ ہاں مگر ایک بات تو طے تھی، بوا مہرو کی ہم بچوں میں جان رہتی تھی اور جب انہوں نے دیکھا ہوگا کہ سب اکٹھے ہوگئے ہیں تو وہ اپنے ابدی زندگی کی طرف چل پڑی ہوں گی۔ بہرحال اس لمحے میری زندگی سمٹ کے ایک نکتے پہ آن کھڑی ہوئی اور یادوں کا تانتا بندھ گیا۔
بڑے علم کے پاس ہمارا آبائی گھر ہے۔ گھر کیا، ہماری جنت! وہ جنت ہماری دادی، جسے ہم اماں مٹھی کہتے تھے، کی وجہ سے جنت تھا۔ میرے گھر میں سورج اماں مٹھی کی آواز سے اُگتا تھا۔ اماں صبح صبح وظائف الابرار سے تلاوت کرتیں اور گھر کو برکتوں سے بھر دیتیں۔ وہ مانوس آواز آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہے اور میرے کانوں میں رس گھولتی ہے۔
کئی بار صبح صبح میرا ذہن، لاشعوری طور پر، میرے آبائی گھر کے صحن کی آغوش بیدار ہوتا ہے؛ وہی دھیمی آواز میں تلاوت، وہی مانوس خوشبو، میرے گھر کی خوشبو! ہماری شامیں بھی منفرد ہوتی تھیں۔ عصر سے مغرب تک محلے کی بچیاں مفت ٹیوشن کےلیے آتیں اور سبق دیا جاتا۔ یہ تھا ہمارا گھر، آپا خیرالنساء کا گھر۔ آپا خیرالنساء جس نے اپنی علم کی وارث بوا مہرو کو بنایا تھا اور وہ وعدہ بوا مہرو اپنی آخری سانس تک نبھاتی رہیں۔ ان دو عورتوں نے اپنی بہنوں، شاہدہ، شہناز اور تسلیم کے ساتھ مل کر علم و شعور کی شمعیں روشن کیں، جن سے کئی خاندان منور ہوئے۔ یوں ہمارا گھر پہلے آپا خیرالنساء اور بعد میں آپا مہرالنساء کے گھر کے طور پر پہچانا جانے لگا اور یہ پہچان آج تک قائم ہے۔
آپا مہرالنساء نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغار درس و تدریس کے شعبے سے کیا۔ ابتدا میں وہ اس وقت کے گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول اور موجودہ ہائیر سیکنڈری اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے ایڈمنسٹریشن کے شعبے میں بطور ایس ڈی اِی او قدم رکھا۔ وہ نوے کی دہائی کے اوائل میں ایس ڈی اِی او کوٹ ڈیجی تعینات ہوئیں۔ کوٹ ڈیجی ایک پسماندہ علاقہ تھا جہاں انہوں نے بچیوں کی تعلیم کےلیے گوناگوں خدمات سرانجام دیں۔ گاؤں گاؤں جانا پرائمری اسکولوں کی انسپیکشن کرنا، اساتذہ کی تربیت اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور تعلیمی ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا، ان کا وتیرہ رہا۔ ان کی گراں قدر خدمات کی وجہ سے وہ ہر دل عزیز تھیں۔ آپ نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں مختلف اضلاع کے شعبہ تعلیم میں بطور ایس ڈی ای او، ڈی اِی او، اِی ڈی او خدمات سرانجام دیں اور آخر 2015 میں ڈائریکٹر کالجز کے عہدے سے ریٹائر ہوئیں۔ اس کے علاوہ، آپ نے غیر نصابی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے بھی کام کیا؛ بالخصوص بچیوں میں خود انحصاری و خوداعتمادی پیدا کرنے کےلیے اسکاؤٹنگ میں گرلز گائیڈ کے تربیتی پروگراموں کا انعقاد کیا۔
بوا مہرو 2015 میں ریٹائر تو ہوئیں لیکن سرگرمیوں پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ انہوں نے اپنی زندگی نڈر گزاری۔ ہم بچوں کےلیے وہ جستجو، ہمت اور جدوجہد کے حوالے سے ایک رول ماڈل تھیں۔ مجھے لگتا رہا ہے کہ ان کے پاس ہر مسئلے کا حل ہوتا تھا۔ آپ بیمار پڑ جائیں، وہ کوئی ایسا ٹوٹکا بتاتیں کہ بیماری رفوچکر ہوجاتی۔ آپ کسی تقریب میں شریک ہونے جارہے ہوں، کپڑے نہیں ہوں، جادو کرتیں اور مناسب کپڑے آجاتے۔ آپ کی جیب خالی ہوتی، فیس کے پیسے نہیں ہوتے، وہ جادو کی چھڑی گھماتیں، آپ کی جیب میں کالج کا خرچہ بھی آجاتا اور، فیس بھی جمع ہوجاتی۔ سب سے بڑھ کر، آپ اگر کسی پریشانی سے دوچار ہوں، تمام دروازے بند ملیں اور کوئی سبیل نظر نہ آئے؛ آپ کو بوا مہرو کے پاس بیٹھ جانا ہوتا تھا اور تمام مسائل حل ہوتے محسوس ہوتے۔ بند کواڑ کھلنے لگتے اور آپ کی مشکل آسان ہوجاتی۔ یہ تھیں ہماری بوا مہرو۔ سب کی غمگسار، چارہ گر؛ سب کی مشکل کشا!
چند سال پہلے، بوا مہرو کو کینسر کا عارضہ لاحق ہوا۔ کینسر ایک ایسا مرض ہے کہ مریض کے ساتھ ساتھ اس سے پیار کرنے والے بھی شدید کرب سے گزرتے ہیں۔ بوا مہرو کی جب کیمو تھراپی ہورہی تھی تو میرا کلیجہ پھٹا جاتا۔ میں نے کئی بار ان کو دیکھ کر اپنے آنسوؤں کو پیا۔ دل چاہتا کہ پھوٹ پھوٹ کر روؤں لیکن میرا عجیب معاملہ ہے؛ جذبات کے اظہار سے میری جان جاتی ہے اور ردعمل میں غائب ہوجاتا ہوں۔ بوا کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا۔ میں ادھر اُدھر سے حال پوچھتا اور اپنے آپ کو تسلی دیتا۔ بوا ہمیشہ کی طرح بہادری سے لڑیں اور کینسر کو مات دے دی۔ یوں ان کی زندگی معمول پر آگئی۔ مجھے اطمینان ہوا لیکن گزشتہ سال نومبر میں ان کی طبیعت خراب ہوئی۔ ڈاکٹروں کو دکھایا۔ کینسر کا جن جو بوتل میں بند تھا، اس نے پھر اپنا غلبہ دکھانا شروع کیا اور اس کے بعد طبیعت نہیں سنبھلی، بگڑتی چلی گئی۔ بوا مہرو نے آخری سانس تک ہمت نہیں ہاری۔ وہ اس بیماری میں بھی ہمیں دلاسہ دیتیں، ہماری دل جوئی کا سامان کرتیں۔ ہم انہیں اپنی آنکھوں سے گھلتا دیکھتے لیکن وہ عجیب دیومالائی طاقت کی مالک تھیں۔ ان کا جسم تو ڈھلتا جارہا ہوتا لیکن ان کی روح جواں ہوتی چلی جاتی۔ اپنے آخری سفر سے تین دن پہلے تک، جبکہ ان کو اندازہ تھا کہ اور زندگی موت کا آخری معرکہ لڑ رہی ہیں، ان کا حوصلہ پست نہیں تھا۔ وہ کراچی آنے کا پروگرام بنارہی تھیں، انہوں نے کپڑے خرید کے دینے تھے۔ انہوں نے بال بھی بنوانے تھے۔ وہ زندگی سے بھرپور تھیں۔ میں نے اپنی زندگی میں کئی ایک بہادر لوگ دیکھے ہیں جو زندگی کو جینے کا حق ادا کرتے ہیں لیکن بوا مہرو سے بڑھ کر ابھی تک کوئی نہیں دیکھا۔
میرا آبائی گھر، صحن چھوٹا ہوگیا ہے، بوا مہرو اپنا آخری دیدار دے رہی ہیں۔ میں اور سنگھار جاتے ہیں۔ سہ پہر تین بجے جنازہ اٹھنا ہے۔ میں عجیب کشمکش سے گزر رہا ہوں۔ جس بوا نے ہمیں اپنی گود میں کھلایا، اس کو اپنے کندھوں پر لے جانے کی ذمے داری ہے۔ ہائے، یہ کیا ظلم ہے! اتنا بڑا امتحان۔ سنگھار آگے بڑھتا ہے اور آواز دیتا ہے۔ میں بھی اس کے ساتھ شامل ہوجاتا ہوں، ’’ہم اماں کو لیے جارہے، اگر کسی کا کوئی قرض یا لین دین ہے تو ابھی بتا دے۔ ہم ادا کردیں گے۔‘‘ یہ کہنا تھا کہ رونے اور بین کی آواز بلند ہوتی ہے۔ بوا شہناز جملہ ادا کرتی ہیں، ’’اس پہ کس کا قرض ہوگا، یہ تو وہ ہے جو تا عمر سب کی حاجت روائی کرتی رہی ہے-‘‘ یہ سنتے ہی میں عجیب کیفیت سے گزرنے لگتا ہوں۔ کلمہ شہادت کی آواز بلند ہوتی ہے اور میرے گھر کی روشنی ماند پڑجاتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میرے گھر کی خوشبو بوا مہرو میں بھی کے ساتھ نے اپنی گھر کی ہے اور تھا کہ
پڑھیں:
اکانومسٹ کی خبردرست، بشریٰ بی بی جنرل فیض کیلئے کام کرتی تھیں، خواجہ آصف
سیالکوٹ(ڈیلی پاکستان آن لائن)وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اکانومسٹ کی خبردرست، بشریٰ بی بی جنرل فیض کیلئے کام کرتی تھیں،بشریٰ بی بی کی دی گئی معلومات چند روز میں درست ثابت ہو جاتی تھیں،بانی پی ٹی آئی مکمل طور پر جنرل فیض اور جنرل باجوہ کے کنٹرول میں تھے۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق خواجہ آصف کا کہناتھا کہ جنرل عاصم منیر کی رپورٹ پر بانی پی ٹی آئی نے ناراض ہو کر انہیں ہٹا دیا، پاکستان کے ساتھ سنگین مذاق کیاگیا، طاقت کیلئے ایک خاتون کو لانچ کیاگیا،چار پانچ سال کی لوٹ مار ایک منصوبے کے تحت کی گئی،نوازشریف کے خلاف سپریم کورٹ میں پلان کے تحت فیصلے ہوئے،لوٹ مار کے پیسے سے بانی پی ٹی آئی کو حصہ ملتا تھا باقی پیسا باہر گیا۔ان کاکہناتھا کہ پنجاب جیسے صوبے کے ساتھ سنگین مذاق ہوا، آکسفورڈ سے پڑھ کر ھی یہ سب کرنا افسوسناک ہے۔
اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ دوم کا دورہ پاکستان، فضائی حدود میں داخلے پر پاک فضائیہ کے جنگی جہازوں کی جانب سے پرتپاک استقبال ،سلامی دی
وزیر دفاع نے کہاکہ عدلیہ کے تبادلوں پر نیا قانون دنیا کے مطابق ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس کے خواب دیکھے ہوئے تھے وہ نہ بن سکے،عدلیہ آزاد ہونی چاہئے مگر ثاقب نثار اور اعجاز الاحسن والے انداز میں نہیں،جنرل فیض عدالتوں اور بانی پی ٹی آئی دونوں کو کنٹرول کررہے تھے،ان کاکہناتھا کہ ملک کی کمانڈ جادو ٹونے کے حوالے کردی گئی تھی،بشریٰ بی بی دشمن ملک کے ہاتھ لگ جاتیں تو سنگین خطرات پیدا ہوسکتے تھے۔
مزید :