مقبوضہ فلسطین سے دریافت شدہ پیالہ، کائنات کے پُراسرار رازوں کا حامل
اشاعت کی تاریخ: 18th, November 2025 GMT
تل ابیب (ویب ڈیسک) نئی تحقیق کے مطابق مقبوضہ فسلطین سے دریافت ہونے والا 4300 برس پرانا چاندی کے پیالہ کائنات کے ابتداء کا قدیم فنکارانہ تصور رکھتا ہے۔
مشہور ’عین سامیہ‘ کپ 1970 میں جوڈائن ہِل میں واقع ایک قدیم مقبرے سے دریافت ہوا۔ اس کا نام مقبوضہ مغربی کنارے میں موجود ایک فلسطینی گاؤں پر رکھا گیا جہاں یہ دریافت ہوا تھا۔
یہ پیالہ کانسی کے دور کے وسط یعنی 2650 قبلِ مسیح سے 1950 قبلِ مسیح کا ہے، جب اس علاقے میں متعدد خانہ بدوش آبادیاں قیام پذیر تھیں۔
تین انچ کے اس کپ پر فنکارانہ نقش نگاری موجود ہے۔ اس پر ایک نصف انسان اور نصف جانور کی ایک تصویر کدی ہوئی ہے جو اپنے ہاتھ میں پودے اٹھائے ہوئے ہے اور ساتھ ہی ایک فلکیاتی نشان بھی ہے۔ ان کے علاوہ برتن پر سانپ اور پُراسرار روشنی بھی کدی ہوئی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ممکنہ طور پر یہ جنوبی میسوپوٹیمیا میں تقریباً 4300 برس قبل ڈیزائن کیا گیا ہوگا جس کے لیے چاندی شام یا آج کے عراق سے لایا گیا ہوگا۔
محققین کا کہنا ہے کہ یہ ڈیزائن کائنات کی ابتداء کا سب سے پرانا تصور ہے جس میں کائنات کی قبلِ از تخلیق انتشار سے نئی ترتیب کی جانب منتقلی کو دکھایا گیا ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
تاریک غارمیں دنیا کا سب سے بڑامکڑی کا جال دریافت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
برسلز: یورپ کے جنوبی حصے میں واقع ایک تاریک غار میں مکڑیوں کی حیرت انگیز کالونی دریافت کی گئی ہے، جسے دنیا کا سب سے بڑا مکڑی کا جال قرار دیا جا رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق یہ انوکھا جال ’’کیو آف سلفر‘‘ نامی غار میں دریافت ہوا ہے جو 106 مربع میٹر کے وسیع علاقے میں پھیلا ہوا ہے اور ہزاروں قیف نما جالوں پر مشتمل ہے۔
سائنسی جریدے سب ٹیرینین بایولوجی میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، یہ جال دو مختلف اقسام کی گھریلو مکڑیوں نے مل کر بنایا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عام طور پر ان میں سے ایک قسم دوسری کو شکار بنا لیتی ہے، تاہم غار میں یہ دونوں پرامن بقائے باہمی کے ساتھ رہ رہی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ غار میں روشنی کی مکمل کمی نے مکڑیوں کی نظر کو متاثر کیا ہے، جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو شکار یا دشمن نہیں سمجھتیں۔تحقیق میں مزید انکشاف ہوا ہے کہ دونوں اقسام کی مکڑیاں غار میں موجود چھوٹی مکھیوں کو کھاتی ہیں جو سلفر پیدا کرنے والے بیکٹیریا کی سفید تہہ پر پلتی ہیں۔
سائنس دانوں کے مطابق، یہ دریافت ثابت کرتی ہے کہ زمین کے اندرونی حصے اب بھی قدرت کے پوشیدہ کرشموں سے بھرپور ہیں، جنہیں انسان ابھی مکمل طور پر دریافت نہیں کر سکا۔