اللہ نے زندگی دی ہے وہی اسے لے گا، کارکنوں سے کہتی ہوںفکر نہ کریں،شیخ حسینہ واجد
اشاعت کی تاریخ: 17th, November 2025 GMT
بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے کہا ہے کہ ہم سب کچھ یاد رکھیں گے، سب کا حساب لیا جائے گا، اللہ نے زندگی دی ہے وہی اسے لے گا، کارکنوں سے کہتی ہوں: فکر نہ کریں، یہ وقت کی بات ہے، یقین ہے میں اس کا بدلہ لے سکوں گی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق شیخ حسینہ واجد نے فیصلے سے پہلے ایک بیان میں کہا کہ کہ ان کے خلاف الزامات غلط ہیں اور وہ ایسے فیصلوں کی پرواہ نہیں کرتی ہیں۔
انسانیت کے خلاف جرائم کے عالمی ٹربیونل کے فیصلے سے پہلے اپنے حامیوں کے نام ایک آڈیو پیغام میں سابق وزیراعظم نے کہاکہ نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی زیر قیادت عبوری حکومت ان کی جماعت کو ختم کرنا چاہتی ہے، 78 سالہ حسینہ نے بنگالی میں کہا کہ ’یہ اتنا آسان نہیں ہے، عوامی لیگ جڑوں سے اُبھری ہے، کسی طاقت کے ناجائز قبضہ کرنے والے کی جیب سے نہیں‘۔
حسینہ واجد نے کہا کہ ان کے حامیوں نے بنگلہ دیش میں احتجاجی منصوبوں کے لیے خودبخود ردعمل ظاہر کیا، ’انہوں نے ہمیں یقین فراہم کیا، لوگ اس کرپٹ، عسکری اور قاتل یونس اور اس کے معاونین کو دکھائیں گے کہ بنگلہ دیش کس طرح بدل سکتا ہے، لوگ انصاف کریں گے‘۔
حسینہ واجد نے اپنے حامیوں سے کہا کہ فکر نہ کریں، میں زندہ ہوں، زندہ رہوں گی، دوبارہ عوام کی فلاح کے لیے کام کروں گی اور بنگلہ دیش کی زمین پر انصاف کروں گی۔
محمد یونس پر اقتدار پر ناجائز قبضہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کے آئین کے مطابق منتخب نمائندوں کو زبردستی عہدوں سے ہٹانا قابل سزا ہے، محمد یونس نے منصوبہ بندی سے بالکل ایسا ہی کیا ہے۔
حسینہ نے کہا کہ ان کی حکومت نے گزشتہ سال احتجاج کے دوران طلبہ کے مطالبات قبول کیے، لیکن مسلسل نئے مطالبات آتے رہے، جن کا مقصد انارکی پیدا کرنا تھا۔
اپنے دور حکومت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کو رد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے 10 لاکھ روہنگیا کو پناہ دی اور وہ مجھے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے رہے ہیں؟
حسینہ واجد نے کہا کہ محمد یونس کی زیر قیادت حکومت نے پولیس، عوامی لیگ کے کارکنان، وکلا، صحافیوں اور ثقافتی شخصیات کے قاتلوں کو معافی دی، لیکن ایسے افراد کو معافی دے کر، وہ خود الزام کی زد میں آگئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’فیصلہ دیں، مجھے پرواہ نہیں، اللہ نے مجھے زندگی دی، اللہ ہی اسے لے گا، لیکن میں اپنے ملک کے لوگوں کے لیے کام جاری رکھوں گی۔ میں اپنے والدین اور بھائی بہن کھو چکی ہوں اور انہوں نے میرا گھر جلا دیا‘۔
حسینہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ایسے عدالتی فیصلے انہیں نہیں روکیں گے، میں لوگوں کے ساتھ ہوں۔ میں اپنی پارٹی کے کارکنوں سے کہتی ہوں: فکر نہ کریں، یہ وقت کی بات ہے، میں جانتی ہوں کہ آپ مصیبت میں ہیں، ہم سب کچھ یاد رکھیں گے، سب کا حساب لیا جائے گا، اور مجھے یقین ہے کہ میں اس کا بدلہ لے سکوں گی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: حسینہ واجد نے محمد یونس بنگلہ دیش نے کہا کہ انہوں نے
پڑھیں:
کون اللہ میاں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251115-03-6
شرَفِ عالم
میں: ہم نے ایک موقع پر اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی منصوبہ بند نسل کشُی پر دستاویزی ثبوتوں اور حوالوں کے ساتھ گفتگو کی تھی۔ اس حوالے سے سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اسرائیل اور اس کی حمایت کرنے والوں میں کوئی خوف ِخدا نہیں ہے کہ وہ فلسطینیوں پر ظلم کو کس طرح روا رکھے ہوئے ہیں، ان تہذیب کے علم برداروں کے نزدیک معصوم ومظلوم انسانی جانوں کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے۔ کیوں کہ ظلم کرنے والے ان ممالک کے حکمرانوں کا مذہب کوئی بھی ہو لیکن ان میں سے بیشتر مذاہب کی تعلیمات میں حیات بعدالموت اور آخرت میں جواب دہی کا عقیدہ ضرور پایا جاتا ہے۔
وہ: جہاں تک اسرائیل کی بات ہے تو ان کے نزدیک تو یہ مذہبی عقیدے کی بنیاد پر شاید ان کے سب سے بڑے فریضے کی تکمیل ہے۔ اب اس عقیدے کے جھوٹے یا سچے ہونے کی بحث کو فی الحال یہیں چھوڑ دیتے ہیں کیوں کہ کسی بھی مذہبی عقیدے کی بنیاد پر کسی دیرینہ خواہش یا فریضے کی ادائیگی میں کسی دوسرے مذہبی عنصر یا افراد کی رکاوٹ جیسی صورت حال میں کم وبیش تمام ہی مذاہب کے پیروکار بعض اوقات انسانیت کی تمام حدیں پار کر جاتے ہیں۔ تمہیں یاد ہوگا ۱۹۹۲ء میں جب لاکھوں انتہا پسندوں ہندوئوں نے ایودھیا انڈیا میں تقریباً پانچ سو سال قبل تعمیر کی گئی بابری مسجد کو شہید کردیا تھا۔ جبکہ اس جگہ رام کی جنم بھومی ہونے کے دعوے کی تصدیق آج تک نہیں ہوسکی۔ اسی طرح حال ہی میں پہل گام مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں معصوم جانوں کی ہلاکتوں کو کوئی بھی مسلمان کیسے حق بجانب کہہ سکتا ہے۔
میں: لیکن میری سمجھ میں آج تک یہ بات نہیں آئی کہ کوئی بھی انسان یا گروہ اپنے مذہبی عقیدے کی پاسداری یا حصولِ حق کے لیے بے گناہ انسانوں کی جان کا پیاسا کیسے ہوسکتا ہے، کیا تمہیں انسانوں کے اس رویے میں تضاد نظر نہیں آتا، کہ ایک اللہ کو ماننے والے مسلمان اور شرک کے غلُوکے ساتھ خدا اور بھگوان کا تصور لیے دیگر مذاہب کے پیروکار اس بنانے والے کے احکام پر کتنے عمل پیرا ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ آج کی دنیا میں مسلم اور غیر مسلم کی تخصیص کے بغیر ہمارا انفرادی اور مجموعی سماجی رویہ خدا اور اس کے احکامات سے بے پروائی کی گواہی دے رہاہے۔ خدا کے منکروں کو کیا کہنا ایمان والے بھی اپنی زبان سے نہ سہی مگر عمل سے اسی کا پرچار کررہے ہیں کہ ’’میں ہوں، میں ہوں اور صرف میں ہوں اور میری اس زندگی میں یہ اللہ میاں کہاں سے آگئے! کون اللہ میاں‘‘۔
وہ: تم نے ایک ایسے نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے جو اس وقت پوری انسانیت کے لیے لمحہ ٔ فکر ہے اور اگر انسان اس بات کو سمجھتے ہوئے ادراکِ ذات کے رستے پر چل کر رب کائنات کی پہچان کرلے تو ہر پل یہی کہتا نظرآئے۔ ’’اللہ ہے، اللہ ہے اور صرف اللہ ہے اور اللہ کی دی ہوئی اس زندگی میں یہ میں کہاں سے آگیا! کون میں‘‘۔ اس موقع پر ابن عربی کا وہی قول یاد آرہا ہے جو شاید ہم نے اس سے پہلے بھی اپنی کسی گفتگو میں شامل کیا ہے۔ ’’جس انسان کو اپنی تخلیق پر حیران ہوکر خود پر سوال اٹھانا چاہیے تھا اس نے اپنے پیدا کرنے والے اپنے خالق کی ہستی پر سوالیہ نشان لگادیا‘‘۔
میں: کیا تمہیں ایسا نہیں لگتا کہ انسان کی یہ بے خدائی گزشتہ چند صدیوں پر محیط جدیدیت کی اس سوچ کا پیش خیمہ ہے جس کے زیر اثر انسان نے اپنے گزرے ہوئے کل کو یکسر فراموش کردیا، سرمایہ داریت کے لبادے میں لپٹے مغربی نظریات کے سامنے تمام پرانے خیالات اور بیانیے دقیانوسی قرار پائے اور اس سوچ کا منطقی انجام یہ ہوا کہ انسان نے مادی اشیاء کے حصول کے ذریعے نفسانی خواہشات کی تکمیل کو اپنی زندگی کا واحد مقصد بناتے ہوئے خدا کے ساتھ صدیوں سے جڑے اپنے اس رشتے کو بھی پرانا سمجھ کر توڑ دیا جو خواہشات کے پورا ہونے پر ہی نہیں، نہ ہونے پر بھی مقام شکر اور اس کا واحد سہارا ہوا کرتا تھا۔
وہ: تمہاری بات سو فی صد درست ہے، اس خدا لامرکزیت کی وجہ سے انسان نے خود اپنی ذات کو اپنا مالک ومختار بنا لیا اور نتیجتاً مذہب اور اس کے احکامات چند ظاہری عبادات اور کسی حد تک محض سماجی مجبوری بن کے رہ گئے۔ اور یوں دنیا کے کم وبیش ہر سماج نے کہیں احساس کمتری کی وجہ سے، کہیں اپنے ماضی پر شرمندہ ہوکر اور کہیں عقل کی کسوٹی پر پورا اُترتے سائنسی علوم کو معاشرتی ترقی کی واحد بنیاد بنا کر مِن وعن اختیار کرلیا۔ وہ دل جس کے کسی نہ کسی گوشے میں خدا موجود تھا نت نئی خواہشات اور مادی اشیا کے حصول کی آماج گاہ بن کر رہ گیا۔
میں: لیکن اگر صرف مسلمانوں کے حوالے سے بات کی جائے تو آج روزہ، نماز، اعتکاف، حج وعمرہ کرنے والوں کی تعداد پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔
وہ: شاید تعبیر کی یہی وہ غلطی ہے جسے سب کچھ مان کر ہم نے سجود وقیام، ذکرو اذکار کا ہر سامان تو اپنے لیے میسر کرلیا، مگر ہم بحیثیت ایک فرد اور ایک امت دنیا کے کسی بھی سماج کے لیے میسر نہ ہوسکے۔ کسی دوسرے سماج کے لیے مفید ہونے کا سوال تو بعد میں اُٹھے گا پہلے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا ہم صرف اپنے سماج کے لیے بھی کسی طرح سود مند ثابت ہو رہے ہیں۔ یہاںکسی کی نیت اور ایمان پر اپنی رائے دینے اور اسے شک کی نگاہ سے دیکھنے کا مجھے اور تمہیں کیا کسی کو بھی کوئی حق حاصل نہیں لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ آج کا مسلمان، مسلمان دکھنا چاہتا ہے، بننا نہیں چاہتا۔ من حیث القوم اور امت جن خرابیوںکی نشاندہی اقبالؔ ایک صدی قبل کرگئے تھے وہ مسلمانوں میں پہلے سے کہیں زیادہ راسخ ہوگئی ہیں، یہ ہمارے رویوں اور عادات وخصائل میں ایسے نفوذ کرگئی ہیں کہ اب شاید واپسی کا دروازہ تقریباً بند ہوچکا ہے۔
میں: واپسی کا دروازہ بند ہونے سے تمہاری کیا مراد ہے؟ اگر ربّ کی بارگاہ میں توبہ کرنے کی بات ہے تو اللہ میاں نے یہ دروازہ تو ہمیشہ کھلا رکھا ہے۔
وہ: واپسی سے مراد اللہ میاں کی واپسی ہے۔ ہمارے بنجر دلوں میں، سُونے گھروں میں، انصاف کے کٹہرے میں، قانون سازی کے احاطے میں، سیاست کے میدان میں، منصف کے قلمدان میں، ہماری صبح اور شام میں، روزانہ کے ہر کام میں۔۔۔ جب اللہ میاں پھر سے لوٹ آئیںگے تو مظلوم کو زبان ملے گی، ہنرمند کو پہچان ملے گی، ہر چوراہے پر احترام انسانیت کی نئی داستان ملے گی، ہر غریب کو مشکل میں بھی زندگی آسان ملے گی۔
میں: میری سمجھ میں تمہارا اصل مدعا ابھی بھی پوری طرح نہیں آیا۔
وہ: بات فقط اتنی سی ہے کہ آج کی سائنسی ترقی اور زندگی میں سماجانے والی ٹیکنالوجی کو اس کی تمام حشر سامانیوں کو اختیار کرنے کے باوجود بھی اللہ میاں کے احکامات اور اس کے نظام کو اپنے سماج، اپنی سیاست، اپنی معیشت، اپنی عدالت اور اپنی پوری زندگی میں شامل کرکے انسان خود اپنا اور اس پوری دنیا کا قبلہ سیدھا کرسکتا ہے۔ مجھے اس موقع پر مغربی تہذیب کے خلاف اردو کے پہلے مزاحمتی شاعر اکبر الہ آبادی یاد آگئے جسے ہم نے محض ایک مزاحیہ شاعربنا کر کھڈے لین لگادیا۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں