WE News:
2025-11-18@08:14:10 GMT

تحریک انصاف کو نارمل زندگی کی طرف کیسے لایا جائے؟

اشاعت کی تاریخ: 18th, November 2025 GMT

تحریک انصاف اپنی ساری مقبولیت اور ایک صوبے میں اقتدار کے باوجود قومی دھارے سے دُور ہوتی جارہی ہے۔ یہ محض ایک سیاسی مسئلہ نہیں، یہ ایک سماجی المیہ ہے۔

سیاست کے سینے میں تو دل نہیں ہوتا لیکن سماجیات کے ماہرین کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ تحریک انصاف کے وابستگان کو نفرت کے اس سونامی سے نکال کر ایک نارمل زندگی کی طرف کیسے لایا جاسکتا ہے۔

تحریک انصاف کوئی خلائی مخلوق نہیں جسے ہم جانتے نہ ہوں، یہ ہمارے ہی دوست ہیں، بھائی ہیں، رشتہ دار ہیں۔ لیکن ان کی اکثریت کے روہے نارمل نہیں رہے۔ یہ ایک خاص کیفیت کا شکار ہیں۔ یہ چلتے پھرتے آتش فشاں بن چکے ہیں۔ عشروں کی دوستیاں پامال ہوچکی ہیں اور رشتے داؤ پر لگ گئے ہیں۔ نہ کوئی حفظ مراتب باقی بچا ہے نہ کوئی وضع اور حیا۔ رستم وہی ہے جو اپنی اور دوسروں کی عزت سے ایک درجے میں بے نیاز ہو۔

قریبی عزیزوں میں بھی نونہال موجود ہیں۔ پہلے پہل میں ان سے اختلاف کی جسارت کر لیتا تھا، اب ان سے خوف آتا ہے۔ دو لفظوں کے اختلاف سے یہ بھول جائیں گے کہ مخاطب کون ہے اور آپ سے کس رشتے میں بندھا ہے۔ یہ برسوں کا تعلق اور رشتے ایک طرف رکھ دیں گے اور سیدھے آپ کی دیانت پر حملہ آور ہوں گے۔ یہ 2 سیکنڈ میں آپ کو بددیانت، خائن، بے ایمان اور بکاؤ قرار دے دیں گے۔ یہی نہیں، یہ مرے مارنے پر اتر آئیں گے۔

آپ ان سے کسی بھی درجے میں اختلاف کرکے دیکھیں، یہ آپ کو سینگوں پر لے لیں گے۔ ان کے ہاں عزت، توقیر، حفظ مراتب، احترام کا ایک ہی پیمانہ باقی ہے اور وہ ہے عمران خان۔ اگر آپ عمران خان کو دنیا کا آخری ایماندار آدمی نہیں سمجھتے تو یہ آپ کو دنیا کے بدترین انسانوں میں شمار کریں گے۔

یہ کسی دلیل کو بھی نہیں مانتے۔ یہ اس تکلف سے بے نیاز ہیں۔ ان کی دلیل بھی صرف عمران خان صاحب ہیں۔ آپ ان سے بحث بھی نہیں کرسکتے کہ یہ دو فقروں بعد ہانپ جائیں گے اور اس کے بعد آپ کے دامن اور دستار کی سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔

یہ بغیر کسی کارکردگی کے رستم ہیں۔ یہ دنیا کا آخری باشعور گروہ ہے لیکن اس باشعور گروہ سے آپ عثمان بزدار یا علی امین گنڈاپور کی کارکردگی کا سوال کرلیں تو یہ آپ کو ایسی ایسی گالیاں دیں گے کہ آپ کی کنپٹیاں سلگ اٹھیں گی۔ گالم گلوچ کے فن میں ان کا کوئی مقابل نہیں۔ یہ ایسی ایسی گالیاں دیتے ہیں جو آدمی نے کبھی سنی بھی نہیں ہوتیں۔ افسوس کہ اس فن میں کوئی نوبل انعام نہیں ملتا ورنہ یہ تاحیات ان ہی کے نام رہتا اور کوئی ورلڈ کپ ہوتا تو یہ بلامقابلہ ہی جیت جاتے۔

ان کے خیال میں ملک میں عمران خان کے علاوہ باقی سب چور ہیں۔ سب بددیانت اور خائن ہیں۔ یہ کسی سے بات کرنے کے روادار نہیں کیونکہ باقی سب تو چور ہیں۔ ان چورں میں سے کوئی اگر ان کی صف میں چلا جائے تو وہ راتوں رات متقی میوہ قرار پاتا ہے، اور متقی میووں میں سے کوئی انہیں چھوڑ کر چلا جائے تو اس سے بُرا آدمی آپ کو 7 براعظموں میں نہیں ملے گا۔

یقیناً تحریک انصاف کے سب کارکنان ایسے نہیں ہیں، بہت سارے اچھے بھی ہیں جو اپنی ساری اچھائی کے ساتھ آپ کو سمجھاتے ہیں کہ ہمارے نونہال اپنے چھینے گئے مینڈیٹ کی وجہ سے خفا ہیں اس لیے آپ ان کی گالیاں کھا کر بدمزہ نہ ہوں، صرف یہ دیکھیں کہ ان کے لب کتنے شیریں اور حسین ہیں۔

اب معاملہ یہ ہے کہ مینڈیٹ تو یہاں ہر ہارنے والے کا چوری ہی ہوا ہوتا ہے۔ کسی نے کبھی شکست مانی ہو تو بتائیے لیکن سچ یہ ہے کہ جب ان کا مینڈیٹ چوری نہیں ہوا تھا، جب وفاق میں ان کی حکومت تھی، جب یہ ایک پیج پر ڈی چوک میں ابرارالحق صاحب کی قیادت میں می رقصم تھے، تب بھی ان کی زبان کی کڑواہٹ ایسی ہی تھی۔ تب بھی یہ کسی دوسرے کے وجود کے قائل نہ تھے۔

ان کے نزدیک جج صرف وہ اچھا جو انہیں دیکھے تو وارفتگی میں پکار اٹھے: ’گڈ ٹو سی یو‘۔ صحافی صرف وہ اچھا جو ان کے ہر مخالف کو گالیاں دیتا رہے، آرمی چیف صرف وہ اچھا جو انہیں سایہ عاطفت میں شفقت پدری کے ساتھ رکھے۔

یہ کیفیت ایک سیاسی بحران نہیں، یہ ایک سماجی المیہ ہے۔ اس نے ہمارے معاشرے کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ معاشرے کی اخلاقی قدریں پامال کردی گئی ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ بدزبانی ہماری سیاست میں پہلے نہیں تھی۔ پہلے بھی تھی۔ لیکن اسے جس طرح ان لوگوں نے انسٹی ٹیوشنلائز کیا ہے وہ ایک مکمل تہذیبی المیہ ہے۔

یہ قومی دھارے سے کٹ چکے، یہ اجتماعی اخلاقیات سے بے نیاز ہوچکے۔ ان کے ہاتھوں نہ زندہ کو امان ہے نہ مرنے والوں کو۔ یہ ایک کلٹ بن چکے۔ کلٹ کی محبت میں یہ نہ ریاست کو خاطر میں لاتے ہیں نہ سماج کو۔ عام کارکنان سے لے کر ان کی قیادت تک، کلٹ کی عقیدت میں ایسا مبالغہ کرچکے کہ اسے بیان کرتے اور یہاں نقل کرتے بھی خوف آتا ہے۔

یقیناً یہ احوال سب کا نہیں، یقیناً یہ سب ایسے نہیں لیکن ان کا عمومی تاثر اب انہی کی چاند ماری کے مرہون منت ہیں جو ان خوبیوں کے مالک ہیں جو اوپر بیان کردی گئیں۔

لیکن یہ جیسے بھی ہیں، اس معاشرے کا حصہ ہیں، یہ ہمارے ہی پاکستانی بھائی ہیں، یہ ہمارے ہی بچے اور نوجوان ہیں۔ یہ ہمارے ہی دوست احباب اور رشتہ دار ہیں۔ انہیں اس نفسیاتی کیفیت سے نکالنا ہوگا اور نارمل زندگی کی طرف لانا ہوگا۔ جہاں یہ بے شک سیاست بھی کریں، اختلاف بھی کریں، تنقید بھی کریں، لیکن یہ سب ایک تہذیبی اور اخلاقی المیہ بن کر نہ رہ جائے بلکہ یہ ایک شائستہ سیاسی عمل ہو۔

انہیں نارمل زندگی کی طرف لانے کا یہ کام روایتی سیاست کے کرنے کا نہیں ہے نہ ہی وہ کرسکتی ہے کیونکہ اس کی نفسیات حریفانہ ہے۔ جب کہ یہ کام خیر خواہی کا ہے۔ یہ بھاری پتھر سماجیات کے ماہریں اٹھا سکتے ہیں۔

تو کوئی ہے جو یہ کام کرسکے؟

یاد رکھیے، انہیں نفرت کی نہیں، خیر خواہی کی ضرورت ہے۔ یہ اس ملک کے نوجوان ہیں، یہ اس ملک کا سرمایہ ہیں۔ ان کی نفسیاتی بحالی کا کوئی جامع پروگرام شروع کیا جانا چاہیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آصف محمود

آصف محمود انگریزی ادب اور قانون کے طالب علم ہیں۔ پیشے سے وکیل ہیں اور قانون پڑھاتے بھی ہیں۔ انٹر نیشنل لا، بین الاقوامی امور، سیاست اور سماج پر ان کی متعدد کتب شائع ہوچکی ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: نارمل زندگی کی طرف تحریک انصاف یہ ہمارے ہی ہیں جو یہ ایک

پڑھیں:

تحریک انصاف کی جانب سے آزاد کشمیر ان ہاؤس تبدیلی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا ہے: عبدالقیوم نیازی

---فائل فوٹو 

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) آزاد کشمیر کے صدر عبدالقیوم نیازی نے کہا ہے کہ تحریکِ انصاف کی جانب سے آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔

آزاد کشمیر کے وزیراعظم چوہدری انوارالحق کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے معاملے پر پاکستان تحریکِ انصاف کے صدر نے کہا کہ کشمیر میں 14 سیٹوں والی جماعت کا حکومت بنانا بیس کیمپ سے مذاق ہے، پی ٹی آئی کے 14 لوٹوں سے حکومت بنانا پیپلز پارٹی کی کیسی جمہوریت ہے۔

دوسری جانب  سردار عتیق نے اعلان کیا کہ مسلم کانفرنس اِن ہاؤس تبدیلی کے کھیل کا حصہ نہیں بنے گی۔

جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی سردار حسن ابراہیم نے بھی غیرجانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے فیصل راٹھور نے  وزارتِ عظمیٰ کےلیے 35 سے زائد ووٹوں کی حمایت کا دعویٰ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق وزیرِاعظم انوارالحق تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا کرنے اور جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔

تحریکِ عدم اعتماد پر رائے شماری کے لیے قانون ساز اسمبلی کشمیر کا اجلاس 17 نومبر پیر کو ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ کوئی کیک نہیں ہےکہ اس کو  بانٹ  دیا  جائے، شرجیل میمن
  • سندھ کوئی کیک نہیں جو بانٹ دیا جائے، پیپلز پارٹی کا مصطفیٰ کمال کے بیان پر ردعمل
  • ’کینسر کی کوئی علامت نہیں تھی‘، تشخیص کیسے ہوئی، بھارتی اداکارہ ماہیما چوہدری نے بتادیا
  • عرفان صدیقی کی زندگی کا سب بڑا راز
  • سرحد پار سے دہشت گردی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، وزیر داخلہ
  • حکومت چاہتی ہے کہ مہنگائی کم کی جائے لیکن آئی ایم ایف نے اجازت نہیں دی، رانا ثنا اللہ
  • حکومت چاہتی ہے مہنگائی کم کی جائے لیکن آئی ایم ایف نے اجازت نہیں دی: رانا ثنا
  • ستائیسویں ترمیم کے خلاف پی ٹی آئی پنجاب اسمبلی کے ارکان احتجاج کریںگے
  • تحریک انصاف کی جانب سے آزاد کشمیر ان ہاؤس تبدیلی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا ہے: عبدالقیوم نیازی