ملبے کے نیچے پھنسے انسان کی حرکت کا پتا لگانے والی نئی ٹیکنالوجی تیار
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایک خاص ٹیکنالوجی جو ملبے کے نیچے پھنسے انسان کے جسم کی معمولی سی حرکت کا بھی پتہ لگا لیتی ہے۔
ناسا کی تیارکردہ اِس ٹیکنالوجی پر مبنی آلے کو ’’فائنڈر‘‘کہتے ہیں جو ایمرجنسی میں زندہ افراد کو ڈھونڈنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ آلہ مائیکروویو ریڈار سینسرز کے ذریعے ملبے کے نیچے یا برفانی تودے میں دبے لوگوں کی سانس اور دل کی دھڑکن کو دور سے محسوس کرکے ان کی موجودگی کا پتا لگاتا ہے۔
یہ ٹیکنالوجی امریکی محکمہ برائے داخلی سلامتی اور امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے مل کر تیار کی تھی جو خاص طور پر عمارتوں کے ملبے میں پھنسے لوگوں کو تلاش کرنے کے لیے بنائی گئی۔
اس ٹیکنالوجی کو ہیٹی کے 2010 کے تباہ کن زلزلے کے بعد تیار کیا گیا اور پھر اُسے کمرشل بنیادوں پر ریلیز کیا گیا، اس کے علاوہ 2023 میں ترکیہ اور شام کے زلزلے میں ناسا نے اپنے مصنوعی سیاروں کو بھی ہدایت دی تھی کہ وہ متاثرہ علاقوں کی تصاویر حاصل کریں تاکہ نقصان کا اندازہ لگایا جا سکے اور امدادی ٹیموں کو رہنمائی فراہم کی جا سکے۔
بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں نصب ایک اور آلہ EMIT بھی استعمال میں لایا گیا جو زمین کی فضا میں گرد و غبار کا تجزیہ کرتا ہے تاکہ کسی ممکنہ گیس لیک کا پاہ لگا کر خطرات کی فوری نشاندہی کی جا سکے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
اٹک: دریائے سندھ میں پھنسے 30 افراد کا کامیاب ریسکیو، خواتین اور بچے بھی شامل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اٹک: دریائے سندھ میں اچانک پانی کے تیز بہاؤ کے باعث پھنسنے والے 30 افراد کو ریسکیو ٹیموں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا۔
ریسکیو حکام کے مطابق متاثرہ افراد شادی خان کے مقام پر موجود تھے جہاں دریا کا پانی خطرناک حد تک بڑھنے سے وہ پھنس گئے۔ ریسکیو ٹیموں نے فوری حرکت میں آتے ہوئے کشتیوں اور دیگر وسائل کے ذریعے آپریشن مکمل کیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ ریسکیو کیے گئے افراد میں خواتین اور معصوم بچے بھی شامل ہیں، تمام متاثرین کو بحفاظت باہر نکال کر محفوظ مقامات تک پہنچا دیا گیا ہے۔
ریسکیو ترجمان نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ دریاؤں اور ندی نالوں کے قریب جانے سے گریز کریں کیونکہ حالیہ بارشوں کے باعث پانی کے بہاؤ میں شدت آچکی ہے۔