Express News:
2025-09-18@23:26:10 GMT

میوزیکل چیئر

اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT

مخصوص نشستوں کے معاملے پر سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اہم تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے اتحاد کی زیادہ ضرورت نہیں رہی۔ مسلم لیگ (ن) اگر چاہے تو وہ حکومت کے لیے آزاد امیدواروں کو بھی چن سکتی ہے۔

آرٹیکل 62A کی حقیقی تشریح کے بعد پی ٹی آئی کے اندر فارورڈ بلاک بھی بن سکتا ہے، یہ تو ہے قومی اسمبلی کا معاملہ، مگر سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کی رضا مندی کے بغیرکوئی قانون پاس نہیں کرا سکتی۔ اس حکومت نے کامیابی کے ساتھ ڈیڑھ برس نکال لیا۔ اس حکومت کو مستقبل قریب میں معاشی اعتبار سے بھی کسی بڑے چیلنج کا سامنا نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کا اسٹبلشمنٹ کے ساتھ دوستانہ ایک اور سال تک چل سکتا ہے، وہ ایک مختلف مرحلہ ہوگا، یعنی اسٹبلشمنٹ کو یہ حکومت اور لوگ مزید درکار ہیں کہ نہیں؟

سندھ میں بلاول بھٹو کے لیے بڑے چیلنجز ہیں کیونکہ ان کی مقبولیت سندھ میں کم ہو رہی ہے۔ سندھ لاقانونیت کا شکار ہے خاص کر سکھر،گھوٹکی، کشمور اور شکار پور اس وقت امن و امان کی سنگین صورتحال ہے۔ بیڈ گورننس جاری ہے۔ قوم پرست بیانیہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ لٰہذا بلاول بھٹو کو اسلام آباد میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ وہ اپنے ہوم گراؤنڈ پرکمزور ہے۔ مستقبل میں اگر بلاول بھٹو اور مریم نواز بڑی شخصیات بن کر ابھرتے ہیں تو مریم نواز  وزارت عظمٰی کی مضبوط امیدوار ہوں گی لیکن بطور اسٹیٹسمین بلاول بھٹو ایک بہتر اور مضبوط پہلو رکھتے ہیں۔ ہندوستان کے حوالے سے پاکستان کا مؤقف کیا ہے؟ بلاول بھٹو دنیا کے سامنے رکھنا بخوبی جانتے ہیں۔

بانی پی ٹی آئی کو اسٹبلشمنٹ نظر انداز نہیں کرسکتی کیونکہ ان کی مقبولیت پنجاب میں اب بھی موجود ہے۔ اگلے انتخابات میں، پی ایم ایل (ن) کو ان کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس لیے آیندہ دنوں میں اقتداری سیاست کے تین کھلاڑی ہیں، بلاول بھٹو، مریم نواز اور بانی پی ٹی آئی ۔ تاہم بانی پی ٹی آئی معاملات کو مزید ٹکراؤ کی طرف لے گئے۔ اب شاید ان کو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی ہوگی کہ اسٹبلشمنٹ سے مذاکرات کی جائیں۔ یہ تینوں اقتداری سیاست کرنے کے اہم چہرے ہیں اور مولانا فضل الرحمٰن بھی اس سسٹم کا حصہ ہیں۔ مختصرا یہ کہ جن کو ہم جمہوری قوتیں کہتے ہیں وہ اب جمہوری نہیں رہیں۔

ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے

 تری رہ میں کرتے تھے سر طلب سر رہ گذار چلے گئے

پاکستان کی سیاست ، ایک میوزیکل چیئر بن چکی ہے۔ آج ایک وزیرِاعظم، کل کوئی اور پھرکوئی اور مگر اس میوزیکل چیئرکا میوزک اسٹبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے۔ جب چاہیں میوزک آن کریں اور جب چاہیں آف کر دیں۔ ہماری اسٹبلشمنٹ کی پالیسی بھی بدلتی رہتی ہے۔ ہر نئے سربراہ کے آنے سے یہاں موسم بدل جاتے ہیں۔ اب ریاست بھی اپنے سیکیورٹی ریاست کے خول سے باہر نکل رہی ہے۔

ہماری خارجہ پالیسی کس نوعیت کی ہونی چاہیے، دنیا کے ساتھ ہمارے روابط کس طرح ہونے چاہئیں، یہ کام پارلیمنٹ یا سول قیادت کا نہیں اور جن کا یہ کام ہے، بلاول بھٹو ان سے بہت قریب ہیں ۔ پاکستان کو تنہائی سے نکالنے میں بلاول بھٹو کا اہم کردار ہے۔

 ملک میں اس وقت مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عمل درآمد ہو یا نہ ہو مگر سیاسی قوتیں مجموعی طور پر اس وقت بہت کمزور حیثیت میں سامنے آئی ہیں۔ شاید اسی لیے شہباز شریف کو چوہدری نثار احمد بہت شدت سے یاد آئے اور وہ ان سے ملنے ان کے گھر پہنچ گئے، پرانی یادیں بھی تازہ ہوئیں۔

یہاں نہ ہی سیاسی کھلاڑی اسٹبلشمنٹ کے بغیر چل سکتے ہیں اور نہ ہی اسٹبلشمنٹ سیاستدانوں کے بغیر لیکن اگر یہ ملک ایسے ہی میوزیکل چیئر کے میوزک پر چلتا رہا تو آنے والے ماحولیاتی چیلنجزکا سامنا کرنا پاکستان کے لیے مشکل ہوجائے گا۔ مصنوعی ذہانت نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اس شعبے میں تحقیق امریکا پھر چین اور تیسرے نمبر پر ہندوستان کر رہا ہے۔ یہ انقلاب دنیا کو ایک نئی سمت لے کر جا رہا ہے۔

 ہم نے چالیس سال تک افغان پالیسی کے اسٹیٹس کو برقرار رکھا۔ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے، یہ ملک کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ اسی طرح اگر ہم نے نیم جمہوریت، آمریت اور ہائبرڈ جمہوریت کے اسٹیٹس کو برقرار رکھا تو یقینا ادارے مضبوط نہیں ہوںگے۔ پچھتر برس کا سفر، یہ ملک طے کرچکا ہے لیکن اب تک ہمارے ادارے مضبوط نہیں ہو پائے۔

آئین ایک جامد چیزکا نام نہیں ہے۔ یہ ایک living organ  ہے اور وقت کے ساتھ، نئے چیلنجزکے ساتھ اپنے آپ کو مزید وسیع کرتا ہے، لیکن اگر سیاسی ادارے، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں اور سیاسی لیڈران مضبوط نہیں ہوںگے تو عدلیہ بھی مضبوط نہیں ہوگی۔ آزاد عدلیہ، پارلیمنٹ کو مضبوط کرتی ہے اور پارلیمنٹ عدلیہ کو۔ لیکن تاریخی اعتبار سے پاکستان میں اس کے مخالف ہوا۔ اب ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہے کیونکہ ہم اپنا قیمتی وقت ضایع کرچکے ہیں۔

اس سال میں ہمارے خطے میں دو جنگیں لگ چکی ہیں۔ ایک ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اور دوسری اسرائیل اور ایران کے درمیان۔ امریکا اور چین کے بعد ہمارا تیسرا اسٹرٹیجک اتحادی سعودی عرب ہے اور پھر ترکی۔ لیکن ہمارا ایٹمی طاقت ہونا اب بھی قبول نہیں۔ ہمیں ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے لیے دیرینہ اور مثبت حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی۔ ہندوستان میں پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات نہ استوارکرنا مجموعی ہندوستان کا مؤقف نہیں بلکہ انتہا پرستوں کا بیانیہ ہے جو پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔

پاکستان کو آئین کے مطابق ایک مضبوط ریاست کے طور پر ابھرنا ہوگا،جہاں آئین کی بالادستی ہو۔ پارلیمنٹ اورسول قیادت مضبوط ہو اور یقینا تمام اداروں کی مضبوطی کے لیے ایک ساتھ مل کرکام کرنا ہوگا۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ پاکستان کو میوزیکل چیئرکے سسٹم سے نکالنا ہوگا۔ ایک نئی اور مضبوط سول قیادت کی ضرورت ہے۔ آصف زرداری، نواز شریف یا پھر شہباز شریف میں اب وہ انرجی نہیں رہے گی کہ وہ آنیوالے دنوں میں بھرپور سیاست کرسکیں، جو قیادتیں فطری طور پر یہاں ابھرسکتی ہیں ان کو ابھرنے دیا جائے، یقینا وہ ملک مضبوط بنائیں گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مضبوط نہیں ہو پاکستان کے بلاول بھٹو پی ٹی ا ئی کا سامنا کے ساتھ

پڑھیں:

ہمارے پاس مضبوط افواج، جدید ہتھیار ہیں، حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کرینگے: اسحاق ڈار

دوحہ‘ اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے  کہا ہے کہ پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو۔ دوحہ میں  عرب اسلامی ہنگامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر ’’الجزیرہ‘‘ کو خصوصی انٹرویو میں اسحاق ڈار نے کہا کہ اسرائیل ایک  بے قابو ریاست بن چکی ہے جو ایک کے بعد دوسرے مسلم ملک کی خودمختاری کو چیلنج کر رہی ہے۔  آپ نے لبنان، شام، ایران اور اب قطر پر حملہ دیکھا۔ یہ روش ناقابل قبول ہے۔ جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کو بھی متحرک کیا ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ فوجی اقدام آخری راستہ  ہوتا ہے جبکہ پاکستان کی ترجیح ہمیشہ امن، بات چیت اور سفارتکاری رہی ہے، تاہم اگر بات چیت ناکام ہو جائے اور  جارحیت رکنے کا نام نہ لے تو پھر  مؤثر عملی اقدامات ضروری ہوں گے، جن میں اقتصادی پابندیاں، قانونی چارہ جوئی، یا علاقائی سکیورٹی فورس کی تشکیل بھی شامل ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی جوہری طاقت کے تناظر میں سوال پر اسحاق ڈار نے کہا کہ ہماری جوہری طاقت محض دفاعی صلاحیت ہے، کبھی استعمال نہیں کی اور نہ ہی ارادہ رکھتے ہیں، لیکن اگر ہماری خودمختاری پر حملہ ہوا، تو ہم ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے وہ کوئی بھی ملک ہو۔ اسرائیل کی طرف سے قطر پر حملے کو اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کارروائی سے تشبیہہ دینے پر اسحاق ڈار نے اسے ایک  توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش قرار دیتے ہوئے  کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ وہ آپریشن کیا تھا۔ پاکستان خود دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار اور سب سے بڑا فریق رہا ہے۔ بھارت سے متعلق گفتگو میں اسحاق ڈار نے کہا کشمیر ایک تسلیم شدہ تنازع ہے جس پر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔ بھارت کا آرٹیکل 370 کا خاتمہ اور جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کرنا جیسے متنازع اقدامات بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ انڈس واٹر ٹریٹی سے انخلا کا کوئی اختیار بھارت کو حاصل نہیں۔ اگر بھارت نے پانی کو ہتھیار بنایا تو یہ اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس معاملے کو قومی سلامتی کا مسئلہ سمجھتا ہے اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ 7 تا 10 مئی کے درمیان پاکستان بھارت جھڑپوں میں پاکستان نے واضح دفاعی برتری دکھائی اور  بھارت کا خطے میں سکیورٹی نیٹ کا دعویٰ دفن ہو گیا۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ تجارت، معاہدوں اور ریلوے منصوبوں میں پیش رفت ہوئی ہے، لیکن افغانستان میں ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ جیسے عناصر کی موجودگی ناقابلِ قبول ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان دہشتگردوں کو پاکستان کے حوالے کیا جائے یا افغانستان سے نکالا جائے۔ ہمارے پاس مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ہیں لہذا ہم کسی کو اپنی سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیں گے۔ بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام مسائل پر مذاکرات کیلئے تیار‘ پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔ انڈیا کا الزام لگانا باعث حیرت ہے۔ غزہ میں جنگ بندی یقینی بنائی جائے۔ دنیا کو اب اسرائیل کا راستہ روکنا ہو گا۔ اسحاق ڈار اور جرمنی کے وزیر خارجہ یوہان ویڈیفل نے باہمی مفاہمت اور مشترکہ دلچسپی کے شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لیے قریبی رابطہ برقرار رکھنے پر اتفاق کرتے ہوئے علاقائی اور عالمی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ ترجمان وزارت خارجہ کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو جرمنی کے وزیر خارجہ یوہان ویڈیفْل کی ٹیلیفون کال موصول ہوئی۔ دونوں وزرائے خارجہ نے پاکستان اور جرمنی کے درمیان تعلقات میں مثبت پیش رفت کو سراہا اور باہمی تعاون کو مزید فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور یورپی یونین کا معاشی شراکت داری مزید مضبوط بنانے پر اتفاق
  • ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا پاک سعودی دفاعی معاہدے کا خیر مقدم
  • دعا ہے کہ پاکستان اور سعودیہ کی دوستی مزید مضبوط ہو اور نئی بلندیوں کو چھوئے: وزیراعظم شہباز شریف
  • بھارت کی مشکلات میں اضافہ، سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے نے پاکستان کو کتنا مضبوط بنادیا؟
  • چیئر مین پی سی بی کی وسیع مشاورت:پاکستانی ٹیم کو آج میچ کھیلنے کی اجازت مل گئی
  • مشاہد حسین سید کا پاکستان کو بھارت کے ساتھ نہ کھیلنے کا مشورہ
  • ہمارے پاس مضبوط افواج، جدید ہتھیار ہیں، حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کرینگے: اسحاق ڈار
  • ہمارے پاس مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ، کسی کو سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دینگے،اسحق ڈار
  • مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ہیں، کسی کو سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دینگے: اسحاق ڈار
  • ہمارے پاس مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ہیں، کسی کو سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دینگے: اسحاق ڈار