Express News:
2025-07-06@03:55:28 GMT

میوزیکل چیئر

اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT

مخصوص نشستوں کے معاملے پر سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اہم تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے اتحاد کی زیادہ ضرورت نہیں رہی۔ مسلم لیگ (ن) اگر چاہے تو وہ حکومت کے لیے آزاد امیدواروں کو بھی چن سکتی ہے۔

آرٹیکل 62A کی حقیقی تشریح کے بعد پی ٹی آئی کے اندر فارورڈ بلاک بھی بن سکتا ہے، یہ تو ہے قومی اسمبلی کا معاملہ، مگر سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کی رضا مندی کے بغیرکوئی قانون پاس نہیں کرا سکتی۔ اس حکومت نے کامیابی کے ساتھ ڈیڑھ برس نکال لیا۔ اس حکومت کو مستقبل قریب میں معاشی اعتبار سے بھی کسی بڑے چیلنج کا سامنا نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کا اسٹبلشمنٹ کے ساتھ دوستانہ ایک اور سال تک چل سکتا ہے، وہ ایک مختلف مرحلہ ہوگا، یعنی اسٹبلشمنٹ کو یہ حکومت اور لوگ مزید درکار ہیں کہ نہیں؟

سندھ میں بلاول بھٹو کے لیے بڑے چیلنجز ہیں کیونکہ ان کی مقبولیت سندھ میں کم ہو رہی ہے۔ سندھ لاقانونیت کا شکار ہے خاص کر سکھر،گھوٹکی، کشمور اور شکار پور اس وقت امن و امان کی سنگین صورتحال ہے۔ بیڈ گورننس جاری ہے۔ قوم پرست بیانیہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ لٰہذا بلاول بھٹو کو اسلام آباد میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ وہ اپنے ہوم گراؤنڈ پرکمزور ہے۔ مستقبل میں اگر بلاول بھٹو اور مریم نواز بڑی شخصیات بن کر ابھرتے ہیں تو مریم نواز  وزارت عظمٰی کی مضبوط امیدوار ہوں گی لیکن بطور اسٹیٹسمین بلاول بھٹو ایک بہتر اور مضبوط پہلو رکھتے ہیں۔ ہندوستان کے حوالے سے پاکستان کا مؤقف کیا ہے؟ بلاول بھٹو دنیا کے سامنے رکھنا بخوبی جانتے ہیں۔

بانی پی ٹی آئی کو اسٹبلشمنٹ نظر انداز نہیں کرسکتی کیونکہ ان کی مقبولیت پنجاب میں اب بھی موجود ہے۔ اگلے انتخابات میں، پی ایم ایل (ن) کو ان کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس لیے آیندہ دنوں میں اقتداری سیاست کے تین کھلاڑی ہیں، بلاول بھٹو، مریم نواز اور بانی پی ٹی آئی ۔ تاہم بانی پی ٹی آئی معاملات کو مزید ٹکراؤ کی طرف لے گئے۔ اب شاید ان کو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی ہوگی کہ اسٹبلشمنٹ سے مذاکرات کی جائیں۔ یہ تینوں اقتداری سیاست کرنے کے اہم چہرے ہیں اور مولانا فضل الرحمٰن بھی اس سسٹم کا حصہ ہیں۔ مختصرا یہ کہ جن کو ہم جمہوری قوتیں کہتے ہیں وہ اب جمہوری نہیں رہیں۔

ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے

 تری رہ میں کرتے تھے سر طلب سر رہ گذار چلے گئے

پاکستان کی سیاست ، ایک میوزیکل چیئر بن چکی ہے۔ آج ایک وزیرِاعظم، کل کوئی اور پھرکوئی اور مگر اس میوزیکل چیئرکا میوزک اسٹبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے۔ جب چاہیں میوزک آن کریں اور جب چاہیں آف کر دیں۔ ہماری اسٹبلشمنٹ کی پالیسی بھی بدلتی رہتی ہے۔ ہر نئے سربراہ کے آنے سے یہاں موسم بدل جاتے ہیں۔ اب ریاست بھی اپنے سیکیورٹی ریاست کے خول سے باہر نکل رہی ہے۔

ہماری خارجہ پالیسی کس نوعیت کی ہونی چاہیے، دنیا کے ساتھ ہمارے روابط کس طرح ہونے چاہئیں، یہ کام پارلیمنٹ یا سول قیادت کا نہیں اور جن کا یہ کام ہے، بلاول بھٹو ان سے بہت قریب ہیں ۔ پاکستان کو تنہائی سے نکالنے میں بلاول بھٹو کا اہم کردار ہے۔

 ملک میں اس وقت مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عمل درآمد ہو یا نہ ہو مگر سیاسی قوتیں مجموعی طور پر اس وقت بہت کمزور حیثیت میں سامنے آئی ہیں۔ شاید اسی لیے شہباز شریف کو چوہدری نثار احمد بہت شدت سے یاد آئے اور وہ ان سے ملنے ان کے گھر پہنچ گئے، پرانی یادیں بھی تازہ ہوئیں۔

یہاں نہ ہی سیاسی کھلاڑی اسٹبلشمنٹ کے بغیر چل سکتے ہیں اور نہ ہی اسٹبلشمنٹ سیاستدانوں کے بغیر لیکن اگر یہ ملک ایسے ہی میوزیکل چیئر کے میوزک پر چلتا رہا تو آنے والے ماحولیاتی چیلنجزکا سامنا کرنا پاکستان کے لیے مشکل ہوجائے گا۔ مصنوعی ذہانت نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اس شعبے میں تحقیق امریکا پھر چین اور تیسرے نمبر پر ہندوستان کر رہا ہے۔ یہ انقلاب دنیا کو ایک نئی سمت لے کر جا رہا ہے۔

 ہم نے چالیس سال تک افغان پالیسی کے اسٹیٹس کو برقرار رکھا۔ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے، یہ ملک کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ اسی طرح اگر ہم نے نیم جمہوریت، آمریت اور ہائبرڈ جمہوریت کے اسٹیٹس کو برقرار رکھا تو یقینا ادارے مضبوط نہیں ہوںگے۔ پچھتر برس کا سفر، یہ ملک طے کرچکا ہے لیکن اب تک ہمارے ادارے مضبوط نہیں ہو پائے۔

آئین ایک جامد چیزکا نام نہیں ہے۔ یہ ایک living organ  ہے اور وقت کے ساتھ، نئے چیلنجزکے ساتھ اپنے آپ کو مزید وسیع کرتا ہے، لیکن اگر سیاسی ادارے، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں اور سیاسی لیڈران مضبوط نہیں ہوںگے تو عدلیہ بھی مضبوط نہیں ہوگی۔ آزاد عدلیہ، پارلیمنٹ کو مضبوط کرتی ہے اور پارلیمنٹ عدلیہ کو۔ لیکن تاریخی اعتبار سے پاکستان میں اس کے مخالف ہوا۔ اب ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہے کیونکہ ہم اپنا قیمتی وقت ضایع کرچکے ہیں۔

اس سال میں ہمارے خطے میں دو جنگیں لگ چکی ہیں۔ ایک ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اور دوسری اسرائیل اور ایران کے درمیان۔ امریکا اور چین کے بعد ہمارا تیسرا اسٹرٹیجک اتحادی سعودی عرب ہے اور پھر ترکی۔ لیکن ہمارا ایٹمی طاقت ہونا اب بھی قبول نہیں۔ ہمیں ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے لیے دیرینہ اور مثبت حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی۔ ہندوستان میں پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات نہ استوارکرنا مجموعی ہندوستان کا مؤقف نہیں بلکہ انتہا پرستوں کا بیانیہ ہے جو پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔

پاکستان کو آئین کے مطابق ایک مضبوط ریاست کے طور پر ابھرنا ہوگا،جہاں آئین کی بالادستی ہو۔ پارلیمنٹ اورسول قیادت مضبوط ہو اور یقینا تمام اداروں کی مضبوطی کے لیے ایک ساتھ مل کرکام کرنا ہوگا۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ پاکستان کو میوزیکل چیئرکے سسٹم سے نکالنا ہوگا۔ ایک نئی اور مضبوط سول قیادت کی ضرورت ہے۔ آصف زرداری، نواز شریف یا پھر شہباز شریف میں اب وہ انرجی نہیں رہے گی کہ وہ آنیوالے دنوں میں بھرپور سیاست کرسکیں، جو قیادتیں فطری طور پر یہاں ابھرسکتی ہیں ان کو ابھرنے دیا جائے، یقینا وہ ملک مضبوط بنائیں گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مضبوط نہیں ہو پاکستان کے بلاول بھٹو پی ٹی ا ئی کا سامنا کے ساتھ

پڑھیں:

پاکستان اور متحدہ عرب امارات کا اعلیٰ تعلیم اور انسانی وسائل کی ترقی میں تعاون مضبوط کرنے پر اتفاق

پاکستان اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے اعلیٰ تعلیم اور انسانی وسائل کی ترقی کے شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا ہے۔

پاکستان کے سفیر فیصل نیاز ترمذی اور متحدہ عرب امارات کے وزیر برائے انسانی وسائل، اعلیٰ تعلیم اور سائنسی تحقیق ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبدالمنان الاوار کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد بیان میں کہا گیا کہ ملاقات میں دونوں فریقین نے اعلیٰ تعلیم اور انسانی وسائل کی ترقی کے شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو مزید فروغ دینے کے امکانات کا جائزہ لیا۔

یہ بھی پڑھیے: پاکستان، متحدہ عرب امارات کے مابین مختلف شعبوں میں تعاون پر اتفاق

بیان میں کہا گیا کہ بات چیت سے اس عزم کا اظہار ہوا کہ دونوں ممالک طلبا، تعلیمی اداروں اور پیشہ ور افراد کے فائدے کے لیے قریبی اشتراک سے کام کریں گے۔

ملاقات کے دوران پاکستان کے سفیر نے متحدہ عرب امارات کی ترقی میں پاکستانی کمیونٹی کے کردار کو اجاگر کیا اور تارکین وطن کے لیے جامع اور معاون ماحول فراہم کرنے پر امارات کے کردار کو سراہا۔

پاکستانی سفیر نے ادارہ جاتی روابط کو مضبوط بنانے اور مہارت کی ترقی اور افرادی قوت کی تیاری میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔

یہ بھی پڑھیے: متحدہ عرب امارات کی ایران کے قطر پر حملے کی شدید مذمت

بیان کے مطابق وزیر ڈاکٹر عبدالرحمن الاوار نے دونوں ممالک کے دیرینہ اور برادرانہ تعلقات کو سراہا اور پاکستان کے ساتھ باہمی مفاد پر مبنی شعبوں میں شراکت داری کو وسعت دینے میں عرب امارات کی گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔

یاد رہے کہ متحدہ عرب امارات میں 15 لاکھ سے زائد پاکستانی مقیم ہیں جو وہاں کام کرکے ہر سال پاکستان کو 5 ارب ڈالر سے زائد رقوم بطور ترسیلات زر بھیجتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اعلیٰ تعلیم انسانی وسائل کی ترقی سفارت خانہ متحدہ عرب امارات

متعلقہ مضامین

  • ابراہیمی معاہدے کی گونج
  • حکومت مضبوط، کوئی رکن کہیں نہیں جا رہا، گورنر کچھ نہیں بگاڑ سکتے، علی امین گنڈاپور
  • پاکستان اور متحدہ عرب امارات کا اعلیٰ تعلیم اور انسانی وسائل کی ترقی میں تعاون مضبوط کرنے پر اتفاق
  • حکومت مضبوط، سب ممبران وفادار، کوئی کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا: علی امین گنڈاپور
  • پاکستان اور امریکا میں تجارتی مفاہمت، پاکستانی برآمدات کے لیے اُمید مضبوط
  • ایران کی پاکستان کی سفارتی حمایت کی ستائش، تعلقات مزید مضبوط بنانے پر اتفاق
  •  حکومت مضبوط ہے، کوئی رکن کہیں نہیں جارہا، علی امین گنڈاپور
  • آذربائیجان: وزیراعظم کی ایرانی صدر سے ملاقات، پاک ایران تعلقات کو مضبوط بنانے کا عزم
  • چین اور پاکستان کے درمیان ٹرانسپورٹ روابط سے عوامی تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں