data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے ایک ملاقات میں ہمیں بتایا کہ جاوید احمد غامدی کسی زمانے میں مولانا مودودی کے ’’اسٹائل‘‘ کی نقل کرنے لگے تھے۔ وہ انہی کی طرح کا لباس پہنتے، انہی کی طرح کی شیروانی زیب تن کرتے، ان کی طرح چلتے پھرتے اور اُٹھتے بیٹھتے۔ یہاں تک کہ انہوں نے مولانا مودودی کی طرح پان کھانا بھی شروع کردیا تھا۔ ہم نے یہ سنا تو ہمیں کسی کا یہ شعر یاد آگیا۔

کچھ ساکنانِ شہر نے اہلِ کمال کا
چہرہ بنا لیا قد و قامت کہاں سے لائیں

غامدی صاحب کے پاس نہ مولانا جیسی ’’خدا مرکز‘‘ زندگی تھی، ان کی طرح کا علم تھا نہ حلم تھا، چنانچہ وہ مولانا کے زمانے سے اب تک اسلام کو مسخ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ غامدی صاحب کا یہ حال ہے تو ان کے شاگردِ خاص خورشید ندیم کا کیا حال ہوگا؟ جو اپنے کالموں میں علم کے نام پر جہالت کے دریا بہاتے رہتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں یہ تک فرما دیا ہے کہ اسلام میں انقلاب، آزادی، غلامی اور استعمار کا کوئی تصور نہیں۔ ہم نے یہ سارے تصورات سوشلزم یا اشتراکیت سے اُدھار لیے ہوئے ہیں کہ انہوں نے اس سلسلے میں کیا کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمایے۔ لکھتے ہیں۔

’’استعمار‘ غلامی‘ آزادی‘ انقلاب‘ امت ِ مسلمہ… اَن گنت اصطلاحیں ہیں‘ ہم جن کے حصار میں جیتے ہیں۔ یہ اصطلاحیں اشتراکی نظامِ فکر کی عطا ہیں جو کم وبیش ڈیڑھ سو سال پہلے وجود میں آیا اور ایک صدی پہلے‘ ہمارے فکری ڈھانچے کا حصہ بنا۔ یہ مستعار اصطلاحیں اْس دور کے فکری فیشن کے تحت مقبول ہو گئیں۔ آج یہ فیشن بدل چکا‘ ہم مگر ابھی تک اسے گلے لگائے ہوئے ہیں۔

چند دن پہلے میں نے کالم میں ایرانی مفکر علی شریعتی کا ذکر کیا۔ ایک ذی علم دوست نے توجہ دلائی کہ شریعتی کے ہاں چند ایسے فکری مسائل تھے جن کے سبب ایران کے اہل ِ علم میں ان کو پذیرائی مل سکی اور نہ انقلاب کے بعد وہ فکری منظر نامے کا حصہ بن سکے۔ شریعتی انقلابی تھے اور فطری طور پر انقلاب کے بعد ان کے افکار کی طرف رجوع کیا جانا چاہیے تھا۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو کیوں؟ کیا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شریعتی کا بیانیہ بھی دراصل اسی اشتراکی فکر کے زیر ِ اثر پروان چڑھا جو اس عہد کا چلن تھا؟

اس نظامِ فکر کو اس دور میں مسلمانوں کے ایک پڑھے لکھے طبقے نے اختیار کیا اور خود کو اس عالمگیر اشترکی تحریک سے وابستہ کر لیا۔ ان کا خیال تھا کہ ایک تصورِ خدا کے اضافے سے اشتراکیت کو مشرف بہ اسلام کیا جا سکتا ہے۔ یہ طبقہ جدید افکار کا فہم رکھتا تھا مگر اسلامی روایت کا نہیں۔ ایک دوسرا طبقہ بھی اس سے متاثر ہوا جو مسلم تہذیبی فضا میں جیتا تھا اور اس میں رہتے ہوئے مسلمانوں کو دورِ زوال سے نکالنے کا خواہاں تھا۔ اسے یہ ادراک بھی تھا کہ اجتہاد اور تجدید ہی سے اس کا راستہ نکلے گا۔ اس گروہ نے ان اصطلاحوں کو اسلامی لبادہ پہنایا اور اپنی روایت سے امت ِ مسلمہ جیسی بعض اصطلاحوں کو لے کر ایک نیا بیانیہ تشکیل دے دیا۔ یہ طبقہ سرخ انقلاب کے بجائے سبز انقلاب کا داعی بن گیا۔ ان کے اخلاص کا مجھے اعتراف ہے لیکن یہ بے وقت کی راگنی ہے۔ میرا احساس ہے کہ یہ اصطلاحیں ہمارے فکری ارتقا میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ یہ ہمیں ایک ایسے خواب کا اسیر بناتی ہیں جس کی تعبیر دنیا دیکھ چکی۔ لوگوں نے اس کے بعد بھی خواب دیکھے ہیں اور ہمیں ان کے بارے میں غور کرنا چاہیے۔ جس طرح سو برس پہلے ہم نے انقلاب کا خواب ادھار لیا تھا‘ اب نیا خواب ادھار لیں یا خود کوئی خواب دیکھیں۔

مسلم اصلاحی پیراڈائم سماجی ہے نہ کہ سیاسی۔ اس کی فطری مناسبت اس نظامِ فکر کے ساتھ ہے جو سماجی تعمیر کو اساس بناتا ہے۔ اگر ہم یہ بات شعوری سطح پر قبول کر لیں تو پھر ریاست کے بجائے‘ ہماری اصلاحی کاوشوں کا مرکز معاشرہ اور سماجی اقدار بن جائیں۔‘‘ (روزنامہ دنیا، 30 جون 2025)

خورشید ندیم کا اصرار ہے کہ انقلاب کا تصور اسلام پرستوں نے سوشلسٹوں سے اُدھار لے لیا ہے ورنہ اسلام میں انقلاب کا کوئی تصور موجود نہیں۔ دیکھا جائے تو خورشید ندیم کا یہ دعویٰ نری جہالت ہے۔ اس لیے کہ پورا اسلام انقلاب کے تصور سے بھرا ہوا ہے۔ اسلام کا پہلا کلمہ طیب ہے اور اس کلمے سے بڑا انقلابی کلمہ پوری انسانی تاریخ میں موجود نہیں۔ یہ کلمے کا ترجمہ ہے۔ نہیں ہے کوئی الہ سوائے اللہ کے۔ اس فقرے کی انقلابیت یہ ہے کہ اس کا آغاز تمام جھوٹے خدائوں کے انکار سے ہوتا ہے۔ ان میں وہ خدا شامل ہیں جنہیں انسانوں نے خدا کا شریک بنالیا ہے۔ یہ کلمہ اس طرح بھی ہوسکتا تھا۔ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا کلمہ تخلیق کیا جو پہلے تمام جھوٹے خدائوں کا انکار کرتا ہے۔ ان کے خلاف بغاوت منظم کرتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ اس کے بغیر اللہ ربّ العالمین کی خدائی کی اصل شان کا اظہار نہیں ہوسکتا۔ مگر غامدی اور ان کے شاگرد رشید کو اسلام کی یہ انقلابیت آج تک نظر نہیں آئی۔ اسلام میں نماز کو دین کا ستون کہا گیا ہے اور نماز ان معنوں میں ایک انقلابی عبادت ہے کہ وہ غائب خدا کو حاضر و ناظر بنا دیتی ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ تم اس طرح نماز پڑھو گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو اور اگر اس طرح نماز نہیں پڑھ سکتے تو کم از کم اس طرح ضرور نماز پڑھو گویا خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔ نماز کی دوسری انقلابیت یہ ہے کہ وہ انسان کے گناہوں کو دھو کر انسان کو پاک صاف کردیتی ہے۔ جہاں تک اسلام کی سیاسی انقلابیت کا تعلق ہے تو اسلام کی سب سے بری سیاسی انقلابیت یہ ہے کہ اس نے ’’بادشاہ مرکز‘‘ سیاست کو ایک سطح پر ’’خدا مرکز‘‘ دوسری سطح پر ’’رسول مرکز‘‘ تیسری سطح پر ’’قرآن مرکز‘‘ چوتھی سطح پر ’’سنت مرکز‘‘ پانچویں سطح پر ’’خلافت مرکز‘‘ اور چھٹی سطح پر ’’تقویٰ مرکز اور علم مرکز‘‘ بنادیا۔ اسلام کی اس ’’انقلابیت‘‘ پر اقبال نے جھوم کر کہا ہے۔

اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں

بیچارے خورشید ندیم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ عربی میں انقلاب کی اصطلاح موجود نہیں اور وہ یہ نہیں دیکھ رہے کہ مسئلہ اصطلاح کا نہیں ’’تصور‘‘ کا ہے اور بلاشبہ اسلام سراپا انقلاب ہے۔ یہی وجہ اقبال جیسے عظیم شاعر نے اپنی شاعری میں انقلاب کے ترانے گائے ہیں۔ مثلاً ان کا ایک شعر ہے۔

جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روحِ امم کی حیات کشمکشِ انقلاب

لیجیے اقبال اپنے اس شعر میں صرف امت مسلمہ کے لیے نہیں تمام امتوں کے لیے انقلاب کو اہم بتا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جس قوم کی زندگی میں انقلاب موجود نہیں اس کی زندگی موت کے برابر ہے۔ اس لیے کہ قوموں کی زندگی کشمکش انقلاب سے عبارت ہے۔ اقبال کے لیے انقلاب کا تصور اتنا اہم ہے کہ انہیں موسموں تک میں انقلاب کا عنصر نظر آتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا ہے۔

کس نے بھر دی موتیوں سے خوشۂ گندم کی جیب
موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب

لیکن سوال یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک انقلاب کے تصور کی اصل کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک ’’ندرتِ فکر و عمل‘‘ انقلاب کی روح ہے چنانچہ اقبال نے فرمایا ہے۔

ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے؟ ذوقِ انقلاب
ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے؟ ملّت کا شباب

تاہم اقبال کا ’’انقلاب‘‘ پہلے فرد کے باطن میں پیدا ہوتا ہے پھر وہ ظاہر میں آشکار ہوتا ہے۔ چنانچہ اقبال نے کہا ہے۔

تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں ہے ترے چار سُو بدل جائیں

لیکن جس طرح خورشید ندیم کے استاد غامدی صاحب نے قرآن و سنت اور اقبال سے کچھ نہیں سیکھا اسی طرح خورشید ندیم نے بھی قرآن و سنت اور خود اقبال سے کچھ نہیں سیکھا، حالانکہ اقبال تو خورشید ندیم کے گھر کی چیز ہیں۔

جہاں تک انفرادی دائرے میں اسلام کی انقلابیت کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ اسلام میں موجود نفس کے سات درجوں سے کیا جاسکتا ہے۔ انسانی نفس کا پہلا درجہ نفسِ امارہ ہے، یہ نفس تاریکی میں گھرا ہوا ہے اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ نفسِ امارہ کی مزاحمت کرے تا کہ نفس کا ارتقا ہوسکے اس میں انقلاب برپا ہوسکے، مسلمان جب نفسِ امارہ کی مزاحمت کرتا ہے تو اسے دوسرے مرحلے میں ’’نفسِ لوامہ‘‘ حاصل ہوتا ہے۔ یہ نفس وہ ہے جس کو تھوڑی سی روشنی فراہم ہوجاتی ہے اور وہ نیکی اور بدی کو پہچاننے لگتا ہے اور وہ نیکی پر خوش ہوتا ہے اور بدی پر انسان کو ملامت میں مبتلا کرتا ہے۔ انسان نفس کی مزید مزاحمت کرتا ہے تو اسے نفسِ مطمئنہ حاصل ہوتا ہے۔ نفسِ مطمئنہ کا ارتقا ہوتا ہے تو وہ نفسِ ملہمہ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہ ایک ایسا نفس ہوتا ہے جس پر خدا اچھے خیالات الہام کرنے لگتا ہے۔ نفسِ ملہمہ کا ارتقا ہوتا تو وہ نفسِ راضیہ میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ وہ نفس ہے جو خدا کی رضا میں راضی رہنا سیکھ جاتا ہے۔ نفسِ راضیہ کا ارتقا ہوتا ہے یا اس میں مزید انقلاب برپا ہوتا ہے تو وہ نفسِ مرضیہ کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ یہ وہ نفس ہے جس سے اس کا ربّ راضی ہو جاتا ہے۔ نفس کا آخری مرتبہ نفسِ مطلقہ ہے جو صرف پیغمبروں کو حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے وظیفے، مرتبے یا Status کو ہم نہیں جان سکتے۔ انسانی نفس میں ایسا انقلاب برپا کرنے والے اسلام کے بارے میں خورشید ندیم فرما رہے ہیں کہ اس کے پاس انقلاب کا تصور موجود نہیں۔

خورشید ندیم کا دعویٰ ہے کہ مسلمانوں نے آزادی کا تصور بھی اشتراکیوں سے ادھار لیا ہے اس بات کی تردید کے لیے اقبال کا ایک شعر ہی کافی ہے۔ اقبال نے کہا ہے۔

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زندگی

اہلِ عرب جب تک کفر اور شرک کے غلام تھے حقیر تھے اور جب انہیں اسلام کی آزادی حاصل ہوئی تو انہوں نے وقت کی سپر پاورز قیصر و کسریٰ کو منہ کے بل گرا دیا۔ خورشید ندیم کا اصرار ہے کہ مسلمانوں نے غلامی کا تصور بھی غیروں سے ادھار لیا ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کے دو اشعار عرض ہیں۔

غلامی کیا ہے ذوقِ حُسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا

خورشید ندیم کا کیا خیال ہے غلامی کا یہ تصور اقبال نے اسلام سے سیکھایا سوشلزم سے؟

خورشید ندیم کا خیال ہے کہ مسلمانوں کا فکری پیرا ڈائم یا تناظر سیاسی نہیں سماجی ہے۔ یہ بھی خورشید ندیم کی جہالت ہے۔ اس لیے کہ اسلام کا فکری کینوس ہمہ جہت ہے۔ وہ ایک سطح پر مابعد الطبیعیاتی ہے، دوسری سطح پر اخلاقی ہے، تیسری سطح پر علمی ہے، چوتھی سطح پر سیاسی ہے، پانچویں سطح پر نفسیاتی اور جذباتی ہے۔ اسلام انسان کی پوری انفرادیت اور پوری اجتماعیت میں انقلاب برپا کرنے کا داعی تھا ہے اور رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: خورشید ندیم کا انقلاب برپا موجود نہیں میں انقلاب انقلاب کا اسلام میں انقلاب کے ا ہوتا ہے فکر و عمل انہوں نے اقبال نے کا ارتقا اقبال کے اسلام کی یہ ہے کہ ہے کہ اس ہے تو اس کرتا ہے کا تصور وہ نفس اس لیے ہے اور کے لیے لیا ہے نہیں ا کی طرح

پڑھیں:

پاکستان کرکٹ زندہ باد

کراچی:

’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔ 

اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔ 

اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔ 

تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟

بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔

اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔ 

ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔ 

البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟

ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔ 

اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔

یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟

مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔ 

پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔

لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔ 

یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟

پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔ 

خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔

میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟

ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟

ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

متعلقہ مضامین

  • معیشت بہتر ہوتے ہی ٹیکس شرح‘ بجلی گیس کی قیمت کم کریں گے: احسن اقبال
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • کتاب "غدیر کا قرآنی تصور" کی تاریخی تقریبِ رونمائی
  • سی پیک فیز ٹو کا آغاز ہو چکا، چین نے کبھی کسی دوسرے ملک سے تعلق نہ رکھنے کی شرط نہیں لگائی، احسن اقبال
  • پیپلز پارٹی، نون لیگ اور پی ٹی آئی کا خاتمہ ہو تو پاکستان ٹھیک ہوسکتا ہے، سراج الحق
  • نومبر، انقلاب کا مہینہ
  • مسرّت کا حصول …مگر کیسے؟
  • شمالی کوریا نے جزیرہ نما کوریا کے غیر جوہری بننے کے تصور کو ’خیالی پلاؤ‘ قرار دے دیا
  • سنگجانی جلسہ؛ زین قریشی سے کہیں کوئی پھوک ماریں کہ عدالت وارنٹ ختم کر دے، جج کے ریمارکس