کیا اسلام میں انقلاب، آزادی اور غلامی کا کوئی تصور نہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے ایک ملاقات میں ہمیں بتایا کہ جاوید احمد غامدی کسی زمانے میں مولانا مودودی کے ’’اسٹائل‘‘ کی نقل کرنے لگے تھے۔ وہ انہی کی طرح کا لباس پہنتے، انہی کی طرح کی شیروانی زیب تن کرتے، ان کی طرح چلتے پھرتے اور اُٹھتے بیٹھتے۔ یہاں تک کہ انہوں نے مولانا مودودی کی طرح پان کھانا بھی شروع کردیا تھا۔ ہم نے یہ سنا تو ہمیں کسی کا یہ شعر یاد آگیا۔
کچھ ساکنانِ شہر نے اہلِ کمال کا
چہرہ بنا لیا قد و قامت کہاں سے لائیں
غامدی صاحب کے پاس نہ مولانا جیسی ’’خدا مرکز‘‘ زندگی تھی، ان کی طرح کا علم تھا نہ حلم تھا، چنانچہ وہ مولانا کے زمانے سے اب تک اسلام کو مسخ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ غامدی صاحب کا یہ حال ہے تو ان کے شاگردِ خاص خورشید ندیم کا کیا حال ہوگا؟ جو اپنے کالموں میں علم کے نام پر جہالت کے دریا بہاتے رہتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں یہ تک فرما دیا ہے کہ اسلام میں انقلاب، آزادی، غلامی اور استعمار کا کوئی تصور نہیں۔ ہم نے یہ سارے تصورات سوشلزم یا اشتراکیت سے اُدھار لیے ہوئے ہیں کہ انہوں نے اس سلسلے میں کیا کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمایے۔ لکھتے ہیں۔
’’استعمار‘ غلامی‘ آزادی‘ انقلاب‘ امت ِ مسلمہ… اَن گنت اصطلاحیں ہیں‘ ہم جن کے حصار میں جیتے ہیں۔ یہ اصطلاحیں اشتراکی نظامِ فکر کی عطا ہیں جو کم وبیش ڈیڑھ سو سال پہلے وجود میں آیا اور ایک صدی پہلے‘ ہمارے فکری ڈھانچے کا حصہ بنا۔ یہ مستعار اصطلاحیں اْس دور کے فکری فیشن کے تحت مقبول ہو گئیں۔ آج یہ فیشن بدل چکا‘ ہم مگر ابھی تک اسے گلے لگائے ہوئے ہیں۔
چند دن پہلے میں نے کالم میں ایرانی مفکر علی شریعتی کا ذکر کیا۔ ایک ذی علم دوست نے توجہ دلائی کہ شریعتی کے ہاں چند ایسے فکری مسائل تھے جن کے سبب ایران کے اہل ِ علم میں ان کو پذیرائی مل سکی اور نہ انقلاب کے بعد وہ فکری منظر نامے کا حصہ بن سکے۔ شریعتی انقلابی تھے اور فطری طور پر انقلاب کے بعد ان کے افکار کی طرف رجوع کیا جانا چاہیے تھا۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو کیوں؟ کیا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شریعتی کا بیانیہ بھی دراصل اسی اشتراکی فکر کے زیر ِ اثر پروان چڑھا جو اس عہد کا چلن تھا؟
اس نظامِ فکر کو اس دور میں مسلمانوں کے ایک پڑھے لکھے طبقے نے اختیار کیا اور خود کو اس عالمگیر اشترکی تحریک سے وابستہ کر لیا۔ ان کا خیال تھا کہ ایک تصورِ خدا کے اضافے سے اشتراکیت کو مشرف بہ اسلام کیا جا سکتا ہے۔ یہ طبقہ جدید افکار کا فہم رکھتا تھا مگر اسلامی روایت کا نہیں۔ ایک دوسرا طبقہ بھی اس سے متاثر ہوا جو مسلم تہذیبی فضا میں جیتا تھا اور اس میں رہتے ہوئے مسلمانوں کو دورِ زوال سے نکالنے کا خواہاں تھا۔ اسے یہ ادراک بھی تھا کہ اجتہاد اور تجدید ہی سے اس کا راستہ نکلے گا۔ اس گروہ نے ان اصطلاحوں کو اسلامی لبادہ پہنایا اور اپنی روایت سے امت ِ مسلمہ جیسی بعض اصطلاحوں کو لے کر ایک نیا بیانیہ تشکیل دے دیا۔ یہ طبقہ سرخ انقلاب کے بجائے سبز انقلاب کا داعی بن گیا۔ ان کے اخلاص کا مجھے اعتراف ہے لیکن یہ بے وقت کی راگنی ہے۔ میرا احساس ہے کہ یہ اصطلاحیں ہمارے فکری ارتقا میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ یہ ہمیں ایک ایسے خواب کا اسیر بناتی ہیں جس کی تعبیر دنیا دیکھ چکی۔ لوگوں نے اس کے بعد بھی خواب دیکھے ہیں اور ہمیں ان کے بارے میں غور کرنا چاہیے۔ جس طرح سو برس پہلے ہم نے انقلاب کا خواب ادھار لیا تھا‘ اب نیا خواب ادھار لیں یا خود کوئی خواب دیکھیں۔
مسلم اصلاحی پیراڈائم سماجی ہے نہ کہ سیاسی۔ اس کی فطری مناسبت اس نظامِ فکر کے ساتھ ہے جو سماجی تعمیر کو اساس بناتا ہے۔ اگر ہم یہ بات شعوری سطح پر قبول کر لیں تو پھر ریاست کے بجائے‘ ہماری اصلاحی کاوشوں کا مرکز معاشرہ اور سماجی اقدار بن جائیں۔‘‘ (روزنامہ دنیا، 30 جون 2025)
خورشید ندیم کا اصرار ہے کہ انقلاب کا تصور اسلام پرستوں نے سوشلسٹوں سے اُدھار لے لیا ہے ورنہ اسلام میں انقلاب کا کوئی تصور موجود نہیں۔ دیکھا جائے تو خورشید ندیم کا یہ دعویٰ نری جہالت ہے۔ اس لیے کہ پورا اسلام انقلاب کے تصور سے بھرا ہوا ہے۔ اسلام کا پہلا کلمہ طیب ہے اور اس کلمے سے بڑا انقلابی کلمہ پوری انسانی تاریخ میں موجود نہیں۔ یہ کلمے کا ترجمہ ہے۔ نہیں ہے کوئی الہ سوائے اللہ کے۔ اس فقرے کی انقلابیت یہ ہے کہ اس کا آغاز تمام جھوٹے خدائوں کے انکار سے ہوتا ہے۔ ان میں وہ خدا شامل ہیں جنہیں انسانوں نے خدا کا شریک بنالیا ہے۔ یہ کلمہ اس طرح بھی ہوسکتا تھا۔ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا کلمہ تخلیق کیا جو پہلے تمام جھوٹے خدائوں کا انکار کرتا ہے۔ ان کے خلاف بغاوت منظم کرتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ اس کے بغیر اللہ ربّ العالمین کی خدائی کی اصل شان کا اظہار نہیں ہوسکتا۔ مگر غامدی اور ان کے شاگرد رشید کو اسلام کی یہ انقلابیت آج تک نظر نہیں آئی۔ اسلام میں نماز کو دین کا ستون کہا گیا ہے اور نماز ان معنوں میں ایک انقلابی عبادت ہے کہ وہ غائب خدا کو حاضر و ناظر بنا دیتی ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ تم اس طرح نماز پڑھو گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو اور اگر اس طرح نماز نہیں پڑھ سکتے تو کم از کم اس طرح ضرور نماز پڑھو گویا خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔ نماز کی دوسری انقلابیت یہ ہے کہ وہ انسان کے گناہوں کو دھو کر انسان کو پاک صاف کردیتی ہے۔ جہاں تک اسلام کی سیاسی انقلابیت کا تعلق ہے تو اسلام کی سب سے بری سیاسی انقلابیت یہ ہے کہ اس نے ’’بادشاہ مرکز‘‘ سیاست کو ایک سطح پر ’’خدا مرکز‘‘ دوسری سطح پر ’’رسول مرکز‘‘ تیسری سطح پر ’’قرآن مرکز‘‘ چوتھی سطح پر ’’سنت مرکز‘‘ پانچویں سطح پر ’’خلافت مرکز‘‘ اور چھٹی سطح پر ’’تقویٰ مرکز اور علم مرکز‘‘ بنادیا۔ اسلام کی اس ’’انقلابیت‘‘ پر اقبال نے جھوم کر کہا ہے۔
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں
بیچارے خورشید ندیم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ عربی میں انقلاب کی اصطلاح موجود نہیں اور وہ یہ نہیں دیکھ رہے کہ مسئلہ اصطلاح کا نہیں ’’تصور‘‘ کا ہے اور بلاشبہ اسلام سراپا انقلاب ہے۔ یہی وجہ اقبال جیسے عظیم شاعر نے اپنی شاعری میں انقلاب کے ترانے گائے ہیں۔ مثلاً ان کا ایک شعر ہے۔
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روحِ امم کی حیات کشمکشِ انقلاب
لیجیے اقبال اپنے اس شعر میں صرف امت مسلمہ کے لیے نہیں تمام امتوں کے لیے انقلاب کو اہم بتا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جس قوم کی زندگی میں انقلاب موجود نہیں اس کی زندگی موت کے برابر ہے۔ اس لیے کہ قوموں کی زندگی کشمکش انقلاب سے عبارت ہے۔ اقبال کے لیے انقلاب کا تصور اتنا اہم ہے کہ انہیں موسموں تک میں انقلاب کا عنصر نظر آتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا ہے۔
کس نے بھر دی موتیوں سے خوشۂ گندم کی جیب
موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب
لیکن سوال یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک انقلاب کے تصور کی اصل کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک ’’ندرتِ فکر و عمل‘‘ انقلاب کی روح ہے چنانچہ اقبال نے فرمایا ہے۔
ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے؟ ذوقِ انقلاب
ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے؟ ملّت کا شباب
تاہم اقبال کا ’’انقلاب‘‘ پہلے فرد کے باطن میں پیدا ہوتا ہے پھر وہ ظاہر میں آشکار ہوتا ہے۔ چنانچہ اقبال نے کہا ہے۔
تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں ہے ترے چار سُو بدل جائیں
لیکن جس طرح خورشید ندیم کے استاد غامدی صاحب نے قرآن و سنت اور اقبال سے کچھ نہیں سیکھا اسی طرح خورشید ندیم نے بھی قرآن و سنت اور خود اقبال سے کچھ نہیں سیکھا، حالانکہ اقبال تو خورشید ندیم کے گھر کی چیز ہیں۔
جہاں تک انفرادی دائرے میں اسلام کی انقلابیت کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ اسلام میں موجود نفس کے سات درجوں سے کیا جاسکتا ہے۔ انسانی نفس کا پہلا درجہ نفسِ امارہ ہے، یہ نفس تاریکی میں گھرا ہوا ہے اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ نفسِ امارہ کی مزاحمت کرے تا کہ نفس کا ارتقا ہوسکے اس میں انقلاب برپا ہوسکے، مسلمان جب نفسِ امارہ کی مزاحمت کرتا ہے تو اسے دوسرے مرحلے میں ’’نفسِ لوامہ‘‘ حاصل ہوتا ہے۔ یہ نفس وہ ہے جس کو تھوڑی سی روشنی فراہم ہوجاتی ہے اور وہ نیکی اور بدی کو پہچاننے لگتا ہے اور وہ نیکی پر خوش ہوتا ہے اور بدی پر انسان کو ملامت میں مبتلا کرتا ہے۔ انسان نفس کی مزید مزاحمت کرتا ہے تو اسے نفسِ مطمئنہ حاصل ہوتا ہے۔ نفسِ مطمئنہ کا ارتقا ہوتا ہے تو وہ نفسِ ملہمہ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہ ایک ایسا نفس ہوتا ہے جس پر خدا اچھے خیالات الہام کرنے لگتا ہے۔ نفسِ ملہمہ کا ارتقا ہوتا تو وہ نفسِ راضیہ میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ وہ نفس ہے جو خدا کی رضا میں راضی رہنا سیکھ جاتا ہے۔ نفسِ راضیہ کا ارتقا ہوتا ہے یا اس میں مزید انقلاب برپا ہوتا ہے تو وہ نفسِ مرضیہ کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ یہ وہ نفس ہے جس سے اس کا ربّ راضی ہو جاتا ہے۔ نفس کا آخری مرتبہ نفسِ مطلقہ ہے جو صرف پیغمبروں کو حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے وظیفے، مرتبے یا Status کو ہم نہیں جان سکتے۔ انسانی نفس میں ایسا انقلاب برپا کرنے والے اسلام کے بارے میں خورشید ندیم فرما رہے ہیں کہ اس کے پاس انقلاب کا تصور موجود نہیں۔
خورشید ندیم کا دعویٰ ہے کہ مسلمانوں نے آزادی کا تصور بھی اشتراکیوں سے ادھار لیا ہے اس بات کی تردید کے لیے اقبال کا ایک شعر ہی کافی ہے۔ اقبال نے کہا ہے۔
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زندگی
اہلِ عرب جب تک کفر اور شرک کے غلام تھے حقیر تھے اور جب انہیں اسلام کی آزادی حاصل ہوئی تو انہوں نے وقت کی سپر پاورز قیصر و کسریٰ کو منہ کے بل گرا دیا۔ خورشید ندیم کا اصرار ہے کہ مسلمانوں نے غلامی کا تصور بھی غیروں سے ادھار لیا ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کے دو اشعار عرض ہیں۔
غلامی کیا ہے ذوقِ حُسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا
خورشید ندیم کا کیا خیال ہے غلامی کا یہ تصور اقبال نے اسلام سے سیکھایا سوشلزم سے؟
خورشید ندیم کا خیال ہے کہ مسلمانوں کا فکری پیرا ڈائم یا تناظر سیاسی نہیں سماجی ہے۔ یہ بھی خورشید ندیم کی جہالت ہے۔ اس لیے کہ اسلام کا فکری کینوس ہمہ جہت ہے۔ وہ ایک سطح پر مابعد الطبیعیاتی ہے، دوسری سطح پر اخلاقی ہے، تیسری سطح پر علمی ہے، چوتھی سطح پر سیاسی ہے، پانچویں سطح پر نفسیاتی اور جذباتی ہے۔ اسلام انسان کی پوری انفرادیت اور پوری اجتماعیت میں انقلاب برپا کرنے کا داعی تھا ہے اور رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: خورشید ندیم کا انقلاب برپا موجود نہیں میں انقلاب انقلاب کا اسلام میں انقلاب کے ا ہوتا ہے فکر و عمل انہوں نے اقبال نے کا ارتقا اقبال کے اسلام کی یہ ہے کہ ہے کہ اس ہے تو اس کرتا ہے کا تصور وہ نفس اس لیے ہے اور کے لیے لیا ہے نہیں ا کی طرح
پڑھیں:
بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن
DUBAI:’’ یہ انڈینز تو بڑا ایٹیٹیوڈ دکھا رہے ہیں، ہم کیوں ہاتھ ملانے کیلیے کھڑے رہیں‘‘
جب میدان میں پاکستانی کرکٹرز ایک دوسرے سے یہ بات کر رہے تھے تو ٹیم مینجمنٹ نے انھیں وہیں رکنے کا کہا، اس پر وہ تلملا گئے لیکن عدم عدولی نہیں کی، بعد میں جب مائیک ہیسن اور سلمان علی آغا بھارتی ڈریسنگ روم کی طرف گئے تو انھیں دیکھ کر ایک سپورٹ اسٹاف رکن نے دروازہ ایسے بند کیا جیسے کوئی ناراض پڑوسن کرتی ہے۔
تقریب تقسیم انعامات میں پاکستانی کپتان احتجاجاً نہیں گئے جبکہ انفرادی ایوارڈز لینے کیلیے ڈائریکٹر انٹرنیشنل پی سی بی عثمان واہلہ اور ٹیم منیجر نوید اکرم چیمہ نے شاہین آفریدی کوجانے کا کہہ دیا، انھیں زیادہ چھکوں کا ایوارڈ دیا گیا۔
بھارتی رویے کو اپنی بے عزتی قرار دیتے ہوئے کھلاڑیوں نے فیصلہ کیا تو وہ آئندہ بھی کسی انڈین پریزینٹر کو انٹرویو دیں گے نہ ایوارڈ لینے جائیں گے، اتنا بڑا واقعہ ہو گیا لیکن کافی دیر تک پی سی بی کا کوئی ردعمل سامنے نہ آیا۔
چیئرمین محسن نقوی نے جب استفسار کیا تو انھیں مناسب جواب نہ ملا، انھوں نے فوری طور پر ریفری اینڈی پائی کرافٹ کو ایشیا کپ سے ہٹانے کیلیے آئی سی سی کو خط لکھنے کی ہدایت دی، بعد ازاں سستی برتنے پر عثمان واہلہ کو معطل کر دیا گیا۔
اب یہ نہیں پتا کہ معطلی پکی یا کسی ایس ایچ او کی طرح دکھاوے کی ہے، اس تمام واقعے میں بھارت کا کردار بے حد منفی رہا،بھارتی حکومت پاکستان سے جنگ ہارنے اور6 جہاز تباہ ہونے کی وجہ سے سخت تنقید کی زد میں ہے۔
اس نے کرکٹ کی آڑ لے کر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی، نفرت کے عالمی چیمپئن بھارتیوں کی سوچ دیکھیں کہ ایک کھیل میں جیت پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں ، جنگ میں ہار اور مسلسل جھوٹی باتیں کرنے پر اپنی حکومت سے استفسار نہیں کیا جا رہا، یہ معاملہ اب جلد ختم ہونے والا نہیں لگ رہا۔
پی سی بی نے سوچ لیا ہے کہ اگر پائی کرافٹ کو نہ ہٹایا گیا تو ٹیم ایشیا کپ کے بقیہ میچز سے دستبردار ہو جائے گی، میچ ریفری کا کام ڈسپلن کی پابندی کروانا ہوتا ہے ، وہ اکثر کھلاڑیوں کو غلطیوں پر سزائیں دیتا ہے، اب خود غلط کیا تو اسے بھی سزا ملنی چاہیے۔
پائی کرافٹ کو کیا حق حاصل تھا کہ وہ سلمان علی آغا سے کہتے کہ سوریا کمار یادیو سے ہاتھ نہ ملانا، شاید انھیں اس کی ہدایت ملی ہو گی، بطور ریفری یہ ان کا کام تھا کہ کرکٹ کی روایات پر عمل یقینی بناتے ، الٹا وہ خود پارٹی بن گئے۔
شاید آئی پی ایل میں کام ملنے کی لالچ یا کوئی اور وجہ ہو، میچ کے بعد بھی بھارتی کرکٹرز نے جب مصافحے سے گریز کیا تو ریفری خاموش تماشائی بنے رہے،پاکستان کو اب سخت اسٹینڈ لینا ہی ہوگا، البتہ آئی سی سی کے سربراہ جے شاہ ہیں، کیا وہ اپنے ملک بھارت کی سہولت کاری کرنے والے ریفری کے خلاف کوئی کارروائی کر سکیں گے؟
کھیل اقوام کو قریب لاتے ہیں لیکن موجودہ بھارتی حکومت ایسا چاہتی ہی نہیں ہے، اس لیے نفرت کے بیج مسلسل بوئے جارہے ہیں، کپتانوں کی میڈیا کانفرنس میں محسن نقوی اور سلمان علی آغا سے ہاتھ ملانے پر سوریا کمار کو غدار تک کا لقب مل گیا تھا۔
ایسے میں کھلاڑیوں نے آئندہ دور رہنے میں ہی عافیت سمجھی انھیں بھی اپنے بورڈ اور اسے حکومت سے ایسا کرنے کی ہدایت ملی ہوگی، جس ٹیم کا کوچ گوتم گمبھیر جیسا متعصب شخص ہو اس سے آپ خیر کی کیا امید رکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بھارتی کپتان نے پہلگام واقعے کا میچ کے بعد تقریب تقسیم انعامات میں ذکر کرتے ہوئے اپنی افواج کو خراج تحسین پیش کیا اسی پر ان کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، آئی سی سی نے سیاست کو کھیل میں لانے پر ماضی میں عثمان خواجہ کو نہیں چھوڑا تو اب اسے سوریا کیخلاف بھی ایکشن لینا ہوگا، پی سی بی کی دھمکی سیریس ہے۔
ریفری کو نہ ہٹایا گیا تو ایشیا کپ پاکستان کی عدم موجودگی میں دلچسپی سے محروم ہو جائے گا، اس کا منفی اثر آگے آنے والی کرکٹ پر بھی پڑے گا، بھارت کو ورلڈکپ کی میزبانی بھی کرناہے تب بھی اسے مسائل ہوں گے۔
اب یہ جے شاہ کیلیے ٹیسٹ کیس ہے دیکھنا ہوگا وہ کرتے کیا ہیں،البتہ ان سے کسی سخت فیصلے کی امید کم ہی ہے،ویسے ہمیں خود کو بھی بہتر بنانا ہوگا، اگر ٹیم کی کارکردگی اچھی ہوتی تو کیا بھارت ایسی حرکت کر سکتا تھا؟
ہمارے کھلاڑی خود مذاق کا نشانہ بن رہے ہیں، پی سی بی کو اس واقعے کے ساتھ ٹیم کی شرمناک کارکردگی بھی ذہن میں رکھنی چاہیے، پلیئرز کوئی فائٹ تو کرتے ، کسی کلب لیول کی ٹیم جیسی کارکردگی دکھائی، کیا پاکستان اب صرف عمان اور یو اے ای جیسے حریفوں کو ہرانے والی سائیڈ بن گئی ہے؟
آئی پی ایل سے بھارت کو جو ٹیلنٹ ملا وہ اس کے لیے انٹرنیشنل سطح پر پرفارم بھی کر رہا ہے،پی ایس ایل کا ٹیلنٹ کیوں عالمی سطح پر اچھا کھیل پیش نہیں کر پاتا؟ ہم نے معمولی کھلاڑیوں کو سپراسٹار بنا دیا۔
فہیم اشرف جیسوں کو ہم آل راؤنڈر کہتے ہیں، اسی لیے یہ حال ہے، بابر اور رضوان کو اسٹرائیک ریٹ کا کہہ کر ڈراپ کیا گیا،صرف بھارت سے میچ میں ڈاٹ بالز دیکھ لیں تو اندازہ ہو گا کہ کوئی فرق نہیں پڑا۔
بنیادی مسائل برقرار ہیں، اب ٹیمیں 300 رنز ٹی ٹوئنٹی میچ میں بنا رہی ہیں، ہم 100 رنز بھی بمشکل بنا پاتے ہیں، ہمارا اوپنر صفر پر متواتر آؤٹ ہو کر وکٹیں لینے میں کامیاب رہتا ہے اور سب سے اہم فاسٹ بولر کوئی وکٹ نہ لیتے ہوئے دوسرا بڑا اسکورر بن جاتا ہے۔
یہ ہو کیا رہا ہے؟ کیا واقعی ملک میں ٹیلنٹ ختم ہو گیا یا باصلاحیت کرکٹرز کو مواقع نہیں مل رہے، بورڈ کو اس کا جائزہ لینا چاہیے، کہاں گئے وہ مینٹورز جو 50 لاکھ روپے ماہانہ لے کر ملک کو نیا ٹیلنٹ دینے کے دعوے کر رہے تھے، بھارت نے یقینی طور پر غلط کیا لیکن ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے کہ کرکٹ میں ہم کہاں جا رہے ہیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)