افریقہ میں خاموش انقلاب کی بنیاد!
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
جاوید محمود
۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ سے
کون ہے کیپٹن ابراہیم تراورے، جس نے افریقہ میں خاموش انقلاب کی بنیاد رکھ دی ہے، جو 36سال کی عمر میں برکینا فاسو اور دنیاکے سب سے کم عمر صدر بنے ؟کیوں آج ہر نوجوان اسے جاننا چاہتا ہے؟ کون سے کارنامے ہیں جو اس نے کیے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر تیزی سے اُبھرا۔ 14مارچ 1988ء میں پیدا ہونے والے ابراہیم تراورے نے 2010 میں فوج میں داخلہ لیا اور تعلیم بھی جاری رکھی ۔فوج میں اس نے جارجس ناملولو ملٹری اکیڈمی میں ٹریننگ لی، اس نے یہاں رہتے ہوئے ہر قسم کی فوجی تربیت حاصل کی ۔2012 میں اس نے لیفٹیننٹ دوم کے طور پر گریجویشن کی۔ 2014میں ملٹری میں لیفٹیننٹ کا چارج سنبھالا جس کے بعد یورپ کے آگے دم ہلانے والے صدر کے خلاف 2022میں ملٹری بغاوت ہوئی اوربرکینا فاسو کی ملٹری نے پال ہینڈری کو عبوری حکمراں بنا دیا جو حکومت سنبھال نہ سکے ۔ 2024 میں ابراہیم تراور ے نے صدارتی انتخابات میں فتح حاصل کی اور صدر مملکت بنے ۔حکمراں بننے کے بعد اس نے الگ خطوط پر سوچنا اور عمل کرنا شروع کیا۔ اس نے غور کیا کہ افریقہ دنیا میں سب سے غریب، بھوکا اور پیاسا کیوں ہے جبکہ افریقہ کے پاس معدنیات کی کمی نہیں ہے۔ سونے سے لے کر ہیرے، تیل ،یورینیم ،کوہالٹ اور دوسرے ذخائر کی بہتات ہے جبکہ اس کے برعکس مغربی میڈیا افریقہ کا غربت بھرا منظر پیش کرتا ہے، جس میں بچے ننگے پاؤں اور جگہ جگہ غربت کا راج ہے۔ ابراہیم تراورے کی سمجھ میں اس کی اصل وجہ آئی کہ امریکہ اور یورپی ممالک خاص کر فرانس یہاں کی بیش قیمت چیزوں کو نکال کر لے جاتے ہیں اور یہاں کے لوگوں کا استحصال کرتے ہیں۔ انہیں مزدور اور غلام بنا کر رکھتے ہیں۔ انہیں روٹی ،کپڑا اور مکان بھی نہیں دیتے۔ ان کا خون چوستے ہیں اور بدلے میں دو وقت کی روٹی بھی ڈھنگ سے نہیں دیتے۔ افریقی لوگوں کو ہنر اور تعلیم سے بے بہرا رکھ کر ان پر من مانی حکومت کرتے ہیں۔ برکینا فاسو افریقہ کا ایک ملک ہے یہاں کی آبادی 2کروڑ 25 لاکھ ہے۔ اس کا رقبہ 2لاکھ 47ہزار 223مربع کلومیٹر ہے ۔یہاں کے لوگ مور پیسا نیولا اور فیولا زبانیں بولتے ہیں ۔یہ چاروں زبانیں یہاں کی سرکاری زبانیں ہیں۔ مگر اس کے بیشتراداروں اور تعلیم گاہوں میں انگریزی اور فرینچ زبانین استعمال ہوتی ہیں۔
یہ ایک مسلم اکثریتی ملک ہے یہاں کی کل آبادی 63.
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ابراہیم تراورے کتنی بار تم نے یہاں کی رہے ہیں رہا ہوں کے لوگ
پڑھیں:
دفاعی صنعت میں انقلاب، بنگلہ دیش کا ڈیفنس اکنامک زون قائم کرنے کا منصوبہ
بنگلہ دیش نے خطے میں دفاعی سازوسامان تیار کرنے والی نئی طاقت بننے کی سمت اہم پیش رفت شروع کر دی ہے۔
حکومت نے ایک خصوصی ڈیفنس اکنامک زون کے قیام کا منصوبہ بنایا ہے، جس میں ڈرونز، سائبر سسٹمز، ہتھیار اور گولہ بارود نہ صرف ملکی ضرورت کے لیے بلکہ برآمدات کے لیے بھی تیار کیے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش ایئر فورس کا چین کے اشتراک سے ڈرون پلانٹ قائم کرنے کا اعلان
حکام کے مطابق، یہ اقدام خود انحصار دفاعی صنعتی ڈھانچے کی تعمیر کے وسیع منصوبے کا حصہ ہے، حکومت کا تخمینہ ہے کہ تقریباً 1.36 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، غیر ملکی سرمایہ کاری اور مشترکہ منصوبوں کے ذریعے حاصل کی جائے گی۔
???? | Breaking Analysis | #BDMilitary
???????? Bangladesh moves from consumer to producer. Dhaka’s latest policy push—anchored in the establishment of a dedicated Defence Economic Zone (DEZ)—signals a decisive stride toward self-reliance in military manufacturing and export orientation.… pic.twitter.com/WdHgoUvJ33
— BDMilitary (@BDMILITARY) November 3, 2025
چیف ایڈوائزر محمد یونس نے پہلے ہی ایسی پالیسی اقدامات کی منظوری دے دی ہے جن کے ذریعے ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دیا جائے گا، بنگلہ دیش آرمی کو قومی دفاعی صنعت پالیسی کے مسودے کی تیاری کا کام سونپا گیا ہے۔
غیر ملکی دلچسپی اور برآمدی عزائممیڈیا رپورٹس کے مطابق، کئی غیر ملکی حکومتوں اور کمپنیوں نے بنگلہ دیش کے ابھرتے ہوئے دفاعی شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے، اگرچہ مخصوص ممالک کے نام ظاہر نہیں کیے گئے، لیکن حکام نے تصدیق کی کہ بات چیت ’دوستانہ ممالک‘ کے ساتھ جاری ہے۔
بنگلہ دیش اکنامک زون اتھارٹی اور بنگلہ دیش انویسٹمنٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین اشک محمود بن ہارون نے کہا کہ زون کی جگہ کا تعین ابھی باقی ہے۔ ’ہم پالیسی فریم ورک تیار کر رہے ہیں اور شراکت داروں سے رابطے میں ہیں۔ ہمارا مقصد دفاعی شعبے کو برآمدی بنیاد پر استوار کرنا ہے۔‘
ملکی ضرورت اور عالمی منڈیاس وقت بنگلہ دیش کی دفاعی ضروریات کا تخمینہ 8,000 کروڑ ٹکا لگایا گیا ہے، جس میں مسلح افواج، بارڈر گارڈ، کوسٹ گارڈ، پولیس اور دیگر نیم فوجی اداروں کی ضروریات شامل ہیں۔
حکام کا خیال ہے کہ مقامی صنعت اس طلب کو پورا کر سکتی ہے اور آگے چل کر عالمی منڈی میں بھی داخل ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: بنگلہ دیش کا بھارت کے ساتھ سرحد پر سیکیورٹی مضبوط بنانے کے لیے نئی بٹالینز تشکیل دینے کا فیصلہ
تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف ملکی طلب پر انحصار کافی نہیں ہوگا، صدر بنگلہ دیش انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز اے این ایم منیر الزمان کے مطابق صنعت کو پائیدار بنانے کے لیے ہمیں برآمدی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنا ہوگی۔
’عالمی دفاعی منڈی میں مقابلہ سخت ہے، اور کامیابی کے لیے ٹیکنالوجی شراکت داری اور غیر ملکی سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔‘
نجی شعبے کی شمولیت ناگزیرفائنانس سیکرٹری ایم ڈی خیرالزمان نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح نجی شعبے کا کردار بنگلہ دیش کے لیے بھی اہم ہے۔
انہوں نے لاک ہیڈ مارٹن اور میک ڈونل ڈگلس جیسی کمپنیوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ سرمایہ کاری کو کئی مالیاتی سالوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
جبکہ وزارتِ خزانہ زمین کے حصول کے لیے غیر استعمال شدہ سرکاری فیکٹریوں کو بروئے کار لانے پر غور کر رہی ہے۔
علاقائی موازنہ اور چیلنجزحکام نے تسلیم کیا کہ بنگلہ دیش ابھی پاکستان اور بھارت جیسے ہمسایہ ممالک سے پیچھے ہے، پاکستان نے گزشتہ 4 سالوں میں ہر سال تقریباً 450 ملین ڈالر دفاعی پیداوار میں لگائے۔
جبکہ بھارت کی سالانہ سرمایہ کاری 2.7 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے، اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی دفاعی صنعت ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔
پالیسی خامیاں اور قانونی رکاوٹیںاگرچہ غیر ملکی دلچسپی میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن حکام نے اعتراف کیا کہ قوانین اور خریداری پالیسیوں کی موجودہ صورت نجی شعبے کی شمولیت میں رکاوٹ ہے۔
وزارتِ صنعت کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق، غیر ملکی سرمایہ کار قانونی ضمانتیں چاہتے ہیں جو فی الحال دستیاب نہیں۔
مزید پڑھیں: بنگلہ دیش ملبوسات کی نئی عالمی منزل، چینی سرمایہ کاری میں اضافہ
ستمبر کے اجلاس میں شرکا نے نئے قوانین، سرمایہ کاری کے تحفظ اور ایک مستقل رابطہ ادارہ قائم کرنے کی سفارش کی، اس کے علاوہ، ترکی اور پاکستان کے ماڈلز سے استفادہ کرنے کی تجویز بھی دی گئی۔
کامرس سیکریٹری محبوب الرحمن نے کہا کہ اگر منصوبہ بروقت شروع کر دیا گیا تو بنگلہ دیش بھی پاکستان کی سرمایہ کاری کی سطح تک پہنچ سکتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ نیا زون گیزپور کے بنگلہ دیش آرڈننس فیکٹری کی طرز پر قائم کیا جا سکتا ہے۔
طویل المدتی وژناگرچہ ماہرین کے مطابق ایک مکمل دفاعی ایکو سسٹم قائم کرنے میں 25 سے 30 سال لگ سکتے ہیں، لیکن بنگلہ دیشی قیادت پُرعزم ہے۔
پالیسی اصلاحات، نجی شعبے کی شمولیت، اور بین الاقوامی تعاون کے امتزاج سے بنگلہ دیش مستقبل میں علاقائی اسلحہ برآمد کنندہ ملک کے طور پر ابھر سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز ایکو سسٹم بنگلہ دیش بنگلہ دیش آرڈننس فیکٹری دفاعی پیداوار دفاعی سازوسامان سرمایہ کار کامرس سیکریٹری لاک ہیڈ مارٹن میک ڈونل ڈگلس