Juraat:
2025-11-03@14:26:13 GMT

افریقہ میں خاموش انقلاب کی بنیاد!

اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT

افریقہ میں خاموش انقلاب کی بنیاد!

جاوید محمود
۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ سے

کون ہے کیپٹن ابراہیم تراورے، جس نے افریقہ میں خاموش انقلاب کی بنیاد رکھ دی ہے، جو 36سال کی عمر میں برکینا فاسو اور دنیاکے سب سے کم عمر صدر بنے ؟کیوں آج ہر نوجوان اسے جاننا چاہتا ہے؟ کون سے کارنامے ہیں جو اس نے کیے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر تیزی سے اُبھرا۔ 14مارچ 1988ء میں پیدا ہونے والے ابراہیم تراورے نے 2010 میں فوج میں داخلہ لیا اور تعلیم بھی جاری رکھی ۔فوج میں اس نے جارجس ناملولو ملٹری اکیڈمی میں ٹریننگ لی، اس نے یہاں رہتے ہوئے ہر قسم کی فوجی تربیت حاصل کی ۔2012 میں اس نے لیفٹیننٹ دوم کے طور پر گریجویشن کی۔ 2014میں ملٹری میں لیفٹیننٹ کا چارج سنبھالا جس کے بعد یورپ کے آگے دم ہلانے والے صدر کے خلاف 2022میں ملٹری بغاوت ہوئی اوربرکینا فاسو کی ملٹری نے پال ہینڈری کو عبوری حکمراں بنا دیا جو حکومت سنبھال نہ سکے ۔ 2024 میں ابراہیم تراور ے نے صدارتی انتخابات میں فتح حاصل کی اور صدر مملکت بنے ۔حکمراں بننے کے بعد اس نے الگ خطوط پر سوچنا اور عمل کرنا شروع کیا۔ اس نے غور کیا کہ افریقہ دنیا میں سب سے غریب، بھوکا اور پیاسا کیوں ہے جبکہ افریقہ کے پاس معدنیات کی کمی نہیں ہے۔ سونے سے لے کر ہیرے، تیل ،یورینیم ،کوہالٹ اور دوسرے ذخائر کی بہتات ہے جبکہ اس کے برعکس مغربی میڈیا افریقہ کا غربت بھرا منظر پیش کرتا ہے، جس میں بچے ننگے پاؤں اور جگہ جگہ غربت کا راج ہے۔ ابراہیم تراورے کی سمجھ میں اس کی اصل وجہ آئی کہ امریکہ اور یورپی ممالک خاص کر فرانس یہاں کی بیش قیمت چیزوں کو نکال کر لے جاتے ہیں اور یہاں کے لوگوں کا استحصال کرتے ہیں۔ انہیں مزدور اور غلام بنا کر رکھتے ہیں۔ انہیں روٹی ،کپڑا اور مکان بھی نہیں دیتے۔ ان کا خون چوستے ہیں اور بدلے میں دو وقت کی روٹی بھی ڈھنگ سے نہیں دیتے۔ افریقی لوگوں کو ہنر اور تعلیم سے بے بہرا رکھ کر ان پر من مانی حکومت کرتے ہیں۔ برکینا فاسو افریقہ کا ایک ملک ہے یہاں کی آبادی 2کروڑ 25 لاکھ ہے۔ اس کا رقبہ 2لاکھ 47ہزار 223مربع کلومیٹر ہے ۔یہاں کے لوگ مور پیسا نیولا اور فیولا زبانیں بولتے ہیں ۔یہ چاروں زبانیں یہاں کی سرکاری زبانیں ہیں۔ مگر اس کے بیشتراداروں اور تعلیم گاہوں میں انگریزی اور فرینچ زبانین استعمال ہوتی ہیں۔
یہ ایک مسلم اکثریتی ملک ہے یہاں کی کل آبادی 63.

8فیصد مسلمان ہیں۔ 26فیصد کرسچن اور باقی دوسرے مذاہب کے لوگ آباد ہیں۔ اس ملک میں غریبی بہت ہے۔ کھانے کو تین وقت کھانا میسر نہیں۔ پینے کے پانی کی قلت ہے۔ زیادہ تر نوجوان فرانسیسی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ ابراہیم تراورے نے یورپ کے مفادات خانے بند کر دیے ہیں۔ روس کی فوج کوملک سے نکل جانے کا حکم دیا۔ معدنیات کے ذخائر کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے تمام لائسنس رد کر دیے۔ پورے یورپ اور امریکہ میں زلزلہ آگیا۔ برکینا فاسو کی صدر ابراہیم تراورے نے اپنے ایک بیان میں جو باتیں کیں وہ دل کو چھوتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ تمام باتیں آج نہیں تو کل افریقہ اتحاد کے لیے بنیاد کا پتھر ثابت ہونگیں، ویسے بہت سے افریقی ممالک ابھی سے متحد افریقہ کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے یورپ کے بیشتر ممالک اور امریکہ کے میڈیا کوللکارتے ہوئے کہا کہ سی این این ، بی بی سی فرانس 24میں تم سب کو دیکھ رہا ہوں ۔میں تمہارا ہر جھوٹ ریکارڈ کر رہا ہوں۔ میں تمہارے ذریعے بنائی گئی توڑی مروڑی باتوں کو جمع کر رہا ہوں۔ میں ابراہیم تراورے ہوں اور آج میں تمہارا نقاب اُتار رہا ہوں جسے تم ایک نوجوان فوجی حکمراں کہتے ہو، جسے تم ایک خطرناک دہشت گرد کہتے ہو ،جسے تم مغرب مخالف ٹاٹا شاہ کہتے ہو، آج میں تمہیں سچائی بتا رہا ہوں اور اس بار تم مائک بند نہیں کر سکتے۔ اس بار تم اپنے کیمرے نہیں ہٹا سکتے۔ اس بار تمہارے ایڈیٹرز اس تقریر کی ایڈیٹنگ نہیں کر سکتے کیونکہ اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ اب کروڑوں لوگ یہ باتیں سنیں گے ۔ تمہارے فلٹر سے گزرے بنا تمہاری جھوٹ میں لپٹی گندگی سن کر میں اتنا بڑا ہو گیا میں نے اپنی زندگی کے دن تمہارے جھوٹ میں گزارے ۔بچپن میں ٹی وی پر افریقہ دیکھا کرتا تھا۔ ہمیشہ وہی تصویریں مکھیاں بھنبھناتے، بچے بھوک سے بلبلاتے، لوگ پانی کے لیے ترستے، عورتیں سوکھی کھیتیاں بنجر زمینیں بے بس مزدور کالے سیاہ دھوپ میں تپتے جلتے لوگ چوری چکاری کرتے نوجوان یہی افریقہ ہے ،تم نے بتایا ہمیں خود پر شرم آنے لگی، پھر میں بڑا ہوا میں نے تعلیم حاصل کی ریسرچ کی اور سوال قائم کیے تو مجھے اچھی طرح سمجھ میں آگیا کہ جو افریقہ تم نے ہمیں دکھایا بتایا جو کہانی تم نے ہمیں سنائی وہ جھوٹی تھی ،جو قسمت تم نے طے کی تھی وہ پہلے سے لکھی ہوا ایک اسکرپٹ تھا۔ تم نے افریقہ کو ایسے پیش کیا جیسے یہاں انسان نہیں جانور بستے ہوں ۔ہر دن یہی کہانی تمہاری اسکرین پر ہوتی، جب کوئی افریقہ کہتا تو تمہاری لغت میں صرف بھوک جنگ بیماری بدعنوانیاں دہشت گردی لاقانونیت کا ہی ذکر ہوتا ۔نا امید، ناکامیابی، نہ فروغ نہ مزاحمت نہ عزت و احترام نہ فخر نہ فتح ،تو میں تم سے پوچھتا ہوں نیویارک ٹائمز واشنگٹن پوسٹ گارجین ٹائم میگزین وغیرہ نے کبھی افریقہ کی کامیابیوں کو سرخی بنایا؟ کتنی بار تم نے روانڈا کی ٹیکنالوجی انقلاب کے بارے میں لکھا؟ کتنی بار تم نے ایتھوپیا کی نشاة ثانیہ کو دکھایا ؟کتنی بار تم نے بونسیوانہ کی جمہوری کامیابی کی تعریف کی؟ کتنی بار تم نے کینیا کی انٹرپرینیوشپ کی داستان سنائی تھی؟ نہیں کیونکہ یہ سب تمہارے تحریر کردہ اسکرپٹ میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ تمہاری افریقہ کی کہانی میں افریقہ تو کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر افریقہ کو مدد کی ضرورت نہیں وہ بچھڑے بھی نہیں تو تمہاری مداخلت کیسے ہو؟ کیا کبھی تمہارے کسی ایڈیٹر یا رپورٹر نے سوچا کہ دنیا کی سب سے امیر زمینوں میں بسے لوگ غریب کیوں ہیں؟ دنیا کا 70فیصد کوبالٹ، 90فیصد پلیٹینیم، 30 فیصد سونا، 65فیصد ہیرے، 35فیصد یورینیم وغیرہ افریقی ممالک میں ملتا ہے۔ پھر بھی افریقہ انتہائی غریب ہے۔ امریکہ یورپ اور خاص کر فرانس یہ سب یہاں سے لے جاتا ہے اور بیچارہ افریقہ غریب کا غریب ہی ہے ۔مگر اب حالات بدل گئے ہیں ۔برکینیا کے صدر ابراہیم تراور ے کے اس بیان نے پوری دنیا خاص کر امریکہ اور یورپ میں کھلبلی مچا دی ہے۔ وہاں کے حکمران ابراہیم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے منصوبے بنا رہے ہیں ۔ابراہیم نے روس اور چین کے ساتھ مل کر اپنے ملک میں انقلابی تبدیلیاں لانی شروع کر دی ہیں۔ ہسپتال، اسکول، کالج، یونیورسٹیز ،بازار، کشادہ سڑکیں، بڑی بڑی عمارتیں معدنیات کی ترقی یافتہ بڑے بڑے کارخانے صنعتیں جنگ میں استعمال ہونے والے ہتھیار، جنگی جہاز، ٹینک توپ بنانے اور لینے کے طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ نئے نئے پروجیکٹ لگائے جا رہے ہیں ۔نیوکلیئر پلانٹ کی تیاری چل رہی ہے۔ معاہدے ہو رہے ہیں ۔معدنیات سے حاصل ہونے والی رقم کا بڑا حصہ ملک کے فروغ میں اور فوج کے شعبے میں خرچ ہو رہا ہے۔ فرانس کا عمل دخل بالکل ختم ہو رہا ہے۔ ابراہیم نے فلسطین اور ایران میں بھی اپنی افواج بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ ایک نیا سورج طلوع ہو رہا ہے۔ افریقہ کے لوگوں کو ابراہیم سے بہت ساری امیدیں ہیں۔ توقع ہے کہ اسی جدوجہد سے پورے افریقہ میں خاموش انقلاب برپا ہوگا جو افریقہ سے غربت اور افلاس کا خاتمہ کر دے گا۔

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: ابراہیم تراورے کتنی بار تم نے یہاں کی رہے ہیں رہا ہوں کے لوگ

پڑھیں:

دفاعی صنعت میں انقلاب، بنگلہ دیش کا ڈیفنس اکنامک زون قائم کرنے کا منصوبہ

بنگلہ دیش نے خطے میں دفاعی سازوسامان تیار کرنے والی نئی طاقت بننے کی سمت اہم پیش رفت شروع کر دی ہے۔

حکومت نے ایک خصوصی ڈیفنس اکنامک زون کے قیام کا منصوبہ بنایا ہے، جس میں ڈرونز، سائبر سسٹمز، ہتھیار اور گولہ بارود نہ صرف ملکی ضرورت کے لیے بلکہ برآمدات کے لیے بھی تیار کیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش ایئر فورس کا چین کے اشتراک سے ڈرون پلانٹ قائم کرنے کا اعلان

حکام کے مطابق، یہ اقدام خود انحصار دفاعی صنعتی ڈھانچے کی تعمیر کے وسیع منصوبے کا حصہ ہے، حکومت کا تخمینہ ہے کہ تقریباً 1.36 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، غیر ملکی سرمایہ کاری اور مشترکہ منصوبوں کے ذریعے حاصل کی جائے گی۔

???? | Breaking Analysis | #BDMilitary
???????? Bangladesh moves from consumer to producer. Dhaka’s latest policy push—anchored in the establishment of a dedicated Defence Economic Zone (DEZ)—signals a decisive stride toward self-reliance in military manufacturing and export orientation.… pic.twitter.com/WdHgoUvJ33

— BDMilitary (@BDMILITARY) November 3, 2025

چیف ایڈوائزر محمد یونس نے پہلے ہی ایسی پالیسی اقدامات کی منظوری دے دی ہے جن کے ذریعے ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دیا جائے گا، بنگلہ دیش آرمی کو قومی دفاعی صنعت پالیسی کے مسودے کی تیاری کا کام سونپا گیا ہے۔

غیر ملکی دلچسپی اور برآمدی عزائم

میڈیا رپورٹس کے مطابق، کئی غیر ملکی حکومتوں اور کمپنیوں نے بنگلہ دیش کے ابھرتے ہوئے دفاعی شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے، اگرچہ مخصوص ممالک کے نام ظاہر نہیں کیے گئے، لیکن حکام نے تصدیق کی کہ بات چیت ’دوستانہ ممالک‘ کے ساتھ جاری ہے۔

بنگلہ دیش اکنامک زون اتھارٹی اور بنگلہ دیش انویسٹمنٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی  کے چیئرمین اشک محمود بن ہارون نے کہا کہ زون کی جگہ کا تعین ابھی باقی ہے۔ ’ہم پالیسی فریم ورک تیار کر رہے ہیں اور شراکت داروں سے رابطے میں ہیں۔ ہمارا مقصد دفاعی شعبے کو برآمدی بنیاد پر استوار کرنا ہے۔‘

ملکی ضرورت اور عالمی منڈی

اس وقت بنگلہ دیش کی دفاعی ضروریات کا تخمینہ 8,000 کروڑ ٹکا لگایا گیا ہے، جس میں مسلح افواج، بارڈر گارڈ، کوسٹ گارڈ، پولیس اور دیگر نیم فوجی اداروں کی ضروریات شامل ہیں۔

حکام کا خیال ہے کہ مقامی صنعت اس طلب کو پورا کر سکتی ہے اور آگے چل کر عالمی منڈی میں بھی داخل ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش کا بھارت کے ساتھ سرحد پر سیکیورٹی مضبوط بنانے کے لیے نئی بٹالینز تشکیل دینے کا فیصلہ

تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف ملکی طلب پر انحصار کافی نہیں ہوگا، صدر بنگلہ دیش انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز اے این ایم منیر الزمان کے مطابق صنعت کو پائیدار بنانے کے لیے ہمیں برآمدی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنا ہوگی۔

’عالمی دفاعی منڈی میں مقابلہ سخت ہے، اور کامیابی کے لیے ٹیکنالوجی شراکت داری اور غیر ملکی سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔‘

نجی شعبے کی شمولیت ناگزیر

فائنانس سیکرٹری ایم ڈی خیرالزمان نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح نجی شعبے کا کردار بنگلہ دیش کے لیے بھی اہم ہے۔

انہوں نے لاک ہیڈ مارٹن اور میک ڈونل ڈگلس جیسی کمپنیوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ سرمایہ کاری کو کئی مالیاتی سالوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

جبکہ وزارتِ خزانہ زمین کے حصول کے لیے غیر استعمال شدہ سرکاری فیکٹریوں کو بروئے کار لانے پر غور کر رہی ہے۔

علاقائی موازنہ اور چیلنجز

حکام نے تسلیم کیا کہ بنگلہ دیش ابھی پاکستان اور بھارت جیسے ہمسایہ ممالک سے پیچھے ہے، پاکستان نے گزشتہ 4 سالوں میں ہر سال تقریباً 450 ملین ڈالر دفاعی پیداوار میں لگائے۔

جبکہ بھارت کی سالانہ سرمایہ کاری 2.7 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے، اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی دفاعی صنعت ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔

پالیسی خامیاں اور قانونی رکاوٹیں

اگرچہ غیر ملکی دلچسپی میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن حکام نے اعتراف کیا کہ قوانین اور خریداری پالیسیوں کی موجودہ صورت نجی شعبے کی شمولیت میں رکاوٹ ہے۔

وزارتِ صنعت کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق، غیر ملکی سرمایہ کار قانونی ضمانتیں چاہتے ہیں جو فی الحال دستیاب نہیں۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش ملبوسات کی نئی عالمی منزل، چینی سرمایہ کاری میں اضافہ

ستمبر کے اجلاس میں شرکا نے نئے قوانین، سرمایہ کاری کے تحفظ اور ایک مستقل رابطہ ادارہ قائم کرنے کی سفارش کی، اس کے علاوہ، ترکی اور پاکستان کے ماڈلز سے استفادہ کرنے کی تجویز بھی دی گئی۔

کامرس سیکریٹری محبوب الرحمن نے کہا کہ اگر منصوبہ بروقت شروع کر دیا گیا تو بنگلہ دیش بھی پاکستان کی سرمایہ کاری کی سطح تک پہنچ سکتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ نیا زون گیزپور کے بنگلہ دیش آرڈننس فیکٹری کی طرز پر قائم کیا جا سکتا ہے۔

طویل المدتی وژن

اگرچہ ماہرین کے مطابق ایک مکمل دفاعی ایکو سسٹم قائم کرنے میں 25 سے 30 سال لگ سکتے ہیں، لیکن بنگلہ دیشی قیادت پُرعزم ہے۔

پالیسی اصلاحات، نجی شعبے کی شمولیت، اور بین الاقوامی تعاون کے امتزاج سے بنگلہ دیش مستقبل میں علاقائی اسلحہ برآمد کنندہ ملک کے طور پر ابھر سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز ایکو سسٹم بنگلہ دیش بنگلہ دیش آرڈننس فیکٹری دفاعی پیداوار دفاعی سازوسامان سرمایہ کار کامرس سیکریٹری لاک ہیڈ مارٹن میک ڈونل ڈگلس

متعلقہ مضامین

  • دفاعی صنعت میں انقلاب، بنگلہ دیش کا ڈیفنس اکنامک زون قائم کرنے کا منصوبہ
  • آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں ٹیکنالوجی انقلاب، 100 آئی ٹی سیٹ اپس کی تکمیل
  • مٹیاری وگردنواح میں منشیات کا استعمال بڑھ گیا، پولیس خاموش
  • امریکہ نے فیلڈ مارشل کی تعریفیں بہت کیں لیکن دفاعی معاہدہ ہندوستان کیساتھ کرلیا، پروفیسر ابراہیم
  • بی جے پی حکومت کشمیری صحافیوں کو خاموش کرانے کے لیے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، حریت کانفرنس
  • مسیحیوں کے قتل عام پر خاموش نہیں رہیں گے، ٹرمپ کی نائیجیریا کو فوجی کارروائی کی دھمکی
  • نومبر، انقلاب کا مہینہ
  • خیبرپختونخوا میں کرکٹ کا زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے، شعیب ملک
  • ایران امریکا ڈیل بہت مشکل ہے لیکن برابری کی بنیاد پر ہوسکتی ہے
  • پاکستانی وزرا کے بیانات صورتحال بگاڑ رہے ہیں، پروفیسر ابراہیم