data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پشاور(اے اے سید) جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے جسارت کے اجتماع عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی، تاہم اگر ہم اپنے بیانیے کو ان کے ساتھ ہم آہنگ کریں تو اس سے ضرور فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کا پہلا دور 1996ء سے 2001ء تک اور دوسرا دور 2021ء سے جاری ہے۔ پہلے دور میں طالبان کی جماعت اسلامی کی سخت مخالفت تھی، مگر اب ان کے رویّے میں واضح تبدیلی آئی ہے اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ‘‘پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے، لیکن اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔پروفیسر ابراہیم کے مطابق امیرالمؤمنین ملا ہبۃ اللہ اور ان کے قریب ترین حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں باقی ہیں، جس کی ایک مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی 2 روزہ بندش کو قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ستمبر کے آخر میں پورے افغانستان میں انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا گیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہے، لیکن دو دن بعد طالبان حکومت نے خود اس فیصلے کو واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت بہرحال ایک بڑی تبدیلی ہے اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے گہرے منفی اثرات ہوئے ہیں۔ ‘‘آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں۔پروفیسر ابراہیم نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ‘‘ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی۔ وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ ‘اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی’ بے وقوفی کی انتہا ہے۔انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف پہلے یہ بیان بھی دے چکے ہیں کہ افغانستان ہمارا دشمن ہے، اور ماضی میں انہوں نے محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دے کر تاریخ اور دین دونوں سے ناواقفیت ظاہر کی۔انہوں نے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے اس بیان پر بھی سخت ردعمل دیا کہ ‘‘ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے۔پروفیسر ابراہیم نے کہا یہ ناسمجھ نہیں جانتا کہ تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا جس نے خود امریکا کو شکست دی۔ طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ حکومت میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، نادانی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت، احترام اور باہمی اعتماد کے ذریعے تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا، کیونکہ یہی خطے کے امن اور استحکام کی واحد ضمانت ہے۔

اے اے سید گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پروفیسر ابراہیم انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی رہے ہیں

پڑھیں:

طالبان رجیم کا خاتمہ، پوری طاقت کی ضرورت نہیں: وزیر دفاع

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی+ اپنے سٹاف رپورٹر سے+ نوائے وقت رپورٹ ) وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان رجیم صرف اپنی قابض حکمرانی اور جنگی معیشت کو بچانے کے لیے افغانستان کو ایک اور تنازعہ میں دھکیل رہی ہے۔ پاکستان اپنی سرزمین پر کسی بھی دہشت گردانہ یا خودکش حملے کو برداشت نہیں کرے گا اور کسی بھی مہم جوئی کا جواب سخت اور کڑوا  ہوگا۔ افغان طالبان رجیم مسلسل برادر ممالک سے مذاکرات کیلئے درخواست کر رہی تھی۔ برادر ممالک کی درخواست پر پاکستان نے افغان طالبان رجیم  کے ساتھ امن کی خاطر مذاکرات کی پیشکش کو قبول کیا۔ وزیر دفاع نے کہا کہ بعض افغان حکام کے زہریلے بیانات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ طالبان رجیم میں انتشار اور دھوکہ دہی بتدریج موجود ہے۔ پاکستان یہ واضح کرتا ہے کہ طالبان رجیم کو ختم کرنے یا انہیں غاروں میں چھپنے پر مجبور کرنے کیلئے پاکستان کو اپنی پوری طاقت استعمال کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ اگر ضرورت پڑی تو ہم انہیں تورا بورا جیسے مقامات پر شکست دیکر لوگوں کیلئے مثال بنا سکتے ہیں جو اقوام عالم کیلئے دلچسپ منظر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ افسوس ہوتا ہے کہ طالبان رجیم صرف اپنی قابض حکمرانی اور جنگی معیشت کو بچانے کے لیے افغانستان کو ایک اور تنازعہ میں دھکیل رہی ہے، اپنی کمزوری اور جنگی  دعووں کی حقیقت کو  جانتے ہوئے  طبل جنگ بجا کر  بظاہر افغان عوام میں  اپنی بگڑتی ہوئی ساکھ بچانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ اگر افغان طالبان پھر بھی دوبارہ افغانستان اور اس کے معصوم عوام کو تباہ کرنے پر بضد ہیں  تو پھر جو بھی ہونا ہے وہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک ’’گریو یارڈ آف ایمپائر‘‘  کے بیانیے کا تعلق ہے، پاکستان خود کو ہرگز ’’ایمپائر‘‘ نہیں کہتا، حقیقت یہ ہے کہ افغانستان طالبان  کی وجہ سے اپنے ہی لوگوں کے لیے ایک قبرستان سے کم نہیں، تاریخی اعتبار سے افغانستان  سلطنتوں کا قبرستان تو نہیں رہا البتہ  ہمیشہ بڑی طاقتوں کے کھیل کا میدان ضرور رہا ہے۔ طالبان کے وہ جنگجو جو خطے میں بدامنی پھیلانے میں اپنا ذاتی فائدہ دیکھ رہے ہیں سمجھ لیں کہ انہوں نے  شاید پاکستانی عزم اور حوصلے کو غلط انداز میں لیا ہے۔ اگر طالبان رجیم  لڑنے کی کوشش کرے گی تو دنیا دیکھے گی کہ ان کی دھمکیاں صرف دکھاوا تھیں۔ پاکستان اپنی سرزمین پر کسی بھی دہشت گردانہ یا خودکش حملے کو برداشت نہیں کرے گا اور کسی بھی مہم جوئی کا جواب سخت اور کڑوا  ہوگا۔ طالبان رجیم  کو چاہیے کہ اپنے انجام کا حساب ضرور رکھیں، کیونکہ پاکستان کے عزم اور صلاحیتوں کو آزمانا ان کے لیے بہت مہنگا ثابت ہوگا۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق خواجہ آصف نے کہا ہے کہ طالبان نے تصادم کا راستہ اپنایا ہے تو یہی سہی۔ ہم نے پورے خلوص سے امن کی کوشش کی۔ طالبان کی لگام دہلی کے ہاتھ میں تو مشکل ہے۔ پاکستان کو آزمانا ان کیلئے مہنگا ثابت ہوگا۔ علاوہ ازیں وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا ہے کہ افغان سرزمین کے پاکستان کیخلاف استعمال ہونے کے ناقابل تردید ثبوت ہیں۔ مذاکرات ناکام ہونے کی مکمل طور پر ذمہ دار افغان طالبان حکومت ہے۔ افغان طالبان کالعدم ٹی ٹی پی کی تشکیلوں میں شامل ہوکر پاکستان آتے ہیں۔ افغان طالبان اس بات پر آ ہی نہیں رہے کہ پاکستان کیخلاف کارروائیاں بند ہوں۔ سفارتی کوششوں سے امید رہتی ہے اور ہمیشہ رہنی چاہئے۔ پاکستان کا واحد مطالبہ ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہ ہو۔ جب سے افغان طالبان حکومت آئی ہے انہوں نے ٹی ٹی پی کو سپورٹ کیا۔ افغان وزیر خارجہ نے دہلی میں بیٹھ کر کس حیثیت میں کشمیر پر بیان دیا۔ اب حملہ ہوا تو پاکستان شواہد دے گا اور بھرپور جواب بھی دیا جائے گا۔ دہشتگردوں کیخلاف تحریری یقین دہانی نہ دینا کیا منافقت نہیں ہے۔ مشیر وزیراعظم برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کہا ہے کہ وزیراعلیٰ  آفریدی اپنا لہجہ اور الفاظ درست کر لیں تو شاید مشکلات حل ہو جائیں۔ انہوں نے ہائیکورٹ میں درخواست دی تو عدالت نے ان کی ملاقات میں آرڈر ہی نہیں کئے۔ عدالت  نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا کہ سی ایم سہیل آفریدی کی ملاقات کرائی جائے۔ وفاقی حکومت میں گورنر راج سے متعلق کوئی معاملہ زیر غور نہیں۔ بھارت کی فوج ہم سے پانچ گنا زیادہ ہے لیکن کامیاب حکمت عملی ہوتی ہے۔ افغانستان کی تسلی و تشفی کرا دی جائے گی۔ تسلی و تشفی ایک بار ہو چکی ہے، ایک دو بار پھر ہو گی تو مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے۔  افغانستان نے جارحیت کی تو بھارت کی طرح اسے بھی آرام آ جائے گا۔ افغانستان کے معاملے پر فیلڈ مارشل کے نکتہ نظر کی حمایت کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم
  • طالبان رجیم بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں،حافظ نعیم
  • پاکستان کو عوامی خدمت پر مبنی سول سروس نظام کی ضرورت ہے، احسن اقبال
  • پاکستانی قوم نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ کشمیری عوام کے شانہ بشانہ ہے، غلام محمد صفی
  • طالبان رجیم کا خاتمہ، پوری طاقت کی ضرورت نہیں: وزیر دفاع
  • افغانستان سے پاکستان کی ترقی ہضم نہیں ہوتی، عطا تارڑ
  • افغانستان سے پاکستان پر حملہ ہوا تو بھرپور جواب دیں گے، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ
  • پاکستان قونصلیٹ جدہ میں سردار طاہر محمود کی جدہ ایکسپو کے منیجنگ ڈائریکٹر ابراہیم بخش کھوسہ سے ملاقات
  • ٹی ٹی پی کے اہم رہنما حافظ گل بہادر کیا پاکستانی حملے میں مارے گئے؟