Jang News:
2025-10-30@01:27:06 GMT

افغانستان سے پاکستان کی ترقی ہضم نہیں ہوتی، عطا تارڑ

اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT

افغانستان سے پاکستان کی ترقی ہضم نہیں ہوتی، عطا تارڑ

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ افغانستان سے پاکستان کی ترقی ہضم نہیں ہوتی ہے۔ افغانستان کو اس پراکسی وار میں شکست دیں گے۔

جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کے دوران عطا تارڑ نے کہا کہ افغان شہری ہر ملک میں ویزا لے کر جاتے ہیں، کیا مسئلہ ہے کہ پاکستان یہ بغیر ویزا آتے ہیں۔

وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ ہمارا واحد مطالبہ ہے کہ افغان سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہو۔ ثبوت ہیں افغانستان کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہے، افغان طالبان رجیم نے آکر کالعدم ٹی ٹی پی کو مکمل سپورٹ کیا ہے، ان کی تشکیل میں افغان طالبان شامل ہوتے ہیں۔

عطا تارڑ نے کہا کہ طالبان رجیم اس نکتے پر نہیں آ رہی تھی کہ دہشت گردی بند کرائے، پاکستان کا حق ہے کہ اپنی دفاع میں جواب دے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جتنا صبر و تحمل کا مظاہرہ پاکستان نے کیا، کیا دوسرا ملک کرتا؟ 

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ پاکستان نے چار گنا بڑے دشمن کو دھول چٹائی، کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: عطا تارڑ نے کہا کہا کہ

پڑھیں:

افغان طالبان 3 حصوں میں تقسیم، یہ ٹی ٹی پی مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے: میجر جنرل (ر) انعام الحق

دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل (ر) انعام الحق نے کہا ہے کہ افغانستان میں قریبی مدت میں سیاسی و سماجی استحکام کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اور پاکستان کے ساتھ طالبان حکومت کے تعلقات ’دوستی سے زیادہ مجبوری‘ پر مبنی ہیں۔ ان کے مطابق کابل حکومت کے پاس نہ تو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خاتمے کی صلاحیت ہے اور نہ ہی اس کا کوئی سیاسی حل ہے۔

وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے میجر جنرل (ر) انعام الحق نے کہاکہ افغانستان کو سمجھنے کے لیے صرف جغرافیہ نہیں بلکہ اس کی تاریخ، قبائلی سماج اور پشتون ولی جیسے روایتی نظام کو سمجھنا ضروری ہے۔

ان کے مطابق افغانستان ’ایک پیچیدہ معاشرہ‘ ہے جس کے اندر مذہب، قبیلہ، تاریخ اور طاقت کی حرکیات ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، کسی ایک کو بھی الگ کرکے نہیں سمجھا جا سکتا۔

’احسان کا بوجھ قبول نہیں کیا جاتا‘

انہوں نے کہاکہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں کئی مستقل عوامل ہیں۔ مذہب، ثقافت، جغرافیہ اور تاریخی روابط لیکن ان کے ساتھ ساتھ کچھ تغیر پذیر مسائل بھی موجود ہیں جن میں ٹی ٹی پی، ڈیورنڈ لائن، سرحدی باڑ اور افغان مہاجرین کے معاملات نمایاں ہیں۔ یہی وہ نکات ہیں جو وقتاً فوقتاً دونوں ممالک کے درمیان تناؤ پیدا کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان معاشرے میں ایک تاریخی احساسِ برتری موجود ہے جو اس سوچ سے جنم لیتا ہے کہ ’افغان ہمیشہ آزاد رہے ہیں جبکہ برصغیر غلامی کا شکار رہا‘۔

انہوں نے وضاحت کی کہ پشتون ولی کا ایک بنیادی اصول خیگڑا (یا شیگڑا) ہے، یعنی اگر کوئی احسان کرے تو پشتون روایت کے مطابق فوری طور پر اس احسان کا جواب دے کر توازن قائم کیا جاتا ہے۔

’پاکستان نے جب افغانوں کی مدد کی تو افغانوں نے اسے احسان سمجھنے کے بجائے ایک عدم توازن کے طور پر لیا اور ردِعمل میں برابری کے لیے سخت رویہ اپنایا۔‘

’طالبان حکومت کے اندر تین بڑے طاقت کے مراکز موجود ہیں‘

انعام الحق کے مطابق طالبان حکومت کے اندر اس وقت تین بڑے طاقت کے مراکز موجود ہیں۔ قندھار گروپ (احمدزئی درانی)، حقانی نیٹ ورک اور کابل کی بیوروکریسی۔

انہوں نے کہاکہ قندھار گروپ زیادہ نظریاتی ہے، جبکہ حقانی نیٹ ورک نسبتاً عملی سوچ رکھتا ہے، تاہم طالبان حکومت ان دونوں کے درمیان ایک مجبوراً مفاہمت کے نتیجے میں قائم ہے۔

ان کے مطابق ٹی ٹی پی اس وقت حقانی نیٹ ورک کے اثر و رسوخ والے علاقوں میں موجود ہے، اور طالبان حکومت نہ تو انہیں نکالنے کی سیاسی مصلحت رکھتی ہے اور نہ ہی ان کے پاس فوجی قوت ہے۔

’ٹی ٹی پی طالبان کے لیے ایک ایسی ہڈی بن چکی ہے جسے نہ نگلا جا سکتا ہے نہ اُگلا، اگر طالبان انہیں نکالتے ہیں تو پاکستان ناراض ہوتا ہے، اگر رکھتے ہیں تو عالمی دباؤ بڑھتا ہے۔‘

’افغانستان کے لیے پاکستان اب بھی سب سے بڑا لازمی دروازہ ہے‘

انہوں نے کہاکہ افغانستان کے لیے پاکستان اب بھی سب سے بڑا لازمی دروازہ ہے، چاہے وہ تجارت ہو، تعلیم، صحت، یا سفری سہولتیں ہوں۔

’افغانستان کی معیشت اور روزمرہ زندگی کا بڑا حصہ پاکستان سے جڑا ہوا ہے، اس لیے کابل حکومت اسلام آباد سے مکمل دوری کا متحمل نہیں ہو سکتی۔‘

انہوں نے مزید کہاکہ لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں مقیم ہیں جنہوں نے معاشرتی اور ثقافتی سطح پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں، لیکن اب یہ معاملہ بھی سیاسی رنگ اختیار کر چکا ہے۔

افغانستان اور پاکستان کے درمیان جاری استنبول مذاکرات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ افغان وفد محدود مینڈیٹ کے ساتھ شریک ہے اور طالبان حکومت کے اندر طاقت کی تقسیم کے باعث کسی بڑے معاہدے کی امید نہیں۔

’افغان مذاکراتی وفد کو قندہار کی قیادت کی طرف سے مکمل خودمختاری حاصل نہیں‘

’افغان وفد کو قندہار کی قیادت کی طرف سے مکمل خودمختاری حاصل نہیں۔ یہ زیادہ تر داخلی طاقت کے توازن کا معاملہ ہے، نہ کہ بین الاقوامی پالیسی کا۔‘

انہوں نے مزید کہاکہ افغانستان میں غیر یقینی صورتحال آئندہ برسوں تک برقرار رہ سکتی ہے، اور طالبان حکومت کے اندرونی اختلافات اگر بڑھتے رہے تو علاقائی استحکام پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات فی الحال مجبوری کی بنیاد پر چل رہے ہیں، دوستی کی بنیاد پر نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews استنبول مذاکرات افغان طالبان انعام الحق پاک افغان تعلقات ٹی ٹی پی مسئلہ وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • افغان طالبان نے جارحیت دکھائی تو پی ٹی آئی پاکستان کیساتھ کھڑی ہوگی، بیرسٹر گوہر
  • افغانستان سے پاکستان پر حملہ ہوا تو بھرپور جواب دیں گے، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ
  • خواجہ آصف: سرحدی خلاف ورزی پر ہم جواب دینے سے نہیں ہچکچائیں گے
  • افغانستان کیساتھ مذاکرات ناکام، پاکستان کا دہشتگردوں اور انکےحامیوں کو ختم کرنےکیلئے کارروائیاں جاری رکھنے کا اعلا
  • استنبول: پاکستان، افغانستان مذاکرات بغیر کسی پیشرفت کے اختتام پذیر ہوگئے، عطا اللہ تارڑ
  • افغان طالبان 3 حصوں میں تقسیم، یہ ٹی ٹی پی مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے: میجر جنرل (ر) انعام الحق
  • پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں مذاکرات ناکام، عطا تارڑ
  • پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات ناکام ہوگئے، طالبان حکومت افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں دھکیلنا چاہتی ہے، عطاء تارڑ
  • انڈیا کی افغانستان سے دشمنی