—فائل فوٹو

وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کا کہنا ہے کہ ہم طالبان کو دوبارہ غاروں میں دھکیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ برادر ممالک کی درخواست پر پاکستان نے امن کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا، افغان حکام کے زہریلے بیانات طالبان کی بدنیت سوچ کو ظاہر کرتے ہیں۔

خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنی پوری طاقت استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اگر چاہیں تو تورا بورا کی شکست کے مناظر دہرائیں گے، افسوس طالبان حکومت افغانستان کو دوبارہ تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے تہران میں پاکستان اور افغانستان کے وزرائے داخلہ کی ملاقات طالبان کی ہٹ دھرمی، استنبول مذاکرات بے نتیجہ ختم، اسلام آباد پر آنکھ اٹھائی تو نکال دینگے، خواجہ آصف

وفاقی وزیر نے کہا کہ افغان طالبان صرف اپنے ناجائز اقتدار کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، افغان طالبان کی جنگی معیشت صرف تباہی اور خونریزی پر قائم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان اپنی کمزوری جانتے ہیں مگر جنگی نعرے لگا رہے ہیں، اگر طالبان حکومت افغانستان کو تباہ کرنا چاہتی ہے تو ہو جانے دیں۔ ’سلطنتوں کا قبرستان‘ صرف افغان عوام کی تباہی کا نشان ہے، افغانستان ہمیشہ سے سلطنتوں کے کھیل کا میدان رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کے جنگ پسند عناصر نے ہماری ہمت کو غلط سمجھا ہے، اگر وہ لڑنا چاہتے ہیں تو دنیا سب کچھ دیکھے گی، ان کی دھمکیاں صرف تماشا ہیں، حقیقت نہیں، ہم نے تمہاری دھوکا دہی بہت عرصہ برداشت کی ہے، اب مزید برداشت نہیں کریں گے، وقت بدل چکا ہے۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: افغان طالبان

پڑھیں:

طالبان اور افغان اولمپک کمیٹی مذاکرات؛ خواتین کھلاڑیوں کیلیے ممکنہ پیش رفت کی امید

اولپمک مقابلوں میں افغانستان کی خواتین کھلاڑیوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے آئی او سی کی رکن سمیرا اصغری میدان عمل میں آگئیں۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان کی انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی (IOC) کی رکن سمیرا اصغری نے طالبان حکام کے ساتھ جاری مذاکرات کو خوش آئند قرار دیا۔

انھوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات افغانستان کی خواتین کے بنیادی حقوق سے متعلق کسی مثبت تبدیلی کا سبب بن سکتے ہیں۔

سمیرا اصغری نے اس بات پر زور دیا کہ طالبان کو عالمی قبولیت چاہیے تو خواتین کے تعلیم اور کھیل کے حقوق تسلیم کرنا ہوں گے۔

انھوں نے مزید کہا کہ طالبان کو یہ حقیقت قبول کرنا ہوگی کہ عالمی سطح پر قبولیت اسی وقت ممکن ہے جب وہ خواتین کو تعلیم اور کھیل کے بنیادی حقوق دینے پر آمادہ ہوں۔

سمیرا اصفری کے بقول اگر پرائمری اسکولوں میں کھیلوں کی سرگرمیوں جیسی چھوٹی پیش رفت بھی ممکن ہو تو اسے ضرور اپنانا چاہیے۔

انھوں نے مزید کہا اس کا مطلب طالبان کی پابندیوں کو قبول کرنا نہیں ہوگا بلکہ یہ افغانستان کی لڑکیوں اور خواتین کو تنہا نہ چھوڑنے کی ایک کوشش ضرور ہے۔

سمیرا اصغر نے یاد دلایا کہ طالبان کے 1996 سے 2001 تک کے پہلے دورِ حکومت میں تعلیم سے محرومی نے ایک پوری نسل کو متاثر کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جب میں 12 سال کی تھی تو ایک 20 سالہ لڑکی میری کلاس میں بیٹھی تھی کیونکہ وہ پہلے تعلیم حاصل نہیں کرسکی تھی۔ وہ کھوئی ہوئی نسل کا حصہ تھی۔ میں چاہتی ہوں کہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔

سمیرا اصغری نے کہا کہ خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا خطرناک ضرور ہے مگر میں رابطے اور بات چیت پر یقین رکھتی ہوں۔ اس وقت طالبان افغانستان کی زمینی حقیقت ہیں اور ہم وقت ضائع نہیں کرسکتے۔

انھوں نے تسلیم کیا کہ ان حالات میں افغان خواتین کھلاڑیوں کی آواز بننا ایک مشکل ذمہ داری ہے مگر وہ خوفزدہ ہوئے بغیر اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

خیال رہے کہ افغانستان سے تعلق رکھنے والی تمام ہی خواتین کھلاڑی غیر ملکی فوجیوں کے انخلا اور طالبان کی حکومت کے آتے ہی بیرون ملک منتقل ہوگئی تھیں۔

اس لیے افغان خواتین کی ایتھلیٹ، فٹبال اور دیگر کی ٹیموں کو تشکیل دینا اس وقت ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔

البتہ یورپ اور آسٹریلیا میں رہنے والی کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم افغان وویمن یونائیٹڈ نے حال ہی میں فیفا کے عالمی مقابلے میں شرکت کی ہے۔

سمیرا اصغری کا کہنا ہے کہ یہ بیرونِ ملک کھلاڑیوں کے لیے پہلا قدم ہے۔ مجھے امید ہے فِیفا بھی طالبان کے ساتھ IOC کی بات چیت میں ہم آہنگی پیدا کرے گی۔

 

متعلقہ مضامین

  • ’ایک ہزار افغان علما کی منظور کردہ قرارداد خوش آئند مگر پاکستان تحریری ضمانت چاہتا ہے‘
  • افغانستان اور دہشت گردی
  • طالبان اور روس کے درمیان زرعی مصنوعات کی برآمدات میں توسیع کا معاہدہ
  • افغان طالبان کا ایران میں ہونے والے علاقائی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ
  • طالبان اور افغان اولمپک کمیٹی مذاکرات؛ خواتین کھلاڑیوں کیلیے ممکنہ پیش رفت کی امید
  • افغان علما اور طالبان حکومت کا بیرون ملک کارروائی کرنے والوں کو سخت پیغام، مضمحل فضا میں تازہ ہوا کا جھونکا
  • افغان سرزمین بیرونی عسکری سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں، طالبان وزیر خارجہ امیر خان متقی
  • افغانستان: عالمی دہشت گردوں کا ہیڈ کوارٹر
  • پاکستان اور افغان طالبان میں روایتی معنوں میں جنگ بندی نہیں، دفتر خارجہ
  • پاک افغان تجارتی کشیدگی، اصل مسئلہ سرحد نہیں، دہشتگردی ہے