ملا ضعیف کو پاکستان نہیں افغانستان نے امریکا کے حوالے کیا تھا‘سابق سربراہ آ ئی ایس آ ئی
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251029-08-23
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک )پاکستان کے سابق سربراہ آئی ایس آئی جنرل (ریٹائرڈ) احسان الحق نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کے سابق سفیر ملاعبدالسلام ضعیف کو امریکا کے حوالے پاکستان نے نہیں بلکہ ان کے اپنے ہم وطنوں نے کیا تھا۔ان کے بقول پاکستانی حکام نے کئی ماہ تک عبدالسلام ضعیف کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ اسلام آباد چھوڑ دیں تاکہ انہیں بعد میں پیش آنے والی صورتحال سے بچایا جا سکے۔جب اس حوالے سے عبدالسلام ضعیف سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے جنرل (ریٹائرڈ) احسان الحق کے بیان کو مسترد کر دیا۔پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر سیمینار اسلام آباد میں قائم خیبر مارگلہ فاؤنڈیشن نے منعقد کیا تھا، اس سیمینار میں گفتگو کرتے ہوئے جنرل (ر) احسان الحق نے یاد کیا کہ عبدالسلام ضعیف کو کہا گیا تھا کہ وہ اسلام آباد چھوڑ دیں، انہیں بتایا گیا تھا کہ اگر وہ نہیں مانے تو انہیں طورخم لے جا کر ملک بدر کر دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ جب انہیں ہیلی کاپٹر میں لے جایا جا رہا تھا تو ہمارے لوگوں نے ایک بار پھر کہا کہ اگر آپ رضامندی ظاہر کریں تو ہم آپ کو کسی اور جگہ اتار دیتے ہیں، سرحد پر ملک بدری کے لیے نہیں لے جاتے۔احسان الحق نے کہا کہ آخرکار انہیں طورخم سرحد پر لے جایا گیا اور کہا گیا کہ وہ سرحد پار کر جائیں، پاکستان نے انہیں امریکا کے حوالے نہیں کیا، جب وہ سرحد پار گئے تو افغان حکام نے انہیں گرفتار کر کے امریکیوں کے حوالے کر دیا، جس کے بعد انہیں گوانتاناموبے بھیج دیا گیا، پاکستان نے یہ کام نہیں کیا۔انہوں نے بتایا کہ تعلقات منقطع ہونے کے باوجود عبدالسلام ضعیف اسلام آباد میں سرکاری سفارتی رہائش گاہ میں رہائش پذیر رہے، جہاں غیر ملکی میڈیا کے نمائندے بھی اکثر موجود رہتے تھے۔انہوں نے بتایا کہ جب اکتوبر2001ء میں امریکا نے کابل پر بمباری شروع کی تو طالبان رہنما افغانستان چھوڑنے لگے، ان کا ارادہ پاکستان میں ’جلا وطن حکومت‘ بنانے کا تھا، جس کا سربراہ عبدالسلام ضعیف کو بنایا جانا تھا۔انہوں نے کہا کہ فیصلہ کیا گیا کہ ملا ضعیف سے کہا جائے کہ وہ پاکستان چھوڑ دیں، اْس وقت پاکستان میں 50 لاکھ افغان مقیم تھے لیکن ہم نے کسی ایک افغان کو بھی امریکا کے حوالے نہیں کیا۔جنرل (ر) احسان الحق نے بتایا کہ پاکستانی حکام نے عبدالسلام ضعیف کو مشورہ دیا کہ وہ کسی پناہ گزین کیمپ یا کسی عام جگہ منتقل ہوجائیں اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اسے بند کر دیں، یہ پیغام انہیں وزارتِ خارجہ اور دیگر متعلقہ اداروں کے ذریعے پہنچایا گیا تھا تاہم سابق آئی ایس آئی سربراہ کے مطابق اْس وقت کے افغان سفیر نے اسلام آباد چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگ کئی ماہ تک انہیں کہتے رہے کہ اسلام آباد سے منتقل ہو جائیں، دیگر ممالک بھی احتجاج کرتے تھے کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں، پاکستان نے افغان حکومت کو تسلیم کرنا ختم کر دیا ہے، پھر بھی وہ اسلام آباد میں بیٹھے رہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عبدالسلام ضعیف کو امریکا کے حوالے احسان الحق نے اسلام ا باد پاکستان نے نے کہا کہ انہوں نے کر دیا
پڑھیں:
پاکستان امن چاہتا ہے… مگر کن شرائط پر؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251212-03-7
پاکستان کا مؤقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا، نہ افغان عوام کے لیے کوئی نقصان دہ سوچ رکھتا ہے اور نہ ہی کابل کے اندرونی معاملات میں کسی تبدیلی کی خواہش رکھتا ہے۔ پاکستان کا واحد تقاضا اور بنیادی ترجیح صرف ایک ہے: سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کا خاتمہ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت نے حالیہ پریس کانفرنس میں ایک غیر معمولی طور پر واضح جملہ کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے مقابلے کے لیے کسی بھی قابل ِ عمل اور قابل ِ تصدیق بارڈر میکنزم پر ’’اوپن ٹو سجیشن‘‘ ہے۔ اس جملے کو معمولی سفارتی بیان سمجھنا غلط ہوگا۔ دراصل یہی وہ نقطہ ہے جہاں پاکستان نئے علاقائی سیکورٹی فن تعمیر (security architecture) کو تشکیل دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
افغانستان گزشتہ کئی دہائیوں سے صرف ایک ریاست نہیں بلکہ جنگ، نظریے، عسکریت، معیشت اور منشیات کی اسمگلنگ کے بیچ وہ خلا ہے جسے عالمی طاقتیں اور علاقائی قوتیں مختلف زاویوں سے دیکھتی اور برتتی آئی ہیں۔ آج صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ افغان سرزمین براہ راست یا بلاواسطہ تین بڑے خطرات کا مرکز بن گئی ہے: جنگ کی معیشت (وار اکانومی)، ٹرانس نیشنل ٹیررازم اور نارکوٹکس کا غیر قانونی اسپیکٹرم۔ یہ تینوں عناصر ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور انہی کے ذریعے دہشت گرد گروہوں کو مالی وسائل، افرادی قوت اور علاقائی رسائی حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں سینٹرل ایشیا اور روس کے مشترکہ فورمز میں جو اعلانات سامنے آئے، ان میں افغانستان سے جنگ، دہشت گردی اور منشیات کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ تینوں مطالبات دراصل ایک ہی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ افغان سرزمین محض ایک داخلی مسئلہ نہیں رہی بلکہ پورے خطے کے لیے ایک بڑھتا ہوا سیکورٹی چیلنج ہے۔
پاکستان گزشتہ برسوں میں بارہا یہ بتا چکا ہے کہ پاکستان کے اندر جو بڑے حملے ہوئے، ان کے روابط افغانستان میں موجود عناصر سے جڑے ہیں۔ اس کے جواب میں کابل کی ڈی فیکٹو حکومت یہ مؤقف اختیار کرتی رہی ہے کہ یہ وہ افراد ہیں جو پاکستان سے ہجرت کرکے افغانستان آئے اور افغانستان صرف ان کا میزبان ہے۔ بظاہر یہ مؤقف اخلاقی لبادہ اوڑھے ہوئے ہے، لیکن حقیقت میں یہ دلیل عالمی سیکورٹی اصولوں کے مطابق نہ قابل ِ قبول ہے اور نہ ہی قابل ِ عمل۔ کوئی بھی گروہ اگر کسی دوسرے ملک میں آکر تیسرے ملک میں دہشت گردی کرتا ہے تو وہ مہاجر نہیں بلکہ ایک سیکورٹی رسک ہے، جسے روکنا میزبان ریاست کی ذمے داری بنتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پاکستان ’ڈینائل موڈ‘ کو ناکافی قرار دیتا ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ ثبوت موجود ہیں، نیٹ ورکس traceable ہیں، اور جب تک قابل ِ تصدیق میکنزم نہ ہو، محض بیانات سیکورٹی خلا کو پورا نہیں کر سکتے۔
پاکستان اس وقت نہ جنگ کا خواہاں ہے، نہ کسی رِجیم چینج کا حامی، نہ افغان عوام کے خلاف کسی معاندانہ پالیسی کی طرف بڑھنا چاہتا ہے۔ اسی لیے پاکستان نے واضح کیا کہ اگر افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایسے کسی میکنزم کی ضرورت پیش آتی ہے جس میں تیسری قوت یا علاقائی شراکت دار کوئی کردار ادا کریں تو پاکستان اس کے لیے کھلا ہے۔ اس میں ترکیہ، قطر، ایران، روس یا سینٹرل ایشین ممالک کوئی بھی ایسے فارمولے کی تجویز پیش کریں جو دونوں ملکوں کے لیے قابل قبول ہو تو پاکستان اسے نہ صرف ماننے کو تیار ہے بلکہ اس کا خیر مقدم کرے گا۔ اس مؤقف کے پیچھے بنیادی بات یہی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے ہر ایسے راستے کی تلاش میں ہے جو جنگ کے بغیر، تصادم کے بغیر اور عوامی نقصان کے بغیر ممکن ہو۔
ایران کے قومی سلامتی مشیر کی وہ گفتگو بھی اسی تناظر میں اہم ہے جس میں انہوں نے عندیہ دیا کہ ایران خطے میں پاکستان کی سیکورٹی ضروریات کو سمجھتا ہے اور افغانستان یا بھارت کے ساتھ کسی ممکنہ کشیدگی کی صورت میں پاکستان کی درخواست پر کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ بھی ایک اہم اشارہ ہے کہ ایران بطور ریجنل سیکورٹی اسٹیک ہولڈر پاکستان کی پریشانیوں کو سنجیدگی سے دیکھ رہا ہے۔ اسی طرح ترکیہ اور قطر بھی ماضی میں طالبان اور عالمی برادری کے درمیان مکالمے کو آسان بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ روس اور سینٹرل ایشیائی ریاستوں نے تاجکستان پر ہونے والے حملے کے بعد اپنی تشویش اور زیادہ کھل کر ظاہر کی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹرانس نیشنل ٹیررازم اب صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں رہا۔
بھارت کی ہائبرڈ وار پالیسی اور ’پلیزبل ڈینائیبیلٹی‘ کا ماڈل بھی اس خطے کے سیکورٹی توازن کا حصّہ ہے۔ طالبان کی کابل واپسی کے فوراً بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت بھارت کے پاس تھی، اور اس عرصے میں بھارت نے افغانستان کے معاملے کو اپنی سفارتی حکمت ِ عملی کے مطابق استعمال کیا۔ اسی دوران کینیڈا میں سکھ رہنما نجر سنگھ کا قتل، امریکا میں گروپرب سنگھ کے خلاف مبینہ سازش، اور گینگز کے استعمال کے الزامات بھی سامنے آئے، جو بھارت کی بیرونِ ملک covert operations کے نیٹ ورک کو ایک بڑے علاقائی تناظر میں رکھ دیتے ہیں۔ پاکستان کے لیے چیلنج یہ ہے کہ وہ ان تمام عوامل کو ایک مربوط کیس کے طور پر عالمی سطح پر پیش کرے، بغیر کسی اوور اسٹیٹمنٹ کے، تاکہ پاکستان کے مؤقف کی credibility مضبوط ہو۔
امریکا اور مغرب کے حالیہ بیانات میں ایک بار پھر یہ تاثر ابھرتا ہے کہ افغانستان سے منتقل ہونے والے کچھ افراد سیکورٹی رسک بنے، جس کے بعد سابق امریکی قیادت کی طرف سے ’’ری اسیسمنٹ‘‘ اور ’’ڈی پورٹیشن‘‘ جیسے الفاظ استعمال ہوئے۔ یہ بیانیہ اگرچہ امیگریشن ڈیبیٹ کا حصہ ہے، مگر اس کے اثرات براہِ راست افغانستان اور پاکستان پر پڑتے ہیں، کیونکہ اس سے عالمی سطح پر افغانستان مزید تنہا ہوتا ہے اور دہشت گرد گروہوں کے لیے نئی جگہیں بننے لگتی ہیں۔
پاکستان اس وقت جس مقام پر کھڑا ہے وہ نہایت نازک ہے: ایک جانب سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی، دوسری طرف افغان عوام کے ساتھ تاریخی تعلق، تیسری جانب ریجنل اور گلوبل قوتوں کے اپنے مفادات، اور چوتھی جانب افغانستان کا وہ داخلی خلا جسے کوئی بھرنے والا نہیں۔ پاکستان کا ’’اوپن ٹو سجیشن‘‘ مؤقف دراصل یہی بتاتا ہے کہ پاکستان کسی تصادم کا خواہاں نہیں بلکہ مشترکہ سیکورٹی انتظام کی تلاش میں ہے، ایسا انتظام جو جنگ کے بغیر دہشت گردی کے خاتمے کا راستہ فراہم کرسکے۔
پاکستان اس وقت صرف ایک سرحدی ریاست کا کردار نہیں رکھتا بلکہ خطے کی ایک اہم اسٹرٹیجک طاقت کے طور پر ابھرا ہے۔ سعودی عرب، مصر، قطر اور دیگر ممالک کے ساتھ اس کی حالیہ دفاعی اور سیکورٹی شراکت داریاں، اس کی ایٹمی صلاحیت، اس کی عسکری قوت، اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ اس کی اقتصادی و سلامتی بنیاد پر جڑی ہوئی پالیسی یہ سب عوامل پاکستان کو خطے کے کسی بھی بحران میں ایک ناگزیر اسٹیک ہولڈر بنا دیتے ہیں۔ اسی لیے افغانستان سے اٹھنے والی دہشت گردی نہ صرف پاکستان کے داخلی استحکام کو متاثر کرتی ہے بلکہ اس کے اثرات براہِ راست خلیجی ممالک، مشرق وسطیٰ کی اقتصادی راہداریوں، اور ریجنل سیکورٹی نظاموں تک جاتے ہیں۔
ایسے میں سوال یہ نہیں کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ کیا کرے گا، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا خطے کی ریاستیں پاکستان کے سیکورٹی خدشات کو وہی وزن دینے کے لیے تیار ہیں جو وہ پاکستان کی عسکری، ایٹمی اور جغرافیائی اہمیت کی بنیاد پر دینے کی پابند بھی ہیں؟
سیف اللہ
رمیصاء عبدالمھیمن