افغانستان دہشت گردوں کو پاکستان پر حملوں سے نہیں روک سکتا تو کیسا بھائی چارہ، طاہر اشرفی
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
چیئرمیں پاکستان علما کونسل حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ افغان طالبان بظاہر ایک امارت کے تحت متحد نظر آتے ہیں، مگر حقیقت میں وہ کئی گروہوں میں تقسیم ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر افغانستان اپنی سرزمین سے پاکستان مخالف کارروائیوں کو روکنے میں ناکام رہتا ہے تو پاکستان کے پاس دفاع کے تمام قانونی اور آئینی اختیارات موجود ہیں۔
وی نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ امارتِ اسلامیہ افغانستان کے امیر ملا ہیبت اللہ کی ہدایات کے باوجود درجنوں افغان شہری پاکستان میں خودکش حملوں میں ملوث پائے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: مسئلہ کشمیر اور فلسطین کو مذاکرات کی میز پر حل کرنا ہوگا، علامہ طاہر اشرفی
’۔۔۔جو اس بات کی علامت ہے کہ طالبان کی صفوں میں مکمل نظم و ضبط موجود نہیں۔‘
حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ اگر افغان حکومت دہشت گردوں کو اپنے علاقوں سے نکالنے اور انہیں پاکستان پر حملوں سے روکنے میں ناکام ہے تو یہ کیسا برادرانہ تعلق ہے کہ ہمارے بچے روز شہید ہوں اور ہم خاموش رہیں۔
حافظ اشرفی نے استنبول میں جاری پاک افغان مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ اگر افغان وفد واقعی سنجیدہ ہوتا تو معاملہ سیدھا ہو جاتا۔
مزید پڑھیں: زلمے خلیل زاد کا دورہ، افغانستان اور امریکا تعلقات میں بہتری کا اشارہ، اب پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟
ان کے مطابق جب کسی مسئلے کو طوالت دینی ہوتی ہے تو پھر امریکا، اقوامِ متحدہ اور دیگر طاقتوں کو بیچ میں لانے کی بات کی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے اندر ایک گروہ پاکستان سے تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے، مگر دوسرا شدت پسند طبقہ ان کوششوں کو ناکام بنانے پر تُلا ہوا ہے۔
امیر خان متقی کے حالیہ بھارت دورے پر تنقید کرتے ہوئے حافظ اشرفی نے کہا کہ انہیں افسوس ہوا کہ وہ انہی لوگوں کے ساتھ بیٹھے جو بامیان کے بدھ مجسموں کے مقام پر ان کی توہین کر چکے ہیں۔
مزید پڑھیں: افغانستان کو بھارت میں بیٹھ کر کی گئی کسی بھی اشتعال انگیزی کا سامنا کرنا ہوگا، طاہر اشرفی
انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ بھارت آج بھی افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے اور یہ صورتحال اشرف غنی اور کرزئی کے ادوار سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
حافظ اشرفی نے واضح کیا کہ پاکستان کو افغانستان کی ایک انچ زمین کی خواہش نہیں، مگر اگر ہماری سرزمین پر حملے جاری رہے تو جواب دینا ہمارا حق ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد میں سب سے زیادہ قربانیاں دی تھیں، اور اگر اُس وقت پاکستان نے ساتھ نہ دیا ہوتا تو ممکن ہے آج افغانستان نام کا ملک موجود نہ ہوتا۔
مزید پڑھیں: بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر کارروائی کی جائے، طاہر اشرفی کا مطالبہ
’۔۔۔اس کے باوجود ہم افغانوں کو آج بھی بھائی سمجھتے ہیں، مگر دوستی یک طرفہ نہیں ہو سکتی۔‘
غزہ کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے حافظ اشرفی نے کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی غزہ میں امن قائم کرنے والی افواج کے طور پر شمولیت کے حامی ہیں۔
انہوں نے اس تاثر کی تردید کی کہ پاکستان کی فوج حماس کے خلاف کارروائی کرے گی، ان کے بقول یہ پروپیگنڈا ایسی قوتوں کا ہے جو نہیں چاہتیں کہ پاکستانی فوج وہاں جائے، دنیا جانتی ہے کہ پاکستانی فوج ایمان، تقویٰ اور حرمین کے دفاع کی بنیاد رکھتی ہے۔
’اگر پاکستان، سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک کی افواج غزہ میں تعمیر نو اور سیکیورٹی کے لیے جائیں تو یہ امت مسلمہ کے لیے باعثِ فخر ہو گا۔‘
مزید پڑھیں: مسلم سربراہان کے اصرار پر غزہ مسئلے کا حل نکلا، پورے معاملے میں سعودی عرب اور پاکستان کا کردار کلیدی تھا، حافظ طاہر اشرفی
وزیرِ اعظم شہباز شریف کے سعودی عرب کے حالیہ دورے اور سرمایہ کاری کے امکانات کے حوالے سے حافظ اشرفی نے کہا کہ ولی عہد محمد بن سلمان کا وژن واضح ہے؛ ایڈ نہیں، ٹریڈ۔
’سعودی قیادت پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم دیکھنا چاہتی ہے، مگر اگر ہم خود صرف کاغذی کارروائیوں اور فائلوں میں وقت ضائع کرتے رہے تو سرمایہ کاری نہیں آئے گی۔‘
انہوں نے امید ظاہر کی کہ سعودی سرمایہ کاری فنڈ اور حکومتی ٹیم کی موجودہ کوششیں پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کا نیا باب کھولیں گی۔
مزید پڑھیں: افغانوں کو اپنی آدھی روٹی دی لیکن بدلے میں کلاشنکوف اور خودکش کلچر ملا، علامہ طاہر اشرفی
ملک میں مذہبی تشدد اور جماعتوں پر پابندی کے حوالے سے حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ پاکستان کو ایک واضح اور مستقل پالیسی اپنانا ہوگی، ان کے الفاظ تھے کہ ہم بار بار پابندیاں لگاتے اور اٹھاتے رہتے ہیں، مگر مستقل حکمتِ عملی کا فقدان ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ریاست کے قانون کو چیلنج کرتا ہے تو وہی اصل متشدد ہے، محض نمازی یا روزہ دار ہونا کسی کو تشدد کی اجازت نہیں دیتا۔
حافظ اشرفی نے خبردار کیا کہ پاکستان کو اندرونی عدم استحکام کی کوششیں تیز ہو رہی ہیں۔ ایک طرف افغان محاذ گرم کیا جا رہا ہے اور اب داخلی محاذ کو مذہبی تصادم کے ذریعے بھڑکانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
مزید پڑھیں: کسی گروہ کو جہاد کا اعلان کرنے کا حق نہیں، جسے شوق ہے فوج جوائن کرے، طاہر اشرفی
انہوں نے کہا کہ اعتدال پسند طبقات کو آگے آنا ہوگا اور حکومت کو تمام شدت پسند تنظیموں کے خلاف ایک جامع پالیسی وضع کرنی چاہیے۔
آخر میں حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ امن، بھائی چارے اور امتِ مسلمہ کی یکجہتی کے لیے قربانیاں دی ہیں، ہم کسی ملک کے دشمن نہیں، مگر اپنے دفاع سے غافل بھی نہیں۔
’اگر ہم امن چاہتے ہیں تو ہمیں امن کے تقاضوں پر بھی عمل کرنا ہو گا۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی اختیارات اشرف غنی افغان جہاد افغان طالبان افغان محاذ افغانستان امت مسلمہ پاکستان علما کونسل حافظ طاہر محمود اشرفی حماس سرمایہ کاری سعودی عرب سوویت یونین غزہ کرزئی مذہبی تشدد ملا ہیبت اللہ ولی عہد محمد بن سلمان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آئینی اختیارات افغان جہاد افغان طالبان افغان محاذ افغانستان پاکستان علما کونسل حافظ طاہر محمود اشرفی سرمایہ کاری سوویت یونین ملا ہیبت اللہ ولی عہد محمد بن سلمان حافظ طاہر اشرفی اشرفی نے کہا کہ حافظ اشرفی نے سرمایہ کاری کہ پاکستان مزید پڑھیں پاکستان کو انہوں نے کے خلاف کہ اگر کے لیے
پڑھیں:
کیا اسرائیل نئے و شدید تر حملوں کا مقابلہ کر سکتا ہے؟ اماراتی میڈیا کا سوال
معروف اماراتی ای مجلے کا لکھنا ہے کہ ایرانی میزائل حملوں کی تابڑ توڑ لہروں کے 4 ماہ گزر جانیکے بعد بھی اسرائیل کے اہم انفراسٹرکچر پر "وسیع تباہی کے اثرات" واضح ہیں اور تل ابیب اس نقصان کی تلافی کرنے میں تاحال ناکام رہا ہے اسلام ٹائمز۔ معروف اماراتی ای مجلے ارم نیوز نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 12 روزہ جنگ کے خاتمے کو 4 ماہ گزر جانے کے باوجود تابڑ توڑ ایرانی میزائل حملوں کا سایہ اب بھی اسرائیل کے بنیادی انفرا اسٹرکچر پر موجود ہے۔ اماراتی ای مجلے کے مطابق جہاں اب تک صیہونی رژیم کے بہت سے اہم اداروں تک میں "وسیع تباہی" کے آثار ختم نہیں ہوئے وہیں اسرائیلی بنیادی ڈھانچے کا ایک قابل قدر حصہ بھی ابھی تک مفلوج ہے۔ ارم نیوز کا لکھنا ہے کہ "تیز ترین تعمیر نو" کے سیاسی وعدوں اور فلک شگاف نعروں کے باوجود، حقیقت بالکل مختلف ہے جیسا کہ نہ صرف فنڈنگ میں مسلسل تاخیر ہو رہی ہے اور تعمیری اقدامات انتہائی سست روی کا شکار ہیں بلکہ گوناگوں بحرانوں سے نمٹنے کے لئے صیہونی کابینہ کی جانب سے انجام دی جانے والی منصوبہ بندی بھی ناکافی ہے!
اماراتی ویب سائٹ کے مطابق اسرائیل کے سرکاری بیانات اور "اہم ریاستی اداروں کے تحفظ کی حقیقی صلاحیت" کے درمیان بہت بڑا فرق پایا جاتا ہے کہ جو اسرائیل کو مستقبل قریب میں ہی مزید گہرے بحرانوں سے دوچار کر سکتا ہے۔ ارم نیوز کے مطابق ان بحران نے اسرائیلی کابینہ میں موجود ڈھانچہ جاتی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا ہے جن کے باعث فوری منصوبہ بندی، لا متناہی تاخیر کا شکار اور وعدے وعید صرف الفاظ بن کر رہ گئے ہیں۔ ارم نیوز کا مزید لکھنا ہے کہ گذشتہ جنگ کے خاتمے کو 4 ماہ گزر جانے کے باوجود بھی صیہونی رژیم کے بنیادی ڈھانچے پر موجود ایرانی حملے کے وسیع اثرات کے تناظر میں بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل اس سے شدید تر حملوں کی نئی لہر کا مقابلہ بھی کر سکتا ہے یا اس صورت میں، صیہونی رژیم کا پورے کا پورا نظام ہی تباہی کے خطرے سے دوچار ہے؟