Jasarat News:
2025-07-06@13:12:20 GMT

حق کی تلوار اور ظلم کا تخت

اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

انسانی تاریخ میں کچھ ایسے نام بھی ہیں جنہوں نے اپنے کردار، قربانی، فضیلت اور غیر متزلزل اصولوں کی بدولت ایسا ابدی مقام حاصل کیا ہے کہ ان کی بازگشت صرف وقت کے گزرنے سے نہیں بلکہ انسانیت کے ضمیر میں گہرائی تک سنائی دیتی ہے۔ ان نادر اور عظیم ہستیوں میں سیدنا امام حسینؓ کا نام نمایاں ہے، جو نبی کریمؐ کے پیارے نواسے ہیں۔ ان کا نام نہ صرف تاریخ ِ اسلام کے اوراق پر سنہری حروف میں لکھا گیا ہے بلکہ انسانیت کے ضمیر پر سچائی، مزاحمت اور اخلاقی جرأت کی علامت کے طور پر نقش ہو چکا ہے۔ سیدنا امام حسینؓ کی قربانی کربلا کا واقعہ صرف تاریخ کا ایک باب نہیں بلکہ یہ ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کی ایک لازوال گواہی ہے، جو زندگی کی قربانی دے کر بھی سچائی پر قائم رہنے کا درس دیتی ہے۔ آپ نے یزید کی ظالمانہ حکومت کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا، نہ ہی وقتی مصلحتوں کو اپنے اخلاقی نظریے پر حاوی ہونے دیا۔ آپ کا موقف کسی اقتدار یا دنیاوی خواہش کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک مقدس امانت کا تقاضا تھا۔ حق کا علم بلند رکھنا، اپنے نانا سیدنا محمدؐ کی میراث کا تحفظ کرنا اور اسلام کو ایک ظالم حکمران کے ہاتھوں مسخ ہونے سے بچانا۔ جب ہر طرف سے ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور تمام وسائل ختم ہو گئے، تب بھی سیدنا امام حسینؓ نے خوف کے آگے جھکنے کے بجائے سر بلند کیا۔ اسی استقامت کے صلے میں آپؓ کو شہادت کا عظیم رتبہ اور دائمی عزت نصیب ہوئی۔ قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے: ’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ہیں، ان کو مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ اپنے ربّ کے پاس زندہ ہیں، رزق دیے جا رہے ہیں‘‘۔ (سورہ آلِ عمران، 169)

یہ آیت سیدنا امام حسینؓ اور اْن کے ساتھیوں کی شہادت کو موت نہیں بلکہ ایک مقدس بلندی، ایک روحانی عروج قرار دیتی ہے۔ یہ شہادت ایک افسوسناک انجام نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں جاں نثاری کا ابدی اعزاز ہے۔ سیدنا امام حسینؓ کا لہو جو کربلا کی ریت پر بہا، وہ ہرگز رائیگاں نہیں گیا۔ یہ لہو ضمیر کی فتح، عزت کی سر بلندی اور ظلم کے مقابل ڈٹ جانے کی عظیم علامت بن گیا۔ اگرچہ اْس المناک دن کو صدیاں بیت چکی ہیں، مگر کربلا آج بھی زندہ ہے۔ مایوسی کی داستان کے طور پر نہیں، بلکہ ظلم کے خلاف جرأت کی ایک بلند نشان کے طور پر۔

نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’سب سے بہترین جہاد وہ ہے جو ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہی جائے‘‘۔ اور اس قولِ مبارک کی سب سے روشن مثال کوئی ہے تو وہ سیدنا امام حسینؓ ہی ہیں۔ آپؓ کے پیارے نواسے، جنہوں نے سچائی کو جان سے عزیز رکھا۔ ظلم و جبر کے طریقے وقت کے ساتھ بدلتے رہے ہیں، مگر ان کا اصل چہرہ ہمیشہ ایک ہی رہا ہے۔ حالیہ دور میں، غزہ میں معصوم بچوں کا قتل ِ عام، کشمیر میں جاری بے رحمانہ ظلم، افغانستان اور شام میں عزتِ انسانی کا انکار اور روہنگیا مسلمانوں کا نسل کشی سے بچ کر دربدر ہونا، یہ سب کربلا کی روح کی بازگشت ہیں۔ تاریخ آج بھی یزیدیت کے نئے چہروں کی گواہی دیتی ہے۔ تاہم، سیدنا حسینؓ کا پیغام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے۔

ہر سال جب محرم کا مقدس مہینہ لوٹتا ہے، تو دنیا بھر کے مسلمان یومِ عاشورہ کو مایوسی یا بے بسی کے ساتھ نہیں، بلکہ ایک نئے عزم اور تجدید ِ وفا کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ یہ آنسو صرف غم نہیں ہوتے، یہ وفاداری کی علامت ہوتے ہیں۔ یہ دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ حسینؓ آج بھی زندہ ہیں۔ ہر اْس دل میں جو ظلم کے آگے جھکنے سے انکار کرتا ہے، ہر اْس روح میں جو اصول کو غلامی پر ترجیح دیتی ہے۔ حسینیت کی یہ روح نہ سرحدوں کی محتاج ہے، نہ مسلک کی، نہ زبان کی۔ یہ صرف شیعہ یا سنی، عرب یا عجم تک محدود نہیں۔ یہ ہر اْس جگہ زندہ ہے جہاں ظلم کے خلاف آواز بلند کی جاتی ہے۔ چاہے وہ فلسطینی بچے کی جرأت ہو، کشمیری ماں کی دعا ہو، یا کسی بھی مظلوم کی وہ پکار جو اقتدار کے ایوانوں کے سامنے حق کی بات کہنے کی جرأت رکھتی ہے۔ سیدنا امام حسینؓ کا پیغام اْن سب کے اندر سانس لیتا ہے۔ وہ ماضی کی کوئی داستان نہیں، بلکہ ہر عدل و انصاف کی جدوجہد میں ایک زندہ و متحرک قوت ہیں۔ اور ایسے مواقع پر جو لوگ سچ کا ساتھ نہیں دیتے، مظلوموں کی حمایت نہیں کرتے، اور خاموش رہتے ہیں، وہ درحقیقت یزیدیت کے حامی شمار ہوتے ہیں۔ ظلم کے مقابلے میں غیر جانب داری، معصومیت نہیں بلکہ شراکتِ جرم ہے۔ جو حسینؓ کے ساتھ کھڑا ہونے سے انکار کرتا ہے، وہ یزید کے پہلو میں کھڑا ہوتا ہے۔ ظلم پر خاموشی خود ایک قسم کی غداری ہے۔ ہر اْس یزید کے مقابلے میں، جو خوف کے ذریعے سچ کو دبانا چاہتا ہے، وہاں ایک حسینؓ ضرور اْٹھے گا جو ایمان سے جواب دے گا۔ ہر اْس نظام کے مقابلے میں جو جھوٹ اور جبر پر قائم ہو، ایک ایسی آواز ضرور بلند ہوگی جو سمجھوتے کی خاموشی کے بجائے قربانی کی تلوار کو چن لے گی۔

حسینیت اور یزیدیت کی جاری اس جنگ میں غیر جانب داری دراصل شریک ِ جرم ہونا ہے۔ ہر انسان کو فیصلہ کرنا ہے۔ ایک باعزت زندگی کا، چاہے وہ میدانِ جنگ میں ختم ہو جائے، یا ایک آرام دہ زندگی کا جو ظلم کے قدموں میں زنجیروں سے بندھی ہو۔ سیدنا امام حسینؓ نے عزت کا راستہ چْنا، اور اس انتخاب کے ذریعے اْنہوں نے ہر اس شخص کے لیے راستہ روشن کر دیا جو وقار اور غیرت کے ساتھ جینا چاہتا ہے۔ روحِ کربلا ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ایک شخص کا انکار بھی تاریخ کا رخ بدل سکتا ہے۔ یہ کہ سچ جب جرأت سے جْڑ جائے تو تمام ظالموں سے زیادہ دیرپا ثابت ہوتا ہے۔ یہ جنگ کربلا میں ختم نہیں ہوئی تھی۔ یہ ہر اْس سرزمین میں جاری ہے جہاں ظلم پنپ رہا ہو۔ لیکن جب تک دل سچائی کے لیے دھڑکتے رہیں گے، جب تک مظلوم سر اْٹھاتے رہیں گے، اور جب تک انسانیت بزدلی کے بجائے اخلاقی بصیرت کو چنے گی۔ سیدنا امام حسینؓ کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ غم کا نام نہیں بلکہ مزاحمت کا عَلَم بن کر۔ دکھ کی یاد نہیں بلکہ انصاف کا وعدہ بن کر۔ اور ایک شہید کے طور پر نہیں جو گر گیا ہو، بلکہ ایک ایسی روح کے طور پر جو ہمیشہ کے لیے بلند ہو چکی ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: نہیں بلکہ کے طور پر دیتی ہے کے ساتھ ا ج بھی کا نام ظلم کے کہ ایک

پڑھیں:

محرم الحرام ہمیں ظالم کیخلاف جدوجہد کا درس دیتا ہے، جماعت اسلامی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سکھر (نمائندہ جسارت) جماعت اسلامی صوبہ سندھ کے ڈپٹی سیکریٹری مولانا حزب اللہ جکھرو نے کہا ھے کہ محرم الحرام ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنے فروعی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر اتحاد و اتفاق، صبر و استقامت، اور ظالم کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا عہد کریں، دارلعلوم تفھیم القرآن سکھر میں اجتماع اور کنڈیارو میں شھادت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کانفرنس سے خطاب کرتے ھوئے. انہوں نے کہا کہ عصرِ حاضر کی کربلا میں حق و باطلآمنے سامنے ہیں، مسلم حکمرانوں کے دل غزہ اور امام حسین ؓ کے ساتھ اور ان کی تلواریں اسرائیل و امریکا کے ساتھ ہیں، مولانا حزب اللہ جکھرو نے کہا کہ نواسہﷺ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے انبیائے کرام حضرت ابراہیم و موسیٰ علیہما السلام کی سنت پر چلتے ہوئے وقت کے فرعون، نمرود اور یزید کو للکارا اور ظلم کے خلاف علمِ حق بلند کیا۔جس کی مثال تاریخِ انسانیت میں نہیں ملتی۔انہوں نے کہا کہ اہلِ حق کبھی تعداد کی قلت یا کثرت سے مرعوب نہیں ہوتے، بلکہ عشقِ خدا میں سب کچھ قربان کرنے کے جذبہ میں وہ ہر دور کے ظالموں اور جابروں سے ٹکرا جاتے ہیں۔ انبیاء کرام علیھم السلام کی تاریخ اس حقیقت سے بھری پڑی ہے کہ حق کے علمبرداروں نے خدا کی راہ میں جیل، اذیت اور شہادت جیسی سختیوں کو خندہ پیشانی سے قبول کیا۔آج جب امتِ مسلمہ دنیا بھر میں آزمائش، جارحیت اور فرقہ واریت کا شکار ہے، محرم الحرام ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنے فروعی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر اتحاد و اتفاق، صبر و استقامت، اور ظالم کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا عہد کریں۔ انہوں نے کہا کہ کربلا نے سکھایا کہ ظلم چاہے کسی بھی شکل میں ہو، اس کے خلاف ا?واز بلند کرنا ایمان کا تقاضا ہے۔ اور یہ بھی کہ ملت کی بقا، وحدت اور باہمی احترام میں مضمر ہے۔ دشمنانِ اسلام امت کو کمزور کرنے کے لیے ہمیں فرقہ واریت، لسانیت اور تعصب میں الجھانا چاہتے ہیں، مگر امام حسین? کا پیغام ہے کہ امت کی طاقت اْس کے اتحاد میں ہے۔انہوں نے کہا کہ کربلا صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ ہر دور کے ظالم و مظلوم کے درمیان ایک روشن معیار ہے۔عوام آج کے یزودوں کے خلاف میدان میں نکلے اور انھیں وؤٹ نہ دے۔جنھوں نے عوام کو مھنگائی اور ظلم کی چکی میں ڈالا ھے،حسینی کردار اداکرنے والے قوم کے حقیقی نمائندے ھیں ،انہوں نے کھا کہ محرم چند رسومات کا نام نھیں بلکہ یزیدی اور فرعونی نظام کے تبدیلی کا نام ھے،جماعت اسلامی اللہ کی دھرتی پر اللہ کے نظام کے نفاذ کی جدوجھد کررھی ھے قوم اسکا ساتھ دے۔

متعلقہ مضامین

  • 86 سالہ جوان کے ہاتھوں میں لہو کی تلوار
  • یوم عاشور ہمیں حق، صبر و قربانی اور استقامت کا درس دیتا ہے، شاداب رضا نقشبندی
  • ہمیں بطور قوم حسینی کردار کی سخت ضرورت ہے، صدر مملکت
  • محرم الحرام ہمیں ظالم کیخلاف جدوجہد کا درس دیتا ہے، جماعت اسلامی
  • ماہِ محرم الحرام
  • شہادت امام حسینؓ
  • دوحہ کا وعدہ اور خوارج کی تلوار
  • حسینؓ سب کے ،حسینؓ ہمارے ،بڑے پیارے
  • واقعہ کربلا حق پر ڈٹ جانے کا درس دیتا ہے: علامہ راغب حسین نعیمی