نیتن یاہو کے حکم کے بعد اسرائیلی طیاروں کے غزہ پر حملے
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251029-01-30
غزہ /تل ابیب /عمان /اسلام آباد / نئی دہلی (مانیٹرنگ ڈیسک/صباح نیوز)اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کے حکم کے بعد اسرائیلی طیاروں نے غزہ شہر پر فضائی حملے شروع کر دیے۔خبر ایجنسی کے مطابق اسرائیل نے شمالی غزہ کے اسپتال کے قریب حملہ کیا ۔الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ شہر کے مختلف مقامات پر حملے کیے ہیں۔ ایک میزائل الشفا اسپتال کے پیچھے گرا۔ حملے نے اسپتال کے اندر مریضوں اور طبی عملے میں شدید خوف و ہراس اور افراتفری پیدا کر دی۔ عینی شاہدین نے اس حملے کو بہت بڑا اور خوفناک قرار دیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ منگل کو جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں اسرائیلی فوجیوں پر حملہ ہوا۔حماس نے نیتن یاہو کی جانب سے فوج کو غزہ پر حملوں کے حکم کے بعد دوسری لاش واپس کرنے کا عمل معطل کردیا۔ اسرائیل کے مطابق حماس نے اب تک غزہ میں موجود 13 قیدیوں کی لاشیں واپس نہیں کیں۔حماس کا کہنا ہے کہ اسے اس عمل کے لیے زمینی امداد، ماہر ٹیموں اور بھاری مشینری کی ضرورت ہے۔ ثالثوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی اور امریکی صدر ٹرمپ کو معلوم تھا کہ غزہ میں لاکھوں ٹن ملبے کے نیچے دفن تمام قیدیوں کی لاشوں کو نکالنا ایک انتہائی مشکل کام ہے۔حماس نے کہا کہ وہ امریکا، مصر، قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے پر قائم ہے، تاہم اسے اب بھی دو سالہ جنگ سے پیدا ہونے والے ملبے تلے دفن باقیات کو تلاش کرنے کے لیے مدد درکار ہے۔سی این این کی رپورٹ کے مطابق نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق اسرائیل نے کہا کہ پیر کو حماس کی جانب سے حوالے کیے گئے تابوت میں کسی دوسرے ہلاک ہونے والے یرغمالی کی لاش نہیں تھی۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ فرانزک ٹیسٹوں سے معلوم ہوا کہ تابوت میں موجود باقیات اوفیر تزارفاتی کی تھیں، جس کی لاش اسرائیلی افواج کو 2023ء کے آخر میں ملی تھی اور یہ باقیات غزہ میں موجود 13 ہلاک یرغمالیوں میں سے کسی کی نہیں تھیں۔ سی این این کے مطابق حماس نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل غزہ میں ’نئے حملے کرنے کی تیاری کے لیے جھوٹے بہانے گھڑنے‘ کی کوشش کر رہا ہے۔جنگ بندی معاہدے کے باوجود اسرائیل کے سر پر جنگ کا جنون سوار ہے، اسرائیلی آرمی چیف نے فلسطینی مزاحمتی تنظیم کے خلاف جنگ ختم نہ کرنے کا اعلان کردیا۔ اسرائیلی فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال ضمیر نے کہا ہے کہ غزہ میں حماس کے خلاف جنگ اُس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک آخری مغوی کی لاش واپس نہیں لائی جاتی۔ قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق جنوبی غزہ کے شہر خان یونس کے قریب ایک اسرائیلی حملے میں کم از کم 2 فلسطینی شہید ہوگئے۔حماس نے ایک اور اسرائیلی قیدی کی لاش حوالے کر دی ہے، جب کہ اسرائیل کی جانب سے اس پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ باقی 12 لاشیں بھی واپس کرے۔غزہ میں فلسطینی ان درجنوں لاشوں کی تدفین میں مصروف ہیں، جو اسرائیل نے اسرائیلی قیدیوں کی باقیات کے بدلے واپس کی ہیں، ان میں سے کئی ناقابلِ شناخت ہیں اور ان پر تشدد اور مسخ کیے جانے کے آثار پائے جاتے ہیں۔اسرائیل کے اعلیٰ سفارت کار کے مطابق، اسرائیل ترکی کے فوجیوں کو اس بین الاقوامی فورس میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دے گا جس کی تجویز امریکا نے غزہ میں جنگ بندی کی نگرانی کے لیے پیش کی ہے۔ اسرائیلی وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بن گویر نے کہا ہے کہ حماس ’کھیل کھیل رہی ہے‘ اور اسے ’مکمل طور پر کچل‘ دینا چاہیے۔ ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں انہوں نے کہا کہ ہمیں اب حماس سے خلاف ورزیوں کے لیے ’قیمت وصول‘ کرنے کی ضرورت نہیں رہی، ہمیں اس سے اس کا وجود ہی چھین لینا چاہیے اور اسے مکمل طور پر تباہ کر دینا چاہیے۔ اردن کے بادشاہ شاہ عبد اللہ دوم نے کہا ہے کہ اگر غزہ میں بھیجی جانے والی فورس کا کام امن نافذ کرنا ہوا تو کوئی ملک اس میں شامل نہیں ہوگا۔ برطانوی نشریاتی اداریکو دیے گئے انٹرویو میں شاہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ یہ اہم سوال ہے کہ غزہ میں بھیجی جانے والی سیکورٹی فورسز کا مینڈیٹ کیا ہوگا؟ ہمیں امید ہے کہ وہ ‘امن برقرار رکھنے’ کے لیے ہوں گی، کیونکہ اگر مقصد غزہ میں امن نافذ کرنا ہوا تو کوئی بھی ملک اس میں شامل ہونا نہیں چاہے گا۔ شاہ عبداللہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امن برقرار رکھنے کا مطلب ہے کہ آپ مقامی پولیس یعنی فلسطینی فورسز کی مدد کر رہے ہیں جس کے لیے اردن اور مصر بڑی تعداد میں تربیت دینے کے لیے تیار ہیں لیکن یہ عمل وقت لیتا ہے، اس کے بجائے اگر ہم ہتھیار اٹھا کر غزہ میں گشت کریں تو اس میں کوئی ملک شامل نہیں ہونا چاہے گا۔ شاہ عبداللہ کا مزیدکہنا تھا کہ اردن اپنے فوجی غزہ نہیں بھیجے گا کیونکہ ان کا ملک اس تنازع سے سیاسی طور پر بہت قریب ہے۔ بھارتی جریدے کا 20 ہزار پاکستانی فوجی غزہ بھیجنے کا دعویٰ بے بنیاد اور جھوٹا نکلا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی رپورٹ میں شامل انٹیلی جنس لیکس اور دعوے من گھڑت اور گمراہ کن ہیں‘ آئی ایس پی آر اور دفتر خارجہ نے بھی غزہ میں کسی فوجی مشن کی تائید یا اعلان کبھی نہیں کیا ۔وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے نہ کبھی اسرائیل کو تسلیم کیا نہ ہی کسی فوجی تعیناتی پر بات ہوئی۔ سرکاری ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق پاکستانی حکومت امن فورس میں شمولیت کی طرف مائل نظر آتی ہے۔معاملے کی حساسیت کے باعث نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرنے والے ذرائع نے بتایا کہ حکومت اور عسکری اداروں کے درمیان مشاورت ’حتمی مراحل‘ میں داخل ہو چکی ہے، ان کے مطابق اندرونی مشاورت کا لہجہ ظاہر کرتا ہے کہ اسلام آباد اس مشن میں حصہ لینے کے حق میں ہے۔ ذرائع کے مطابق اس فورس کا مینڈیٹ داخلی سلامتی برقرار رکھنا، حماس کو غیر مسلح کرنا، سرحدی گزرگاہوں کا تحفظ اور ایک عبوری فلسطینی انتظامیہ کے تحت انسانی امداد و تعمیرِ نو میں معاونت شامل ہوگا۔ یہ رپورٹس ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں، جب آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر مصر اور اردن کے دورے پر ہیں، جو غزہ میں جنگ بندی کے بعد کے معاملات میں گہرا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگرچہ فوج نے ان کے دوروں کو دفاعی تعلقات کے فروغ سے تعبیر کیا ہے۔ ایک سینئر پاکستانی عہدیدار نے کہا کہ ’ہم غزہ کے امن ڈھانچے کے اصل حامیوں میں شامل تھے، اب پیچھے ہٹنا اس منصوبے کو ترک کرنے کے مترادف ہوگا، جس کی تشکیل میں ہم نے حصہ ڈالا تھا، یہ صرف سیاسی نہیں، اخلاقی فریضہ بھی ہے‘۔ سیاستدانوں اور صحافیوں نے شریف حکومت کے مبینہ منصوبے پر سوالات اٹھائے جن کے مطابق پاکستان غزہ میں تعینات کی جانے والی بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف) کا حصہ بن سکتا ہے، جو اس وقت تشکیل دی جا رہی ہے۔ مذاکرات سے واقف ذرائع کے مطابق حکومت جلد ہی اس حوالے سے باضابطہ اعلان کر سکتی ہے۔خبر سامنے آنے کے بعد سیاستدانوں اور صحافیوں نے سوشل میڈیا پر تشویش اور تنقید کا اظہار کیا۔ سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے اس خبر کو ’پریشان کن‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہماری ماضی کی غلط پالیسیاں آج ہمیں پریشان کر رہی ہیں‘’کیا ہم نے اس منصوبے کے فوائد اور نقصانات پر بحث کی ہے؟ حکومت عوام کو اعتماد میں لینے سے کیوں گریزاں ہے؟‘ سینیٹر علامہ راجا ناصر نے کہا کہ یہ اقدام اسرائیل کے غزہ پر فوجی کنٹرول کو ختم نہیں بلکہ مزید مضبوط کرے گا، جو ’قبضے کا نیا چہرہ‘ بن کر اسرائیلی جارحیت کو مسلم شمولیت کے ذریعے جواز فراہم کرے گا۔روزنامہ دی نیوز انٹرنیشنل کی مدیر نقطہ نظر زیب النسا برکی نے کہا کہ ایسی کوئی ’امن فورس‘ امن قائم نہیں کرے گی بلکہ اسرائیل کی مددگار ثابت ہوگی۔ صحافی حامد میر نے بھی ’دی ٹائمز آف اسرائیل‘ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے توجہ دلائی، جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی فوجی دستے آئی ایس ایف میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’اس خبر پر خاموشی کیوں ہے؟ اگر یہ درست ہے تو یہ فیصلہ کس نے کیا؟ اور یہ معاملہ ابھی تک پاکستانی پارلیمان میں زیرِ بحث کیوں نہیں آیا؟‘۔سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری نے کہا کہ یہ منصوبہ دراصل اسرائیلی قبضے کو مضبوط کرے گا کیونکہ یہ امریکی و برطانوی نگرانی میں اسرائیلی دفاعی افواج کے ساتھ تعاون پر مبنی ہوگا۔ سابق وزیر فواد چودھری نے کہا کہ ایسے معاملات پر قومی اتفاقِ رائے ضروری ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کا کہنا ہے کہ کے مطابق اس اسرائیل کے اسرائیل نے نیتن یاہو نے کہا کہ ہے کہ ا کے بعد کے لیے تھا کہ غزہ کے کی لاش
پڑھیں:
امریکا نے پاکستان کے F-16 طیاروں کی اپ گریڈ کی منظوری دی، بھارت کے لیے کیا پیغام ہے؟
امریکا نے پاکستان کے F-16 لڑاکا طیاروں کی جدید ٹیکنالوجی اور اپ گریڈ کے لیے تقریباً 686 ملین ڈالر کی منظوری دے دی ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی ہے اور مئی میں کشمیری علاقے میں ایک باغیانہ حملے کے بعد پانچ روزہ جنگ بھی ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:دبئی ایئرشو میں تیجاس طیارے کا حادثہ، ‘بھارتی طیاروں کی برآمدات کا امکان تقریباً ختم ہوگیا’
الجزیرہ میں شائع خبر کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اپ گریڈ پاکستان کی موجودہ F-16 فلیٹ کی ٹیکنالوجی اور ہارڈویئر کی بہتری کے لیے ہے، جس میں جدید نیویگیشن، دوستانہ اور دشمن طیارے کی شناخت (IFF)، اسپئر پارٹس اور مرمت شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 37 ملین ڈالر کی اہم دفاعی سازوسامان، بشمول 92 Link-16 سسٹمز اور چھ Mk-82 بم کی خالی باڈیز بھی پاکستان کو فراہم کی جائیں گی۔
پاکستان کے پاس تقریباً 70 سے 80 F-16 طیارے فعال ہیں جن میں پرانے Block 15 ماڈلز، سابقہ اردنی F-16s اور نئے Block 52+ ماڈلز شامل ہیں۔ یہ طیارے فضائی جنگ اور زمینی ہدف پر حملے کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور Lockheed Martin کے ذریعہ تیار کیے جاتے ہیں۔
یہ اپ گریڈ اس وقت اہمیت اختیار کر گیا ہے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان مئی کے حملے کے بعد کشیدگی بڑھ گئی، اور امریکی دباؤ کے تحت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو مزید امریکی ہتھیار خریدنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ڈیل پاکستان اور امریکا کے درمیان 2 طرفہ تعلقات اور مشترکہ انسداد دہشتگردی کے لیے بھی اہم ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
F-16 امریکا بھارت پاکستان