پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات ناکام ہوگئے، طالبان حکومت افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں دھکیلنا چاہتی ہے، عطاء تارڑ
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) وزیر اطلاعات ونشریات عطا تارڑ نے استنبول میں ہونے والے پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کردیا۔
انہوں نے اس حوالے سے جاری اپنے تفصیلی بیان میں کہا کہ استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات اکتوبر 2025 میں منعقد ہوئے۔ جن کا واحد ایجنڈا افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکنا تھا۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان نے افغان طالبان سے بھارتی حمایت یافتہ تنظیمیں فتنہ الخوارج (TTP) اور فتنہ الہند (BLA) کی سرحد پار دہشت گردی پر بارہا احتجاج کیا اور اس موضوع پر واضح موقف اختیار کیا گیا۔ پاکستان نے افغان طالبان حکومت سے دوحہ معاہدے کے تحریری وعدوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا۔
وزیر اعظم آزاد کشمیر نے رخصتی سے قبل، 15043اساتذہ کو 82کروڑ کا فائدہ پہنچا دیا
عطا تارڑ کے مطابق افغان طالبان کی جانب سے پاکستان مخالف دہشت گردوں کی مسلسل حمایت پر پاکستان کی کوششیں بے سود رہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان طالبان نے مذاکرات کے دوران الزام تراشی، ٹال مٹول اور حیلے بہانوں کا سہارا لیا اور مذاکرات کسی قابلِ عمل نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ وزیر اطلاعات نے واضح کیا کہ افغان وفد نے مذاکرات کے بنیادی مدعے سے انحراف کیا اور ذمہ داری قبول کرنے سے گریز کیا۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ طالبان حکومت افغان عوام کی نمائندہ نہیں اور اپنی بقا کے لیے جنگی معیشت پر انحصار کرتی ہے، اور وہ افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں دھکیلنا چاہتی ہے۔ عطا تارڑ نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے عوام کے امن و خوشحالی کے لیے قربانیاں پیش کیں، مگر افغان فریق نے پاکستان کے نقصانات سے بے نیازی دکھائی۔
چیئرمین جوائنٹ چیفس جنرل ساحر شمشاد مرزا کی بنگلہ دیش کے آرمی چیف سے ملاقات
عطا تارڑ نے کہا کہ پاکستان نے مذاکرات کے دوران دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اور ناقابلِ تردید شواہد پیش کیے، اور افغان طالبان اور میزبان ممالک نے ان شواہد کو تسلیم کیا مگر کوئی یقین دہانی یا عملی اقدام سامنے نہ آیا۔ ان کے بقول افغان طالبان نے شواہد کے اعتراف کے باوجود کسی واضح ضمانت یا بندوبست کی پیشکش نہیں کی۔
وزیر اطلاعات نے بتایا کہ چار برسوں کی جانی و مالی قربانیوں کے بعد پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ قطر اور ترکیہ کی درخواست پر پاکستان نے امن کے لیے ایک اور موقع دیا اور پاکستان قطر، ترکیہ اور دیگر دوست ممالک کا ان کی مخلصانہ کوششوں پر شکر گزار ہے۔ دوحہ اور استنبول میں مذاکرات کا واحد ایجنڈا دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکنا تھا، اور اسی نقطۂ نظر پر پاکستان مذاکرات میں شریک رہا۔ تاہم مذاکرات کے بعد بھی افغان طالبان کی جانب سے پاکستان مخالف دہشت گردوں کی مسلسل حمایت برقرار رہی۔
برادر ملکوں کی طرح اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے، محسن نقوی کی افغان نائب وزیر داخلہ سےگفتگو
وزیر اطلاعات نے اعلان کیا کہ پاکستان کے عوام کی سلامتی قومی ترجیح ہے اور حکومت دہشت گردی کے خلاف ہر ممکن اقدام کرتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان دہشت گردوں، ان کے ٹھکانوں اور سہولت کاروں کو نیست و نابود کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔
عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ پاکستان قطر اور ترکیہ کا شکر گزار ہے جنہوں نے مذاکرات کی میزبانی اور مخلصانہ کوششیں کیں، مگر افغان فریق کی عملداری نہ ہونے کی وجہ سے مذاکرات سے کوئی قابلِ عمل نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکا۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: وزیر اطلاعات نے افغان طالبان طالبان حکومت کہ پاکستان پاکستان نے نے مذاکرات مذاکرات کے اور افغان نے کہا کہ عطا تارڑ کے لیے
پڑھیں:
مذاکرات میں پاکستان کا واضح پیغام: افغان طالبان دہشت گردی کی سرپرستی بند کریں
اسلام آباد/استنبول (صغیر چوہدری) — استنبول میں ہونے والی اہم اور حساس مذاکراتی نشست میں پاکستان نے افغان طالبان کو ایک دو ٹوک اور غیر معمولی واضح مطالبہ پیش کیا ہے: افغان سرزمین سے کسی بھی قسم کی دہشت گردانہ کارروائی، محفوظ ٹھکانوں یا ان کی عملی سرپرستی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق پاکستانی وفد نے کہا کہ محض یقین دہانیوں کا دور ختم ہو چکا ہے — اب عملی، قابلِ پیمائش اور ثبوت پر مبنی اقدامات درکار ہیں تاکہ دہشت گرد نیٹ ورکس کا قلع قمع ممکن بنایا جا سکے۔ پاکستانی حکام نے افغان طالبان کے مذاکراتی دلائل کو زمینی حقائق سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا کہ بعض دلائل ایسا تاثر دیتے ہیں جیسے کوئی پوشیدہ یا متوازی ایجنڈا چلایا جا رہا ہو، جو نہ تو افغانستان کے اور نہ ہی پاکستان و خطے کے مفاد میں ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر طالبان نے اپنی پالیسیوں میں حقیقی تبدیلی نہ دکھائی تو مذاکرات کے مثبت نتائج باہر رہ جائیں گے اور خطے میں عدم استحکام کے خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں۔ پاکستانی وفد نے واضح کیا کہ آئندہ مذاکرات کی سمت اور رفتار مکمل طور پر طالبان کے سنجیدہ اور نتیجہ خیز رویے پر منحصر ہوگی۔
مزید یہ کہ پاکستان نے بارہا اپنے موقف کو دہرایا کہ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کسی بھی شکل میں برداشت نہیں کی جائے گی اور ملک کو محفوظ رکھنے کے لیے مؤثر جوابی اقدامات کا حق اپنے پاس محفوظ رکھا جاتا ہے۔