پاکستان اور امریکا میں تجارتی مفاہمت، پاکستانی برآمدات کے لیے اُمید مضبوط
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد / واشنگٹن: اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان ہونے والی تجارتی بات چیت نے ایک فیصلہ کن موڑ لے لیا ہے، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک ایک اہم اقتصادی مفاہمت پر متفق ہو گئے ہیں۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان کی برآمدات، خاص طور پر ٹیکسٹائل اور زرعی شعبہ، بھاری امریکی ٹیرف کے خطرے سے دوچار تھیں۔ اگر مقررہ ڈیڈ لائن سے پہلے کوئی معاہدہ نہ ہوتا تو ان مصنوعات پر دوبارہ سے سخت تجارتی شرائط لاگو ہو سکتی تھیں، جس سے ملکی برآمدی صنعت کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔
پاکستانی وفد، جس کی قیادت سیکرٹری تجارت جاوید پال نے کی، نے واشنگٹن میں چار روزہ مذاکرات کے بعد کامیابی سے یہ مرحلہ عبور کیا۔
اگرچہ ان مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والے فریم ورک کا باضابطہ اعلان تاحال باقی ہے، تاہم یہ واضح ہے کہ فریقین اصولی طور پر متعدد اہم نکات پر متفق ہو چکے ہیں۔ اب یہ اعلان اُس وقت متوقع ہے جب امریکا اپنے دیگر عالمی تجارتی شراکت داروں کے ساتھ جاری مشاورت کو مکمل کر لے گا۔
ذرائع کے حوالے سے میڈیا رپورٹس کے مطابق مذاکرات صرف ٹیرف کے خاتمے تک محدود نہیں رہے بلکہ ان میں وسیع تر اقتصادی تعاون پر بھی بات چیت ہوئی۔ یہ معاہدہ اس لحاظ سے غیر معمولی ہے کہ اس کے ذریعے نہ صرف پاکستانی مصنوعات کو امریکی منڈی میں مسلسل رسائی حاصل رہے گی، بلکہ امریکی سرمایہ کاری کے کئی نئے دروازے بھی کھلنے والے ہیں۔ خاص طور پر توانائی، کان کنی اور انفرااسٹرکچر کے شعبوں میں امریکا کی دلچسپی پاکستان کے لیے معاشی ترقی کے نئے مواقع پیدا کر سکتی ہے۔
پاکستانی ٹیم کا اصل ہدف 29 فیصد ٹیرف کو مستقل طور پر ختم کروانا تھا، جو کہ عارضی طور پر رواں سال کے آغاز میں معطل کیا گیا تھا۔ اگر یہ رعایت ختم ہو جاتی تو پاکستانی برآمدات کے لیے امریکی منڈی محدود ہو جاتی، جس کا براہ راست اثر لاکھوں مزدوروں اور صنعتی اداروں پر پڑتا۔ خوش قسمتی سے یہ خطرہ وقتی طور پر ٹل گیا ہے اور آئندہ کے لیے اس کے مستقل خاتمے کی راہ بھی ہموار ہوتی نظر آ رہی ہے۔
مزید برآں، اس بات چیت کے دوران امریکی ایکسپورٹ-امپورٹ بینک کے ذریعے دو طرفہ مالی تعاون کو وسعت دینے کی تجاویز بھی زیر غور آئیں، جس سے پاکستان کو امریکی فنانسنگ تک آسان رسائی حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ پہلو پاکستان کے تجارتی خسارے کو کم کرنے میں بھی مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔
اگرچہ امریکا کے وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے پہلے ہی اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ مثبت پیش رفت کی صورت میں 9 جولائی کی ڈیڈ لائن میں کچھ نرمی ممکن ہو سکتی ہے، لیکن پاکستانی حکام نے جلد بازی میں معاہدے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے پر زور دیا۔ ان کے بقول کسی بھی قسم کی غیر یقینی صورتحال، خاص طور پر سرمایہ کاروں اور برآمد کنندگان کے لیے، ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
معاشی تجزیہ کار اس معاہدے کو پاکستان کے لیے نہ صرف ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں بلکہ اسے ایک ایسا سنگ میل سمجھا جا رہا ہے جو آنے والے برسوں میں امریکا کے ساتھ تجارتی روابط کو نئی جہت دے گا۔
توقع کی جا رہی ہے کہ یہ پیش رفت دوطرفہ تعلقات میں پائیدار توازن کے قیام میں مددگار ثابت ہو گی اور پاکستانی برآمد کنندگان کو عالمی منڈی میں مستحکم مقام دلانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ہو سکتی سکتی ہے کے لیے
پڑھیں:
امریکا اور ویتنام کے درمیان تجارتی معاہدے پر چین کا ردعمل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بیجنگ (انٹرنیشنل ڈیسک) چینی وزارتِ تجارت نے کہا ہے کہ امریکا اور ویتنام کے درمیان ہو نے والے تجارتی معاہدے سے متعلق صورتحال کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ چین اپنے جائر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔ واضح رہے کہ امریکانے ویتنام کے ساتھ ٹریڈ ڈیل کا اعلان کیا ہے۔ امریکا کسی تیسرے ملک کی ویتنام کے ذریعے درآمد پر 40فیصد ڈیوٹی عائد کرے گا۔