حماس نے امریکی صدر کے غزہ جنگ بندی تجویز پر اپنا جواب ثالثوں کے حوالے کردیا
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کی تجویز پر اپنا جواب بات چیت کے متعدد دور کے بعد آج ثالثوں کے پاس جمع کرادیا۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹزر کے مطابق ایک حماس رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم نے قطر اور مصر کو جنگ بندی کی تجویز پر اپنا جواب دے دیا ہے۔
اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے غزہ جنگ بندی مذاکرات سے قریبی طور پر وابستہ فلسطینی اہلکار نے بتایا کہ حماس کا جواب مثبت ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ میرے خیال میں حماس کے اس مثبت جواب کے نتیجے میں جنگ بندی کے حتمی معاہدے تک پہنچنے میں مدد ملے گی۔
تاہم ابھی تک حماس، امریکا، اسرائیل اور دیگر ثالثوں کی جانب سے اس کی تردید یا تصدیق سامنے نہیں آئی ہے۔
اگر حماس کا جواب مثبت میں ہے تو یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب غزہ میں جاری جنگ کو ختم کرنے اور یرغمالیوں کی واپسی کے لیے بین الاقوامی کوششیں زور پکڑ چکی ہیں۔
تل ابیب میں اسرائیلی یرغمالیوں کے اہلِ خانہ اور شہریوں نے جمعہ کو ایک مارچ کیا، جس میں انہوں نے حماس کی قید میں موجود اپنے عزیزوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
مصر، قطر اور امریکا کئی ماہ سے اس معاہدے کے لیے ثالثی کر رہے ہیں، جس کے تحت غزہ میں 60 دن کی عبوری جنگ بندی، یرغمالیوں کی بتدریج رہائی، انسانی امداد کی بحالی اور جنگ کے مستقل خاتمے کے لیے روڈ میپ شامل ہے۔
اگر حماس کا مثبت جواب اسرائیل کے لیے بھی قابل قبول ہوا، تو جلد ہی ایک اہم عبوری معاہدہ طے پا سکتا ہے، جس سے خطے میں جاری انسانی بحران میں کمی کی امید کی جا رہی ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
غزہ میں جنگ بندی پر حماس کا جواب 24 گھنٹے میں آجائے گا؛ ڈونلڈ ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کے خلاف جنگ بندی سے متعلق حماس کے فیصلے کا آئندہ 24 گھنٹوں میں پتہ چل جائے گا۔
انہوں نے اس تجویز کو حتمی پیشکش قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس کے نتیجے میں خطے میں جاری تنازع کے خاتمے کی راہ ہموار ہوگی۔
خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ٹرمپ نے جمعے کے روز امریکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس معاملے پر سعودی عرب سے بھی بات چیت کی گئی ہے تاکہ معاہدہ ابراہیمی کے دائرہ کار کو وسیع کیا جا سکے۔ یہ معاہدہ ان کی سابقہ صدارت کے دوران خلیجی ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے حوالے سے سامنے آیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے چند روز قبل کہا تھا کہ اسرائیل حماس کے ساتھ 60 دن کی جنگ بندی کی شرائط کو تسلیم کرچکا ہے، اور اس دوران فریقین مستقل جنگ بندی کےلیے مذاکرات کریں گے۔ تاہم جمعے کو جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا حماس اس تجویز پر متفق ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’’دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، آئندہ 24 گھنٹوں میں سب واضح ہوجائے گا۔‘‘
حماس کے قریبی ذرائع کے مطابق تنظیم نے اس تجویز کے بدلے یہ یقین دہانی طلب کی ہے کہ یہ جنگ بندی بالآخر غزہ میں اسرائیل کے جاری حملوں کے خاتمے کا باعث بنے گی۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کی تفصیلات پر کام جاری ہے۔
غزہ میں انسانی بحران کی صورتحال بدستور سنگین ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اسرائیلی حملوں میں اب تک 56 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جس سے علاقے میں خوراک کی قلت اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مقدمات بھی دائر کیے گئے ہیں، جن میں اسرائیل پر جنگی جرائم اور نسل کشی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں، تاہم اسرائیل ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
رواں سال 18 مارچ کو بھی دو ماہ کی جنگ بندی کے بعد اسرائیلی حملے شروع ہونے سے 400 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے تھے۔ صدر ٹرمپ اس سے قبل غزہ کو امریکی کنٹرول میں لینے کی تجویز بھی دے چکے ہیں، جس پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے ماہرین سمیت فلسطینیوں نے شدید ردعمل دیتے ہوئے اسے ’’نسلی تطہیر‘‘ کی کوشش قرار دیا تھا۔
اس دوران صدر ٹرمپ نے بتایا کہ جمعے کے روز 10 سے 12 ممالک کو ٹیرف سے متعلق خطوط ارسال کیے جائیں گے، جس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر اقتصادی رابطے مضبوط کرنا ہے۔
معاہدہ ابراہیمی پر گفتگو کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ بہت سے ممالک جلد اس معاہدے کا حصہ بن جائیں گے، خاص طور پر ایران کو امریکی اور اسرائیلی حملوں سے پہنچنے والے نقصانات کے بعد خطے میں نئی صف بندی ہو رہی ہے۔ یہ گفتگو وائٹ ہاؤس میں سعودی عرب کے وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان سے ملاقات کے بعد سامنے آئی، جو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے دورہ واشنگٹن سے قبل ہوئی ہے۔