Jasarat News:
2025-07-06@12:53:27 GMT

حسینؓ کا راستہ یا یزید کا؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کربلا کوئی قصۂ پارینہ نہیں بلکہ ایک زندہ اور تازہ پیغام ہے جو ہر دور کے باطل کے سامنے سر بلند ہو کر حق کی صدا بلند کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ معرکہ صرف نیزوں، تلواروں اور خیموں کا نہیں تھا بلکہ اصول و حق اور باطل کے درمیان وہ جنگ تھی جو قیامت تک انسانیت کو راہ دکھاتی رہے گی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مطابق امام حسینؓ کی شہادت محض ایک شخص کا نذرانۂ جاں نہ تھی بلکہ ایک گمراہ نظام کے خلاف بغاوت تھی۔ ایسا نظام جو خلافت کے لبادے میں ملوکیت بیچتا تھا، عدل کے نام پر ظلم کرتا اور اسلام کے نام پر فریب پھیلاتا رہا تھا۔ آج ہم بھی ایک ویسے ہی دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ایک جانب ’’اسلامی جمہوریت‘‘ کا دعویٰ ہے تو دوسری طرف شخصی آمریت، مورثی سیاست اور مذہبی ملمع کاری ہے۔ وہی پرانے یزیدی چہرے اب نئی پگڑیوں کے نیچے اور وردیوں کے پیچھے چھپے بیٹھے ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کیا امام حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار محض اقتدار کی جنگ کے لیے کیا تھا؟ ہرگز نہیں! ان کا پیغام واضح تھا جہاں دین کو دنیا کا کاروبار بنا دیا جائے وہاں خاموشی بذاتِ خود جرم بن جاتی ہے۔ آج کے پاکستان میں بھی کیا ہم کسی اور کربلا کا مشاہدہ نہیں کر رہے؟ کیا اسلام کو محض نعرے، ’’اسلامی ٹچ‘‘ اور رمضان ٹرانسمیشن کے مولویوں تک محدود نہیں کر دیا گیا؟ کیا سیاست خدمت کے بجائے موروثی تاج پوشی نہیں بن چکی ہے؟ سوائے جماعت اسلامی کے، کیا دیگر تمام بڑی مذہبی جماعتیں اقتدار کی موروثی نرسریاں نہیں بن چکیں؟ اسی المیے کو اقبالؒ نے یوں لکھا تھا:

’’صوفی و مْلّا مْلوکیّت کے بندے ہیں تمام‘‘۔ یہ ایک اہم سوال ہے جو کہ ہماری قوم کو جمہوریت کے علمبرداروں سے پوچھنا چاہیے کہ جناب عالی! آپ کی جماعتیں تو اپنے اندر جمہوریت نہیں لا سکتیں، وہ قوم میں جمہوریت کیسے نافذ کریں گی؟ جو اپنے حلقے میں مشورے کی روایت کو برداشت نہیں کر سکتیں، وہ امت کی رہنمائی کا حق کیسے رکھتی ہیں؟

دکھ تو یہ ہے کہ حسینیت کا پیغام صرف نوحوں اور جلوسوں تک محدود کر دیا گیا ہے حالانکہ وہ تو ظلم کے خلاف عملی جہاد کا نام ہے صرف یاد نہیں زندہ لائحہ عمل ہے۔ اگر ہمیں واقعی ملوکیت اور وراثتی بادشاہت کی غلامی سے نجات حاصل کرنی ہے تو ہمیں امام حسینؓ کے اسوہ کو اپنا رہنما بنانا ہوگا وہ اسوہ جو خلافت کو عدل، مشورہ اور احتساب کا نظام سمجھتا ہے نہ کہ اقتدار کی وراثت یا بادشاہی کی توسیع۔ حسینؓ نے دکھایا کہ اصل اسلامی سیاست اصولوں کی پاسداری کا نام ہے چاہے اس کی قیمت سر کٹوانا ہی کیوں نہ ہو۔ سید مودودیؒ نے کیا خوب کہا تھا: ’’یزید اگر خلیفہ بن سکتا ہے تو خلافت اور ملوکیت میں پھر کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ اور اگر حسینؓ خاموش رہتے تو اسلام کے نام پر ظلم کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھل جاتا‘‘۔

تاریخ ایک بار پھر ہمیں اسی دوراہے پر لا کھڑا کرتی ہے جہاں ہمیں عزم کرنا ہے کہ ہم حق کا ساتھ دیں، چاہے اس کی قیمت اپنی جان ہی کیوں نہ ہو، ہم کوفیوں جیسی خاموش اختیار کرکے باطل کے جرائم میں سہولت کار نہیں بنے گے۔

آج وقت ہے بصیرت کی آنکھ کھولنے کا، سچ اور فریب میں فرق کرنے کا۔ پہچاننے کا کہ کون ہیں وہ جو دین کا جامہ پہن کر، اقتدار کی غلام گردشوں میں یزیدیت کی نحوست بکھیر رہے ہیں؟ اور کون ہیں وہ جو فکرِ حسینی کے سچے پیروکار بن کر، ملوکیت کے ایوانوں سے ٹکرا رہے ہیں؟ وہی جو اقتدار کو امانت سمجھتے ہیں، وراثت نہیں۔ جو شورائیت، شراکت اور احتساب کو ترجیح دیتے ہیں، چاپلوسی اور خوشامد کو نہیں جو اہلیت کو معیار بناتے ہیں، خاندانی نسبت کو نہیں اور وہ جو وقت کے یزیدیوں کے سامنے بے خوف و خطر سینہ سپر ہو کر کھڑے ہیں۔ یہی وہ سچے رہنما ہیں جو عالمی اسلامی تحریکوں کا وقار اور امتِ مسلمہ کی امید ہیں وہ جو خلافتِ راشدہ کے فکری وارث اور عدل و شراکت پر مبنی اسلامی نظام کے اصل ترجمان ہیں۔ مگر افسوس! آج یہی صاحبانِ کردار ظلم کی تاریکیوں میں گھرے ہوئے ہیں، اقتدار سے محروم اور یزیدی ذہنیتوں کے کینے کا نشانہ ہیں۔ گویا یزید آج بھی زندہ ہے تخت و تاج کے ساتھ، اور حسینؓ کا قافلہ آج بھی مظلوم ہے مگر سچ کے ساتھ۔

اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کیا ہم صرف زبان سے ’’لبیک یا حسینؓ‘‘ کہتے رہیں گے، یا کردار و عمل سے حسینیت کا علم بلند کریں گے؟ کیا ہم یونہی فرقہ پرستی، مفاد پرستی اور فرقہ واریت کے نام پر دین کی تجارت کرنے والوں کے فریب میں آتے رہیں گے؟ یا اب وہ گھڑی آ گئی ہے جب ہم اس قیادت کو پہچانیں جو عدل، دیانت اور شورائیت کی بنیاد پر اٹھتی ہے، نہ کہ فرقہ واریت خاندانی وراثت اور اندھی تقلید پر۔ کیونکہ اصل حسینیت یہی ہے ظلم کے سامنے ڈٹ جانا، خواہ کربلا ہی کیوں نہ بچھ جائے۔

’’غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ، ابتدا ہے اسماعیلؑ‘‘

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اقتدار کی کے نام پر

پڑھیں:

سندھ حکومت نے نمبر پلیٹ کے نام پر کراچی کے شہریوں کو لوٹنے کا نیا راستہ نکال لیا، فاروق ستار

کراچی:

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی مرکزی کمیٹی کے سینئر رکن ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ سندھ حکومت نے کراچی کے شہریوں کو لُوٹنے کا نیا راستہ نکال لیا، نمبر پلیٹس کے نام پر کراچی ٹریفک پولیس شہریوں سے بھتہ وصول کر رہی ہے۔

اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ کراچی میں ٹریفک پولیس کی جانب سے کروڑوں روپے روزانہ رشوت لی جاتی ہے جو اوپر تک جاتی ہے، کراچی میں ٹریفک پولیس کی رشوت ستانی ایک صنعت کا درجہ اختیار کرچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان ٹریفک پولیس کو وردی کے نام پر کھلی بدمعاشی نہیں کرنے دے گی، کراچی ٹریفک پولیس ڈمپر مافیا کے ہاتھوں سیکڑوں شہریوں کی جان کو محفوظ نہیں بنا سکی، شہری گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسے رہتے ہیں ان مسائل کو کوئی حل کرنے والا نہیں۔

ڈاکٹر فاروق ستار کا مزید کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے کراچی کی سڑکیں موہنجوداڑو جیسی کردی ہیں اور چالان امریکا جیسے لینے کی خواہش ہے، سندھ حکومت کراچی کے شہریوں سے ٹوٹی سڑکوں سے گزرنے کا حق بھی چھیننا چاہتی ہے۔

انہوں ںے مزید کہا کہ کراچی کے شہریوں کے صبر کا بند ٹوٹ گیا تو اُس سیلاب میں سب حکومتیں بہہ جائیں گی، حکومت سندھ اپنی ناقص حکمت عملی اور ظلم و ناانصافی کے سلسلوں کو بند کرے۔

متعلقہ مضامین

  • محرم الحرام سخت آزمائش کا مقابلہ کرنے کا جذبہ صادق عطا کرتا ہے‘ ہمایوں اختر
  • محرم الحرام ہمیں ظالم کیخلاف جدوجہد کا درس دیتا ہے، جماعت اسلامی
  • جب کربلا نے پکارا!
  • امن کا راستہ ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے ، طاقت حقیقی امن نہیں لا سکتی، چینی وزیر خارجہ
  • موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
  • قیامِ امام حسین عالی مقامؓ
  • سیاست دان ملک کے لیے لچک پیدا کرکے کوئی راستہ نکالیں، مفتاح اسماعیل
  • پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ غریب عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ہے، صابر حسین اعوان
  • سندھ حکومت نے نمبر پلیٹ کے نام پر کراچی کے شہریوں کو لوٹنے کا نیا راستہ نکال لیا، فاروق ستار