Jasarat News:
2025-09-18@12:40:42 GMT

حسینؓ کا راستہ یا یزید کا؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کربلا کوئی قصۂ پارینہ نہیں بلکہ ایک زندہ اور تازہ پیغام ہے جو ہر دور کے باطل کے سامنے سر بلند ہو کر حق کی صدا بلند کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ معرکہ صرف نیزوں، تلواروں اور خیموں کا نہیں تھا بلکہ اصول و حق اور باطل کے درمیان وہ جنگ تھی جو قیامت تک انسانیت کو راہ دکھاتی رہے گی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مطابق امام حسینؓ کی شہادت محض ایک شخص کا نذرانۂ جاں نہ تھی بلکہ ایک گمراہ نظام کے خلاف بغاوت تھی۔ ایسا نظام جو خلافت کے لبادے میں ملوکیت بیچتا تھا، عدل کے نام پر ظلم کرتا اور اسلام کے نام پر فریب پھیلاتا رہا تھا۔ آج ہم بھی ایک ویسے ہی دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ایک جانب ’’اسلامی جمہوریت‘‘ کا دعویٰ ہے تو دوسری طرف شخصی آمریت، مورثی سیاست اور مذہبی ملمع کاری ہے۔ وہی پرانے یزیدی چہرے اب نئی پگڑیوں کے نیچے اور وردیوں کے پیچھے چھپے بیٹھے ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کیا امام حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار محض اقتدار کی جنگ کے لیے کیا تھا؟ ہرگز نہیں! ان کا پیغام واضح تھا جہاں دین کو دنیا کا کاروبار بنا دیا جائے وہاں خاموشی بذاتِ خود جرم بن جاتی ہے۔ آج کے پاکستان میں بھی کیا ہم کسی اور کربلا کا مشاہدہ نہیں کر رہے؟ کیا اسلام کو محض نعرے، ’’اسلامی ٹچ‘‘ اور رمضان ٹرانسمیشن کے مولویوں تک محدود نہیں کر دیا گیا؟ کیا سیاست خدمت کے بجائے موروثی تاج پوشی نہیں بن چکی ہے؟ سوائے جماعت اسلامی کے، کیا دیگر تمام بڑی مذہبی جماعتیں اقتدار کی موروثی نرسریاں نہیں بن چکیں؟ اسی المیے کو اقبالؒ نے یوں لکھا تھا:

’’صوفی و مْلّا مْلوکیّت کے بندے ہیں تمام‘‘۔ یہ ایک اہم سوال ہے جو کہ ہماری قوم کو جمہوریت کے علمبرداروں سے پوچھنا چاہیے کہ جناب عالی! آپ کی جماعتیں تو اپنے اندر جمہوریت نہیں لا سکتیں، وہ قوم میں جمہوریت کیسے نافذ کریں گی؟ جو اپنے حلقے میں مشورے کی روایت کو برداشت نہیں کر سکتیں، وہ امت کی رہنمائی کا حق کیسے رکھتی ہیں؟

دکھ تو یہ ہے کہ حسینیت کا پیغام صرف نوحوں اور جلوسوں تک محدود کر دیا گیا ہے حالانکہ وہ تو ظلم کے خلاف عملی جہاد کا نام ہے صرف یاد نہیں زندہ لائحہ عمل ہے۔ اگر ہمیں واقعی ملوکیت اور وراثتی بادشاہت کی غلامی سے نجات حاصل کرنی ہے تو ہمیں امام حسینؓ کے اسوہ کو اپنا رہنما بنانا ہوگا وہ اسوہ جو خلافت کو عدل، مشورہ اور احتساب کا نظام سمجھتا ہے نہ کہ اقتدار کی وراثت یا بادشاہی کی توسیع۔ حسینؓ نے دکھایا کہ اصل اسلامی سیاست اصولوں کی پاسداری کا نام ہے چاہے اس کی قیمت سر کٹوانا ہی کیوں نہ ہو۔ سید مودودیؒ نے کیا خوب کہا تھا: ’’یزید اگر خلیفہ بن سکتا ہے تو خلافت اور ملوکیت میں پھر کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ اور اگر حسینؓ خاموش رہتے تو اسلام کے نام پر ظلم کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھل جاتا‘‘۔

تاریخ ایک بار پھر ہمیں اسی دوراہے پر لا کھڑا کرتی ہے جہاں ہمیں عزم کرنا ہے کہ ہم حق کا ساتھ دیں، چاہے اس کی قیمت اپنی جان ہی کیوں نہ ہو، ہم کوفیوں جیسی خاموش اختیار کرکے باطل کے جرائم میں سہولت کار نہیں بنے گے۔

آج وقت ہے بصیرت کی آنکھ کھولنے کا، سچ اور فریب میں فرق کرنے کا۔ پہچاننے کا کہ کون ہیں وہ جو دین کا جامہ پہن کر، اقتدار کی غلام گردشوں میں یزیدیت کی نحوست بکھیر رہے ہیں؟ اور کون ہیں وہ جو فکرِ حسینی کے سچے پیروکار بن کر، ملوکیت کے ایوانوں سے ٹکرا رہے ہیں؟ وہی جو اقتدار کو امانت سمجھتے ہیں، وراثت نہیں۔ جو شورائیت، شراکت اور احتساب کو ترجیح دیتے ہیں، چاپلوسی اور خوشامد کو نہیں جو اہلیت کو معیار بناتے ہیں، خاندانی نسبت کو نہیں اور وہ جو وقت کے یزیدیوں کے سامنے بے خوف و خطر سینہ سپر ہو کر کھڑے ہیں۔ یہی وہ سچے رہنما ہیں جو عالمی اسلامی تحریکوں کا وقار اور امتِ مسلمہ کی امید ہیں وہ جو خلافتِ راشدہ کے فکری وارث اور عدل و شراکت پر مبنی اسلامی نظام کے اصل ترجمان ہیں۔ مگر افسوس! آج یہی صاحبانِ کردار ظلم کی تاریکیوں میں گھرے ہوئے ہیں، اقتدار سے محروم اور یزیدی ذہنیتوں کے کینے کا نشانہ ہیں۔ گویا یزید آج بھی زندہ ہے تخت و تاج کے ساتھ، اور حسینؓ کا قافلہ آج بھی مظلوم ہے مگر سچ کے ساتھ۔

اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کیا ہم صرف زبان سے ’’لبیک یا حسینؓ‘‘ کہتے رہیں گے، یا کردار و عمل سے حسینیت کا علم بلند کریں گے؟ کیا ہم یونہی فرقہ پرستی، مفاد پرستی اور فرقہ واریت کے نام پر دین کی تجارت کرنے والوں کے فریب میں آتے رہیں گے؟ یا اب وہ گھڑی آ گئی ہے جب ہم اس قیادت کو پہچانیں جو عدل، دیانت اور شورائیت کی بنیاد پر اٹھتی ہے، نہ کہ فرقہ واریت خاندانی وراثت اور اندھی تقلید پر۔ کیونکہ اصل حسینیت یہی ہے ظلم کے سامنے ڈٹ جانا، خواہ کربلا ہی کیوں نہ بچھ جائے۔

’’غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ، ابتدا ہے اسماعیلؑ‘‘

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اقتدار کی کے نام پر

پڑھیں:

غزہ میں اسرائیلی حملے، 33 فلسطینی شہید، اسرائیل نے انخلا کے لیے عارضی راستہ کھول دیا

غزہ میں آج صبح سے اسرائیلی حملوں میں کم از کم 33 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔ 

شہداء میں ایک بچہ اور اس کی ماں بھی شامل ہیں جو الشاطی کیمپ میں فضائی حملے کے دوران جاں بحق ہوئے۔ مقامی افراد کے مطابق بمباری میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے، درجنوں گھر تباہ ہوچکے ہیں اور بحری جہاز بھی اس بڑے حملے میں شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کے کمیشن کی حالیہ رپورٹ میں اسرائیل کو فلسطینی عوام پر نسل کشی کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔ اکتوبر 2023 سے اب تک 64 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 65 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔

چین اور قطر نے بھی غزہ پر حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے اقدامات بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں، جب کہ قطر نے کہا کہ یہ فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کی جنگ کا تسلسل ہے۔

اسرائیل نے غزہ سٹی کے رہائشیوں کے انخلا کے لیے صلاح الدین اسٹریٹ کے ذریعے 48 گھنٹوں کے لیے عارضی روٹ کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق غزہ سٹی میں زمینی آپریشن مکمل کرنے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔

امدادی تنظیموں نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے حملے روکنے کے لیے فوری اور سخت اقدامات کرے، کیونکہ محض بیانات سے انسانی المیہ نہیں رکے گا۔

 

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں اسرائیلی حملے، 33 فلسطینی شہید، اسرائیل نے انخلا کے لیے عارضی راستہ کھول دیا
  • مشاہد حسین سید کا پاکستان کو بھارت کے ساتھ نہ کھیلنے کا مشورہ
  • پائیکرافٹ کو ہٹانے کے سوا راستہ نہیں، پی سی بی کا سخت مؤقف کیساتھ آئی سی سی کو دوبارہ خط، آج فیصلہ متوقع
  • پائیکرافٹ کو ہٹانے کے سوا راستہ نہیں، پی سی بی کا سخت مؤقف کیساتھ آئی سی سی کو دوبارہ خط، آج فیصلہ متوقع
  • اسلامی کانفرنس ’’اب کے مار کے دیکھ‘‘
  • میئر کراچی کی گھن گرج!
  •  اسرائیل کی مذمت کافی نہیں، دنیا کو اب اسرائیل کا راستہ روکنا ہوگا: نائب وزیراعظم
  • 16 ستمبر اور جنرل ضیاءالحق
  • اینڈی پائی کرافٹ معاملہ، پی سی بی مؤقف پر قائم، درمیانی راستہ نکالنے کی کوششیں
  • چالیس ممالک کی افواج اور ایک اسرائیل