Jasarat News:
2025-11-03@10:01:46 GMT

ظہران ممدانی کی انتخابی مہم سے اٹھنے والے سوالات

اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکا کے سب سے بڑے شہر نیو یارک کے میئر کے انتخاب کے لیے ظہران ممدانی کی مہم کو خصوصاً پاکستان اور برصغیر کے لوگوں کو جو امریکا اور نیو یارک سے بہت مرعوب رہتے ہیں، غور سے مطالعہ کرنا چاہیے۔ میئر کا الیکشن نومبر 2025 میں ہوگا۔ ظہران ممدانی ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی جیت چکے ہیں۔ بلاشبہ، وہ ایک باصلاحیت شخصیت ہیں اور خود کو مسلم ڈیموکریٹ سوشلسٹ (لیفٹ) کہتے ہیں۔ انہوں نے ایک انتہائی کامیاب انتخابی مہم چلائی ہے۔ دیگر سیاستدانوں کی طرح ان کا بھی ایک معاشی ایجنڈا ہے، لیکن یہ کہنا بجا ہوگا کہ ان کا معاشی ایجنڈا دوسروں سے بہتر ہے اور اس کی پیشکش کا انداز اس سے بھی زیادہ پرکشش ہے۔ یہ ایجنڈا مزدوروں اور غریبوں کے لیے موافق ہے۔ وہ سستی گروسری، قابل ِ برداشت رہائش، علاج معالجے، اور سستے یا مفت ٹرانسپورٹ کی بات کرتے ہیں۔ ان کی مہم میں صرف ایک نظریاتی نکتہ نمایاں ہے، اور وہ ہے اسرائیل اور نیتن یاہو کے بارے میں ان کے سخت بیانات۔

نیو یارک شہر کی آبادی تقریباً 8.

4 ملین ہے۔ یہ شہر پانچ بوروز (مین ہٹن، بروکلن، کوئنز، برونکس، اور اسٹیٹن آئی لینڈ) پر مشتمل ہے، جو مل کر ایک میٹروپولیٹن میونسپلٹی بناتے ہیں۔ نیو یارک میں 800 سے زائد لسانی گروہ آباد ہیں۔ یہاں زیادہ تر وہ لوگ رہتے ہیں جن کے ممالک ماضی میں برطانوی یا دیگر مغربی طاقتوں کی کالونیاں رہے اور بعد میں امریکی معاشی کالونیوں میں تبدیل ہوگئے۔ ان ممالک کے وسائل لوٹے گئے اور ان پر کرپٹ اور نااہل مقامی حکمران مسلط کیے گئے، جو امریکی امپائر کے وفادار تھے۔ جب یہ لوگ نیو یارک آتے ہیں تو یہاں بھی وہی مسائل پاتے ہیں جو ان کے اپنے ممالک میں تھے۔ تاہم، یہاں وہ انسانی حقوق، شہری آزادیوں، مزدوروں اور ورکرز کی تنظیموں اور تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ وہ مظاہرے اور ریلیاں نکالتے ہیں، کیونکہ یہاں انہیں اس کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ یہ عمل ایک طرح کا کیتھارسس فراہم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، ویتنام سے آئی ہوئی ایک چار فٹ کی لڑکی آٹھ فٹ اچھل کر نعرے لگاتی ہے۔ لیکن یہ رونے، چیخنے، چلانے، اور اچھلنے کودنے کی جمہوری آزادی نہ تو کسی انقلاب کی طرف لے جاتی ہے اور نہ ہی لے جا سکتی ہے۔ ویسے بھی خدا سے بیزار لوگوں کا انقلاب پہلے سے زیادہ تباہی لاتا ہے۔ خدا ہمیں ایسے انقلاب سے محفوظ رکھے۔ ہم خود نیو یارک اور واشنگٹن میں ایسی ریلیوں اور مظاہروں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔

نیو یارک کے اسکولوں میں منشیات کا بے تحاشا استعمال ہوتا ہے اور زنا بالجبر بہت کم عمری سے شروع ہو جاتا ہے۔ پرنسپل کی ٹیبل کی دراز میں طلبہ کے لیے کنڈوم رکھے جاتے ہیں۔ اسکولوں میں طرح طرح کے جنسی کھیل کھیلے جاتے ہیں، جن میں ہارنے والی لڑکی کو اپنا جسم ہارنا پڑتا ہے۔ نیو یارک اسٹیٹ چائلڈ ایبوز رپورٹنگ سسٹم کے مطابق 2021 میں 8 ہزار سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ اسکولوں میں غنڈہ گردی، تشدد، اور لڑائی جھگڑے عام ہیں۔ بچوں کے گینگ ہوتے ہیں، جن کے سرغنہ ہوتے ہیں اور ان کی جیبوں میں پستول اور ریوالور ہوتے ہیں۔ 2022-23 میں نیو یارک کے اسکولوں میں تشدد کے 3,500 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں 14 سال سے کم عمر کے بچے بھی شامل تھے۔ امریکا میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ ستر ہزار کم عمر لڑکیاں (19 سال سے کم) حاملہ ہوتی ہیں، جن میں سے کئی ہزار 15 سال سے کم عمر کی ہوتی ہیں۔ صرف نیو یارک شہر میں ہر سال 2 ہزار سے 3 ہزار نوعمر لڑکیاں حاملہ ہوتی ہیں، جو رضا مندی یا زنا بالجبر کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اب ہم جنسی کلچر بھی عام ہو چکا ہے، جو ڈیموکریٹک لبرل حکومتوں والے شہروں اور صوبوں میں زیادہ نمایاں ہے۔ اسکولوں، سڑکوں، پارکوں، اور دیگر عوامی مقامات پر دو لڑکوں یا مردوں، اور دو لڑکیوں یا عورتوں کا کھلے عام بوس و کنار کرنا اب ’’نیو نارمل‘‘ بن چکا ہے۔ لڑکوں کی پتلونیں پیچھے سے نیچے لٹکتی ہیں، جو ہم جنسی کلچر کا فیشن ہے۔ لڑکیاں ایسے کپڑے پہنتی ہیں کہ ان کے جسم کا ہر حصہ نمایاں ہو جاتا ہے۔ امریکی خاندانی نظام ٹوٹ چکا ہے۔ لوگوں میں تنہائی، شادی نہ کرنے اور زنا کے ذریعے دل بہلانے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ شادیاں ہوتی ہیں تو جلد ٹوٹ جاتی ہیں۔ یہاں 50 فی صد شادیاں طلاق پر ختم ہوتی ہیں۔ سنگل ماں اور سنگل باپ والے گھرانوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ امریکا کی روحانی دنیا تاریک سے تاریک تر ہوتی جا رہی ہے۔

گزشتہ سال میں نے ٹورنٹو سے نیو یارک بس کے ذریعے سفر کیا۔ یہ سفر 11 سے 13 گھنٹوں کا ہوتا ہے۔ اب سرحد کے دونوں طرف تفریحی بھنگ (Marijuana) کو قانونی حیثیت حاصل ہے، جس کے باعث نشہ آور اشیا کا استعمال بھی بڑھ گیا ہے۔ بس کے سفر میں کم از کم ایک ایسا شخص ملا جو نشے کی حالت میں تھا، اسے اپنے جسم پر قابو نہیں تھا، اور اس سے تعفن اٹھ رہا تھا۔ یہ میری برداشت سے باہر تھا اور اس کے بعد میں نے بس سے امریکا جانے سے توبہ کر لی۔ نیو یارک ڈاؤن ٹاؤن میں صبح سویرے پہنچا تو سڑک پر کئی مرد و خواتین زور زور سے لڑ رہے تھے۔ کم از کم ایک لڑائی جسم فروشی کی پوری قیمت نہ ملنے پر تھی۔ انگریزی کے ’’ایف‘‘ اور ’’ش‘‘ الفاظ کا خوب استعمال ہو رہا تھا۔ یہ منظر نیو یارک میں ہمیشہ دیکھنے کو ملتا ہے، لیکن اب اس میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا ہے۔

نیو یارک ایک گندا شہر ہے۔ یہاں فضائی آلودگی بہت زیادہ ہے اور سڑکوں، پارکوں اور عوامی مقامات پر صفائی کا نظام ناقص ہے۔ سب وے کا سفر گندگی کی وجہ سے بہت مشکل ہوتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مغرب اپنے تاریک دور میں، جو زیادہ پرانا نہیں، غلاظت کا ڈھیر تھا۔ فرانس میں جب مذہبی لوگ چلتے تھے تو ان کے گرد مکھیوں کے غول بھنبھناتے تھے۔ شاید اسی وجہ سے اعلیٰ جمالیاتی حس رکھنے والے مسلم فاتحین وہاں تک نہیں پہنچے۔ نیو یارک کی سب وے میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی ہوم لیس شخص اپنے کپڑوں میں غلاظت لے کر ڈبے میں داخل ہوتا ہے تو تمام مسافر وہ ڈبا چھوڑ کر نکل جاتے ہیں۔ لیکن اب لوگ اس کے عادی ہو چکے ہیں اور اپنی مدافعتی قوت بڑھا چکے ہیں۔

نیو یارک میں رہنے والوں کی اکثریت کم سے کم معاوضے والی نوکریاں کرتی ہے۔ انہیں ہفتہ وار تنخواہ ملتی ہے، جو جمعہ کی شام کو مل کر اتوار کے آخر میں خرچ ہو جاتی ہے۔ شراب، زنا، اور جوا ان کے پسندیدہ مشاغل ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے ہفتہ بھر کا میٹرو کارڈ لے کر وہ پیر سے خالی جیب کے ساتھ دوبارہ نوکری شروع کرتے ہیں۔ نیو یارک کے معاشی مسائل ہیں، جیسے دنیا بھر کے ہیں، لیکن روحانی

مسائل اس سے کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ مسلمانوں کے پاس کتاب، ہدایت، اور ایک زبردست خاندانی نظام تھا۔ ماں، باپ، بہن، بھائی، بیوی، بچے، خالہ، پھوپھی، ماموں، دادا، دادی، نانا، نانی، بھتیجے، بھانجے، اور ان تمام رشتوں میں سمایا ہوا ایک روحانی نظام تھا۔ ایک شاندار تعلیمی اور تربیتی نظام بھی موجود تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود مسلمانوں نے امریکی قوم اور معاشرے کو کچھ نہیں دیا۔ بلکہ بہت سے مسلمان مغربی تہذیب کی غلاظت میں ڈوب کر اس پر فخر کرنے لگے ہیں۔
یہ تمام باتیں ظہران ممدانی کی انتخابی مہم سے براہ راست تعلق نہیں رکھتیں۔ بلکہ وہ ان برائیوں کو ’’حقوق‘‘ کے دائرے میں رکھ کر ان کا چمپئن بن جائیں گے۔ عام مسلمانوں کی بات چھوڑیں، وہ لوگ جو دعوت دین، تبلیغ دین، اقامت دین، شہادتِ حق، اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے داعی تھے، اور نسلی قومیت کے بجائے خود کو ایک مشنری قوم کا فرد سمجھتے تھے، ان کا اسلام بھی نیو یارک میں ہر ہفتے کھانا تقسیم کرنے اور چند ریلیف کے کاموں تک محدود ہو گیا ہے۔ مسلمانوں کا مشن انبیائی فرائض ادا کرتے ہوئے انسانوں کو انصاف اور حقوق دلانا تھا، لیکن ہم خود اپنے حقوق کی بھیک مانگنے لگے ہیں۔ آج کا مسلمان زیادہ سے زیادہ مسلم قوم پرست بن گیا ہے، جس کا کام صرف مسلم حقوق کی لڑائی لڑنا ہے۔ نتیجتاً، وہ عملاً اسلام کا دشمن اور اپنی قومی خواہشات و مفادات کا غلام بن چکا ہے۔ ظہران ممدانی اور دنیا بھر کے سیاستدان ترقی کو خدا بنا کر اور معاشی ایجنڈوں کو لے کر جتنی بھی جنگیں لڑ لیں وہ روحانیت اور معیشت دونوں کو تباہ کریں گے۔ ان سے اس دنیا کے انسانوں کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ امریکی انسان جہنم کی طرف دوڑ لگا رہا ہے اور ہمارے چہروں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ہمارے دل و دماغ میں کوئی طوفان یا آہٹ نہیں اٹھتی۔ یہ افسوس کی بات ہے۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: نیو یارک میں اسکولوں میں نیو یارک کے نیو یارک ا ہوتی ہیں ہوتا ہے گیا ہے کے ہیں چکا ہے کے لیے ہے اور اور اس

پڑھیں:

حزب الله کو غیرمسلح کرنے کیلئے لبنان کے پاس زیادہ وقت نہیں، امریکی ایلچی

اپنی ایک تقریر میں ٹام باراک کا کہنا تھا کہ جنوبی لبنان میں حزب‌ الله کے پاس ہزاروں میزائل ہیں جنہیں اسرائیل اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ آج امریکی ایلچی "ٹام باراک" نے دعویٰ کیا کہ صیہونی رژیم، لبنان کے ساتھ سرحدی معاہدہ کرنے کے لئے تیار ہے۔ ٹام باراک نے ان خیالات کا اظہار منامہ اجلاس میں کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ یہ غیر معقول ہے کہ اسرائیل و لبنان آپس میں بات چیت نہ کریں۔ تاہم ٹام باراک نے جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود، روزانہ کی بنیاد پر لبنان کے خلاف صیہونی جارحیت کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے، حزب‌ الله کے خلاف سخت موقف اپنایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر حزب‌ الله، غیر مسلح ہو جائے تو لبنان اور اسرائیل کے درمیان مسائل کا خاتمہ ہو جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنوبی لبنان میں حزب‌ الله کے پاس ہزاروں میزائل ہیں جنہیں اسرائیل اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ ایسا کیا کیا جائے کہ حزب‌ الله ان میزائلوں کو اسرائیل کے خلاف استعمال نہ کرے۔

آخر میں ٹام باراک نے لبنانی حکومت کو دھمکاتے ہوئے کہا کہ لبنان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے، اسے جلد از جلد حزب‌ الله کو غیر مسلح کرنا ہوگا، کیونکہ اسرائیل، حزب‌ الله کے ہتھیاروں کی موجودگی کی وجہ سے روزانہ لبنان پر حملے کر رہا ہے۔ دوسری جانب حزب‌ الله کے سیکرٹری جنرل شیخ "نعیم قاسم" نے اپنے حالیہ خطاب میں زور دے کر کہا کہ لبنان كی جانب سے صیہونی رژیم كے ساتھ مذاكرات كا كوئی بھی نیا دور، اسرائیل كو كلین چِٹ دینے كے مترادف ہوگا۔ شیخ نعیم قاسم کا کہنا ہے کہ اسرائیل پہلے طے شدہ شرائط پر عمل درآمد کرے جس میں لبنانی سرزمین سے صیہونی جارحیت کا خاتمہ اور اسرائیلی افواج کا مکمل انخلاء شامل ہے۔ یاد رہے کہ ابھی تک اسرائیلی فوج، لبنان کے پانچ اہم علاقوں میں موجود ہے اور ان علاقوں سے نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ اس کے برعکس صہیونیوں کا دعویٰ ہے کہ حزب الله کے ہتھیاروں کی موجودگی ہی انہیں لبنان سے نکلنے نہیں دے رہی۔

متعلقہ مضامین

  • نیویارک میئر شپ کے امیدوار زہران ممدانی کی حمایت میں سابق امریکی صدر سامنے آ گئے
  • بہار کے انتخابی دنگل میں مسلمان
  • سہیل آفریدی کا جرم 9 مئی کے دیگر مجرموں سے زیادہ سنگین ہے، وزارت اعلیٰ کے اہل نہیں، اختیار ولی
  • وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی کی ویڈیوز منظرِ عام پر آنے کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا: اختیار ولی
  • سابق امریکی صدر اوباما کی نیویارک میئر کے امیدوار زہران ممدانی کو بھرپور حمایت کی یقین دہانی
  • حزب الله کو غیرمسلح کرنے کیلئے لبنان کے پاس زیادہ وقت نہیں، امریکی ایلچی
  • بابر اعظم نے روہت شرما کا ریکارڈ توڑ دیا، ٹی20 میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز بن گئے
  • ممدانی کی مقبولیت: نظام سے بیزاری کا اظہار!
  • بابر اعظم کا نیا سنگ میل ، ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلےباز بن گئے
  • تنزانیہ میں انتخابی دھاندلی کے الزامات، 3 دن میں 700 افراد کی ہلاکت کا خدشہ