Daily Ausaf:
2025-11-19@01:12:34 GMT

سانحہ سوات اور ہماری اجتماعی بے حسی

اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT

ایک طرف اٹلی ہے جہاں ایک کتے کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے ریسکیو کیا گیا۔ دوسری طرف افغانستان ہے جہاں دریا میں لہروں کی نظر ہوتے ہوئے ایک آدمی کو ہیلی کاپٹر سے بچایا گیا۔ جبکہ تیسری طرف ہم اور ہماری ایٹمی طاقت رکھنے والی حکومت ہے کہ جہاں 18میں سے ایک ہی خاندان کے چھوٹے بڑے 15 افراد دو گھنٹوں تک دریائے سوات کی تیز لہروں سے لڑتے لڑتے شہید ہو گئے، لیکن نہ کوئی اسلام آباد، راولپنڈی اور پشاور سے ریسکیو ہیلی کاپٹر پہنچا اور نہ ہی انہیں بچانے کے لئے کسی دوسرے نے ہمت کی۔ ان ڈوبنے والے ایک ہی خاندان کے افراد کا تعلق پنجاب سیالکوٹ سے تھا جو وہاں سیاحت کے لئے گئے ہوئے تھے۔ یہ المناک واقعہ سوات میں مینگورہ بائی پاس کے مقام پر اچانک طوفانی سیلابی ریلا آنے کی وجہ سے پیش آیا۔ عینی شاہدین کے مطابق اس دوران دو دفعہ ریسکیو کی ٹیمیں موقع پر پہنچیں مگر انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس سیلابی لہروں سے بچائو کا سامان نہیں ہے۔ دریا کے کنارے ہزاروں افراد اس بدنصیب خاندان کو ڈوبتے ہوئے دیکھتے رہے مگر شائد وہ سب ان کا تماشا دیکھنے آئے تھے کیونکہ ان میں کتنے ہی افراد لائیو ویڈیوز بناتے رہے، اور انہیں بچانے کے لئے کوئی آگے بڑھا اور نہ ہی کسی درد دل کی آنکھوں سے آنسو ٹپکا۔
یہ سانحہ سوات ہمارے بے حس معاشرے کی دردناک مگر حیرت انگیز ترین کہانی ہے جس میں ہم سب کسی نہ کسی سطح پر ایک ذیلی کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہاں کوئی سرکاری محکمہ ہے تو اس میں کرپشن کرتی کالی بھیڑیں ہیں، کوئی ڈاکٹر ہے تو وہ اپنی من پسند ادویات لکھ کر دے رہا ہے جس سے اسے کمیشن ملے گا اور آپریشن کر رہا ہے تو خطرہ ہے کہ کہیں وہ مریض کا صحتمند گردہ ہی نہ نکال لے، دودھ والا ہے تو وہ پانی ملا رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ وہ بے ایمانی سے پیسہ کمانے کے لئے اس میں پوڈر بھی ملا دے، اور کوئی دکان دار ہے تو سودا سلف خریدنے والے سے بل پر قیمت لگانے سے پہلے پوچھے گا کہ ایک نمبر مال چایئے، دو نمبر چاہیے یا پھر تین نمبر مال کی ضرورت ہے۔ ایک اور تصویر پاکستان کی یہ ہے کہ یہاں کرکٹ کے میچ کی پچ خشک کرنے کے لئے ہیلی کاپٹر ہوتا ہے، وزیراعظم، صدر، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور فوج کے لئے ہیلی کاپٹرز ہوتے ہیں، لیکن ریسکیو 1122 کے پاس جانیں بچانے کے لئے اس وقت کوئی ہیلی کاپٹر میسر نہیں تھا!
کہا جاتا ہے کہ 2019 ء میں پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی بہن علیمہ خان اور اس کی بیٹی چترال سیر کے لئے گئے تھے تو اس وقت بھی سیلاب سے راستے بند ہو گئے تھے اور علیمہ خان سمیت کئی سیاح چترال میں پھنس گئے تھے۔ تب پشاور سے فورا ًہیلی کاپٹر پہنچ گیا تھا اور انہیں بچا لیا گیا تھا۔ صوبہ کے پی کے میں 12 سال سے تحریک انصاف کی حکومت ہے مگر اس کی یہ کارکردگی ہے کہ اس پر کروڑوں روپے کے ’’بسکٹ‘‘ کھا جانے کا الزام ہے۔ اس نوع کے واقعات سوات، دیر اور چترال میں ہر سال پیش آتے ہیں۔ لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس دوران ریسکیو ٹیموں ہی کو فعال کر سکیں۔ اس سے قبل امسال صوبہ خیبر پختونخوا میں چترال کے مقام پر اسی نوعیت کا ایک واقعہ پیش آ چکا ہے لیکن کسی کو اس جیسے واقعات کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے کا خیال تک نہیں آیا جو انتہائی افسوسناک بات ہے۔
2010 ء میں بھی خیبر پختونخوا میں تباہ کن سیلاب آیا تھا۔ اس وقت عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت تھی مگر تب تیمرگرہ ایف سی گرائونڈ میں دو ہیلی کاپٹر ریسکیو آپریشن کے لئے ہر وقت تیار کھڑے ہوتے تھے۔ حالانکہ اس وقت نہ صرف سیلاب تھا، بلکہ دہشت گردی بھی اپنے عروج پر تھی۔ لیکن نجانے اس ’’تبدیلی سرکار‘‘ نے ایسے اندوہناک واقعات کی روک تھام کے لئے کیوں انتظامات نہ کیے کہ نہ گنڈا پور کی صوبائی حکومت ان قیمتی جانوں کو بچانے کے لیئے کچھ کر سکی اور نہ مقامی انتظامیہ ہی کسی کام آئی۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہیلی کاپٹر بچانے کے کے لئے

پڑھیں:

کیا نظام بدل گیا ہے؟

27ویں ترمیم کی منظوری کے بعد یہ بحث چل رہی ہے کہ کیا ملک کا نظام حکومت مضبوط ہوا یا کمزور۔ آئینی ترامیم حکومتیں اپنے اقتدار کو مضبوط اور نظام کو استحکام دینے کے لیے کرتی ہیں۔ آئینی ترامیم کبھی اپوزیشن نہیں کرتی۔ کیونکہ آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکا ر ہوتی ہے۔ اگر آپ کے پا س سادہ اکثریت ہو تو آپ حکومت بنا لیتے ہیں۔ اس لیے دو تہائی کے ساتھ اپوزیشن میں ہونا نا ممکن ہے۔ اس لیے آئین میں ترمیم کرنا اور قانون سازی کرنا بنیادی طو رپر حکومت کا ہی استحقاق ہے۔ حکومت چاہے تو اپوزیشن کو شامل کر سکتی ہے۔ اس کی بھی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ لیکن زیادہ مواقع پر حکومت نے خود ہی آئین سازی اور قانون سازی کی ہے۔

قانون سازی آسان کام ہے۔ اس کے لیے سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔ حکومت سادہ اکثریت پر ہی بنتی ہے۔ اگر مخلوط حکومت ہو تو قانون سازی مشکل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ آپ کو اتحادیوں کو منانا ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پاس خود سادہ اکثریت موجود ہو تو پھر قانون سازی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔ آئین میں ترمیم کے کے لیے دوتہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ دو تہائی اکثریت حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں مختلف سیاسی جماعتوں کو ملنا فطری نظر آتا ہے۔ لیکن پھر بھی اپوزیشن اس سے دور ہی رہتی ہے۔

اب موجود ترامیم کو دیکھیں۔ دوستوں کی رائے کہ اس ترمیم سے ملک میں نظام حکومت ہی بدل دیا گیا ہے۔ آئین کی بنیادی شکل ہی بدل دی گئی ہے۔ مجھے ان کی یہ بات سمجھ نہیں آرہی۔ کیا ملک میں آئینی معاملات دیکھنے کے لیے ایک الگ آئینی عدالت کے قیام سے ملک کے آئین کی شکل ہی بدل گئی ہے؟ کیا آئینی عدالت کے قیام سے نظام حکومت کی بنیادی شکل ہی بدل گئی ہے؟ آئینی عدالت میں بھی جج ہی لگائے گئے ہیں۔ آئین کی تشریح کرنا عدلیہ کا کام ہے۔

عدلیہ یہ کام ججز کے ذریعے کرتی ہے۔ اب 27ویں ترمیم کے بعد ملک کے آئین کی تشریح کاکام عدلیہ ہی کرے گا۔ جج ہی یہ کام کریں گے۔ نہ تو حکومت نے آئین کی تشریح کے راستے بند کیے ہیں۔ نہ ہی یہ کام ججز سے لے کر کسی اور کو دے دیا گیا ہے۔ مسئلہ تو تب ہوتا جب آئین کی تشریح کا کام عدلیہ سے لے کر کسی اور کو دے دیا جائے۔ ایسا نہیں ہوا۔ عدلیہ میں نئی عدالتوں کا قیام کوئی نیا کام نہیں ہے۔

کیا آئینی عدالت کے قیام سے عدلیہ کی آزادی ختم ہو گئی ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ یہ کوئی دلیل نہیں ، اگر کوئی خاص جج ہی آئینی کیس سنیں گے تو عدلیہ آزاد ہے، اگر وہ کیس نہ سنیں تو عدلیہ آزاد نہیں ہے۔ سب جج برابرہیں۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے کہ جج کا نام سن کر ہمیں ان کی سیاسی سوچ کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہ افسوسناک صورتحال ہے ۔ معاشرہ میں سیاسی تقسیم ہونا کوئی بری بات نہیں۔ لیکن نظام انصاف میں سیاسی تقسیم کوئی اچھی بات نہیں۔ نظام انصاف کو بہر حال غیر سیاسی اور غیر جانبدار ہوناچاہیے۔ اس لیے آج تنازعہ یہ نظر آرہا ہے کہ اب مخصوص جج آئینی معاملات کیوں نہیں سن سکیں گے۔ کیا آئینی عدالت الگ بننے سے عدلیہ کی آزادی ختم ہو گئی ہے؟ تو اس کے پیچھے کوئی دلیل نہیں ہے۔ عدلیہ میں کام کی تقسیم کی گئی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ عام آدمی کے مقدمات کی سپریم کورٹ میں باری ہی نہیں آرہی۔ ہزاروں لاکھوں مقدمات زیر التو ہیں۔ ججز آئینی معاملات میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ عام آدمی کے کیس کی باری ہی نہیں آتی۔ آج کی ترمیم ان مسائل کی وجہ سے بھی کی گئی ہے۔ میں صرف یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا عدلیہ کا سیاسی ایجنڈا نظر نہیں آرہا تھا؟ کیا عدلیہ کے چند ججز کی خاص سیاسی سوچ پوری عدلیہ پر غالب نظر ہوتی نظر نہیں آرہی تھی؟ معاملات غیرجانبدار نہیں رہے تھے۔

دوسرا مسئلہ ججز کے تبادلے کا ہے۔ کیا جج کا ایک ہائی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ میں تبادلے سے عدلیہ کی غیر جانبد اری ختم ہو جاتی ہے؟ یہ کیا منطق ہے کہ اگر جج صاحب ایک ہا ئی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ چلے جائیں گے تو ان کی آزادی ختم ہو جائے گی۔کیس تو ملک کے عام آدمی کا سننا ہے۔ انصاف تو عام آدمی کو دینا ہے۔ اب عام آدمی کا تعلق کس صوبے سے ہے، یہ کیوں اہم ہے۔ ایک ہائی کورٹ میں ہی جج کے فرائض دینا ہی کیوں عدلیہ کی آزادی سے مشروط ہے۔ تبادلہ ایک روٹین کا عمل ہے۔ فوج کے بڑے افسران کے تبادلے ہوتے ہیں۔

افسر شاہی میں تبادلے ہوتے ہیں۔ تبادلے کو انتقامی کارروائی کب سے سمجھا جانے لگا ہے، خاص جگہ پر فرائض دینے سے آپ آزاد ہیں۔ورنہ آزاد نہیں ہیں۔ خاص کیس سنیں گے تو آزاد ہیں۔ ورنہ آزاد نہیں ہیں۔ خاس بنچ میں ہونگے تو آزاد ہیں ورنہ آزاد نہیں ہیں۔ یہ منطق کوئی قابل فہم نہیں ہے۔ ایک تبادلے کے اختیار سے نہ تو عدلیہ کی آزادی ختم ہو گئی ہے اور نہ ہی ملک میں عدالتی نظام میں کوئی بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ وہی نظام ہے۔ پھر جج کے تبادلے کا نظام اٹھارویں ترمیم سے پہلے آئین میں موجود تھا۔ دوبارہ آگیا ہے۔ اس میں ایسی کوئی بڑی بات نہیں۔ اب ججز کے استعفوں کی بھی بات کر لیں۔ ابھی تک استعفے کم آئے ہیں۔ توقع سے کم آئے ہیں۔ جو آئے ہیں ان کی وجوہات الگ ہیں۔ وہ صرف 27ویں ترمیم کی وجہ سے نہیں آئے ہیں۔

اس کی دیگر وجوہات بھی ہیں۔ ان ججز کی رائے ہم سب کے سامنے ہی ہے۔ ان کے فیصلے ان کی سوچ کے عکا س رہے ہیں۔ اب ان کے استفعوں کو بھی ان کی اسی سوچ کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کیا اور استعفیٰ آئیں گے؟ حکومت کہہ رہی ہے کہ نہیں آئیں گے۔

عام رائے ہے کہ آئیں گے۔ لیکن لگتا ہے کہ استعفوں کو روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حکومت نہیں چاہتی کہ زیادہ استعفیٰ آئیں۔ اس لیے معاملا ت رک گئے ہیں۔ بات ہو رہی ہے۔ورنہ استعفے تو اکٹھے ہی آنے چاہیے تھے۔ ایک سوال سب پوچھتے ہیں کہ کتنے استعفے آئیں تو بات بن جائے گی۔ میں کہتا ہوں اگر استعفوں کا عدلیہ کے تناظر میں دیکھنا ہے تو سب کو دینے ہوںگے ورنہ سیاسی تقسیم کے تناظر میں ہی دیکھے جائیں گے۔ ہم خیال ججز کے تناظر میں ہی دیکھے جائیں گے۔ ابھی تک جتنے آئے ہیں، وہ بہت ہی ناکافی ہیں۔ اسی لیے کسی تحریک کا کوئی ماحول نظر نہیں آرہا۔ بات سمجھیں۔ لوگ اتنے بیوقوف نہیں کہ چند استعفوں کے جھانسے میں آجائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • سوات قومی جرگہ کا دسمبر میں لویہ جرگہ بلانے کا عندیہ
  • کیا نظام بدل گیا ہے؟
  • کچے مکانات، ہماری ثقافت اور تاریخ کے محافظ
  • ثوب الفرح: متحدہ عرب امارات کا غزہ میں اجتماعی شادیوں کے انعقاد کا اعلان
  • سندھ بلڈنگ ،پی ای سی ایچ ایس میں بلند عمارتوں کی بے ضابطہ تعمیر
  • ہماری کائنات اور اس کے راز
  • کراچی میں موت کا رقص جاری
  • اگر آپ پیدل ہماری طرف آئیں گے تو ہم دوڑ کر آپ کی طرف آئیں گے: فضل الرحمان کا ڈھاکا میں خطاب
  • غیر مسلم شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہماری ترجیح ہے: صدرِ زرداری  
  • آپ پیدل ہماری طرف آئیں گے تو ہم دوڑ کر آپکی طرف آئیں گے، مولانا فضل الرحمان کا ڈھاکہ میں خطاب