نئے صوبے تقسیم نہیں بلکہ تعمیرکا ذریعہ ہیں(آخری حصہ)
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
ریاست چترال کو 1969 میں پاکستان میں باقاعدہ طور پر ضم کر کے صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بنایا گیا۔ چترال اپنی ثقافتی، لسانی، جغرافیائی اور نسلی انفرادیت کے باعث باقی صوبے سے کافی مختلف ہے، اس کے علاقوں میں چترال، اپر چترال، لوئر جب کہ اس سے ملحق وادی کیلاش اور بعض شمالی پہاڑی علاقے شامل ہیں۔
ان علاقوں میں بولی جانے والی زبانوں میں کھوار، کیلاشہ، یدغہ، اردو اور پشتو دفتری امور میں بولی جاتی ہے۔ ان کی الگ موسیقی، شاعری اور ثقافتی ورثے ہیں۔ ان کی زبان کالاشہ ہے، یہاں کی آبادی قدیم یونانی و ہندآرائی عقائد سے متاثر انفرادی دیو مالائی نظام، یہ لوگ بتوں، فطری عناصر، سورج، چاند اور موسموں کی پرستش کرتے ہیں۔ ان کی مذہبی رسومات میں مختلف تہوار بھی دنیا بھر میں مشہور ہیں جیسا کہ چاؤ مس، او چاؤ، پولی وغیرہ۔ وادیاں ماحولیاتی لحاظ سے حساس، مگر بے حد خوبصورت اور سیاحتی مرکز ہیں۔ الگ صوبہ یا خود مختار علاقہ بننے سے ان کے رسم و رواج، زبان اور تہذیب کو آئینی تحفظ دیا جا سکتا ہے۔
کالاش اقلیت کو زمین، مذہب اور تعلیم کے شعبے میں آئینی سطح پر خود اختیاری ملنی چاہیے۔ یونیسکو اور اقوام متحدہ نے بارہا پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کالاش ثقافت کے تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ فرانس، جرمنی، جاپان، اور کئی یورپی ملکوں نے بھی کالاش ثقافت کی مالی معاونت اور تحقیقی مدد پیش کی ہے۔
بلتستان کو ہی لے لیں، یہ پاکستان کے شمال میں واقع گلگت بلتستان کا ایک تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی خطہ ہے۔ اسے ’’ لٹل تبت‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کے باسیوں کی زبان، مذہب، رسم و رواج اور ثقافت تبتی اور ایرانی اثرات لیے ہوئے ہیں۔ یہ خطہ اپنی قدرتی خوبصورتی، دنیا کی بلند ترین چوٹیاں گلیشیئرز، ثقافتی ورثے اور مہمان نوازی کے لیے عالمی شہرت رکھتا ہے۔
اس کے علاقے اسکردو، شگر،گانچھے (خپلو) وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں بلتی زبان بولی جاتی ہے، اس کی ثقافت میں تبتی اور فارسی فن تعمیر، موسیقی اور لباس وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں کے ٹو جیسے دنیا کے بلند ترین پہاڑ ہیں، اس کے علاوہ مشربرم، گاشر برم اور بیافو جیسے گلیشیر اس کے حسن کو چار چاند لگا رہے ہیں۔ دریائے سندھ کا آغاز بھی یہیں سے ہو رہا ہے۔
یہاں دیوسائی، شنگریلا، ستپارہ، شگر فورٹ، نبلوفورٹ جیسے سیاحتی مقامات عالمی اہمیت کے حامل ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ نہ یہاں کے باسیوں کو مکمل شہری حقوق حاصل ہیں، نہ ہی قومی اسمبلی یا سینیٹ میں نمائندگی ہے۔ حالیہ دہائیوں میں بلتستان کے باسیوں نے الگ شناخت، آئینی تحفظ اور اختیارات کی منتقلی کے مطالبات شدت سے اٹھائے ہیں۔ یہاں کی انتظامی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ اس کو الگ صوبہ بنا دیا جائے تو مقامی نمائندگی اس کی مزید ترقی و عروج کے لیے کام کرے گی۔ اس علاقے کی دفاعی اہمیت بھی مسلم ہے چونکہ یہاں سیاچن، کارگل اور سرحدی علاقوں کا تحفظ ضروری ہے اور ان کی بلتستانی شناخت قومی سلامتی سے جڑی ہے تو ان کی احساس محرومی کا خاتمہ ہوگا سیاسی نظر اندازی کا تدارک ہو سکے گا۔
پاکستان کی ریاستی وحدت اور عوامی خوشحالی اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم صرف لسانی بنیادوں ہی پر نہیں، بلکہ ثقافتی، جغرافیائی اور انتظامی بنیادوں پر بھی نئے صوبے تشکیل دیں۔ ان ہی اصولوں پر مبنی ایک اہم مطالبہ ’’ پوٹھوہار یا راولپنڈی صوبے‘‘ کے قیام کا ہے، جو برسوں سے زیر بحث ہے مگر عملی اقدام سے محروم ہے۔ اس کے علاقوں میں راولپنڈی، ٹیکسلا، اٹک، جہلم، چکوال، سرگودھا، خوشاب اور تلہ گنگ وغیرہ شامل ہیں۔
یہ علاقہ پنجاب کے دوسرے لسانی، ثقافتی اور مزاجی طور پر بالکل مختلف ہے۔ یہاں کی زبان پوٹھواری / پہاڑی ہے، جو پنجابی اور کشمیری کا سنگم سمجھی جاتی ہے۔ مع داستانیں (راجہ رسالو، سوہنی مہینوال)، روایتی گیت اور ہنر یہاں کی شناخت ہیں۔ راولپنڈی اور ارد گرد کے علاقوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، جب کہ لاہور میں بیٹھ کر فیصلے کرنا مقامی مسائل کا حل نہیں۔ پوٹھوہاری زبان اور ثقافت بتدریج دب رہی ہے۔ صوبہ بننے سے یہ زبان اسکولوں، میڈیا اور سرکاری سطح پر فروغ پاسکتی ہے۔
پوٹھواری (علیحدہ شناخت، مکمل پنجابی نہ سرائیکی)، کئی یونیورسٹیاں، میڈیکل کالج، اسپتال موجود مگر بجٹ میں نظر انداز۔ راولپنڈی و پوٹھوہار کے عوام کو اپنی شناخت، اختیارات اور ترقیاتی فیصلوں میں خود مختاری حاصل ہوگی۔ چھوٹے اضلاع (جہلم، چکوال، اٹک) براہ راست مستفید ہوں گے۔ تعلیم، روزگار، ثقافت، زبان، سیاحت ہر پہلو میں نئی راہیں کھلیں گی۔ پوٹھو ہار صوبہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ صرف انتظامی تقسیم نہیں بلکہ ثقافتی بقاء زبان کے تحفظ اور مقامی اختیارات کے لیے بنیاد بنے گا۔ راولپنڈی، چکوال، اٹک، جہلم سب کو وہ حیثیت ملے گی جس کے وہ برسوں سے منتظر ہیں۔ پاکستان کی ترقی چھوٹے صوبوں سے ہی جڑی ہے اور پوٹھو ہار اس سمت ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔
پاکستان ایک کثیر اللسانی اورکثیر الثقافتی ملک ہے جہاں ہر لسانی اکائی کی شناخت، ترقی اور خود مختاری کا احترام ریاست کی وحدت کو مزید مضبوط بناتا ہے۔ انھی اصولوں پر مبنی ایک پرانا اور مسلسل دہرایا جانے والا مطالبہ پشتونخوا بلوچستان یعنی پشتون بیلٹ کو ایک علیہ علیحدہ صوبہ بنانے کا ہے۔
یہ مجوزہ صوبہ بلوچستان کے شمالی و شمال مغربی علاقوں پر مشتمل ہو سکتا ہے جن میں کوئٹہ، پیشین، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، ژوب، لورالائی، ڈکی، موسی خیل، شیرانی، بارکھان اور سی شامل ہیں۔ ان علاقوں کے پشتونوں کا ماننا ہے کہ کوئٹہ اور ارد گرد کا علاقہ زیادہ آبادی، زیادہ تعلیم اور وسائل کے باوجود صوبہ بلوچستان کے اندر سیاسی طور پر کمزور رکھا گیا ہے۔
پشتون بیلٹ کو صوبائی بجٹ، ترقیاتی منصوبوں اور انتظامی فیصلوں میں وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو بلوچ اکثریتی علاقوں کو دی جاتی ہے۔ پشتون بیلٹ کے لوگوں کو اپنی زبان،کلچر، تعلیم اور وسائل کے تحفظ و فروغ کے لیے خود اپنا انتظامی ڈھانچہ چاہیے۔ محمود خان اچکزئی کی قیادت میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (PKMAP) برسوں سے یہ مطالبہ دہرا رہی ہے۔ ANP بھی اس کی حمایت کرچکی ہے۔ بلوچ قوم پرستوں میں کچھ اس کے مخالف ہیں،کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے بلوچستان کی وحدت کو چیلنج ہوگا۔
پاکستان کے سب سے بڑے مگرکم ترقی یافتہ صوبے بلوچستان کا ایک انتہائی اہم مگر نظر انداز شدہ علاقہ مکران ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے بلوچستان کا جنوبی حصہ اور پاکستان کا ساحلی گھماؤ دارکنارہ مکران صرف جغرافیائی اہمیت نہیں رکھتا، بلکہ سی پیک،گوادر بندرگاہ، معدنی وسائل اور سمندری معیشت کے لحاظ سے بھی ایک قومی اثاثہ ہے، لیکن بد قسمتی سے یہ علاقہ سیاسی، معاشی اور انتظامی نظراندازی کا شکار ہے۔
اسی تناظر میں مکران کو ایک علیحدہ صوبہ بنانے کا مطالبہ اب صرف ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک قومی ضرورت بنتا جا رہا ہے۔ ان کے علاقوں میں گوادر، کیچ یعنی تربت، پنجگور، لسبیلہ، ہوشاب، پسنی، گوادر، جیوانی اور ماڑا جیسے ساحلی علاقے شامل ہیں۔ یہ خطہ پاکستان کا وہ حصہ ہے جہاں ساحل، معدنیات، تجارت اور ثقافت کا حسین امتزاج ہے۔ یہاں کی زبان بلوچی جس کا لہجہ مکرانی ہے اور براہوی ہے۔ ثقافتی لحاظ سے یہ علاقہ شمالی بلوچستان سے مختلف ہے۔ مکران کی روایتی موسیقی، بحری لوک داستانیں اور رقص اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔گوادر اور سی پیک کا مرکز مکران میں ہے، لیکن مقامی آبادی اس ترقی سے محروم ہیں۔ الگ صوبہ ہونے کی صورت میں مقامی نمائندگی اور شراکت داری ممکن ہوگی۔
میں آخر میں یہ ضرورکہوں گی کہ نئے صوبے پاکستان کوکمزور نہیں کریں گے، بلکہ اسے زیادہ مضبوط، متوازن اور یکساں ترقی یافتہ ملک بنائیں گے۔ ہمیں ان فیصلوں سے گریز نہیں کرنا چاہیے جن سے محرومیاں ختم ہوں، ہر پاکستانی خود کو اس ملک کا اہم اور برابرکا شہری محسوس کرے۔ اب وقت ہے کہ پاکستان کی ہر لسانی، تہذیبی اور جغرافیائی اکائی کو اس کا حق دیا جائے تاکہ ’’ ہم ایک قوم، ایک پاکستان‘‘ کو صرف نعرے کی بجائے ایک عملی حقیقت میں بدل سکیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: علاقوں میں کے علاقوں اور ثقافت شامل ہیں جاتی ہے کی زبان یہاں کی کے لیے اور ان
پڑھیں:
میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
مہمانِ خصوصی ستیش نمبودری پاد نے اپنے خطاب میں کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ صرف ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ جدید ہندوستان کی تاریخ، ثقافت، ترقی اور امنگوں کی علامت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنے 105ویں یومِ تاسیس کے موقع پر ایک شاندار پروگرام کا انعقاد کیا۔ یہ خصوصی سیمینار جامعہ کے نیلسن منڈیلا سینٹر فار پیس اینڈ کانفلکٹ ریزولوشن کی جانب سے منعقد کیا گیا، جس کا عنوان تھا "مہاتما گاندھی کا سوراج"۔ اس موقع پر "دور درشن" کے ڈائریکٹر جنرل کے ستیش نمبودری پاد نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی، جبکہ پروگرام کی صدارت جامعہ کے وائس چانسلر پروفیسر مظہر آصف نے کی۔ اس موقع پر متعدد اسکالروں اور ماہرین تعلیم نے مہاتما گاندھی کے نظریات اور ان کے سوراج کے تصور کی عصری معنویت پر اپنے خیالات پیش کئے۔ مہمانِ خصوصی کے ستیش نمبودری پاد نے اپنے خطاب میں کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے تاریخی اور تحریک انگیز ادارے میں بولنا اپنے آپ میں فخر کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ صرف ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ جدید ہندوستان کی تاریخ، ثقافت، ترقی اور امنگوں کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوراج صرف سیاسی آزادی نہیں بلکہ خود نظم، اخلاقیات اور اجتماعی بہبود کا مظہر ہے۔ انہوں نے مہاتما گاندھی کا مشہور قول نقل کیا "دنیا میں ہر ایک کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کافی ہے، مگر کسی کے لالچ کے لئے نہیں"۔
ڈاکٹر نمبودری پاد نے بتایا کہ جب وہ نیشنل کونسل فار رورل انسٹیٹیوٹس (این سی آر آئی) میں سکریٹری جنرل تھے تو انہوں نے وردھا کا دورہ کیا جہاں انہیں گاندھیائی مفکرین نارائن دیسائی اور ڈاکٹر سدرشن ایینگر سے رہنمائی حاصل ہوئی۔ انہوں نے یجروید کے منتر "وشوَ پُشٹم گرامے اَسمِن انا تورم" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "حقیقی سوراج متوازن دیہی خوشحالی اور انسانی ہم آہنگی میں پوشیدہ ہے"۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں "آدرش پسندی بمقابلہ حقیقت پسندی"، "ترقی بمقابلہ اطمینان" اور "شہری زندگی بمقابلہ دیہی سادگی" کے تضادات میں گاندھی کا سوراج انسانیت کے لئے ایک اخلاقی راستہ پیش کرتا ہے۔ پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر مظہر آصف نے کہا کہ دنیا مہاتما گاندھی کو پڑھ کر اور سن کر جانتی ہے، لیکن میں گاندھی میں جیتا ہوں، کیونکہ میں چمپارن کا ہوں، جہاں سے گاندھی کے ستیاگرہ کی شروعات ہوئی تھی۔