پاکستان میں دل کے امراض خطرناک حد تک بڑھ گئے، بیماریوں سے ہونے والی 55 فیصد اموات کی وجہ ہارٹ اٹیک
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: پاکستان میں دل کے امراض وبائی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں، حالیہ تحقیق کے مطابق ملک میں بیماریوں کے باعث ہونے والی اموات میں 55 فیصد ہارٹ اٹیک اور دل کی دیگر پیچیدگیوں کے سبب ہو رہی ہیں۔
ڈریپ کے سی ای او ڈاکٹر عبیداللہ نے عوامی تشویش کو کم کرتے ہوئے واضح کیا کہ کورونا ویکسین کا ہارٹ اٹیک کی شرح میں اضافے سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ معمولی بیماریوں کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے کیونکہ بعض عارضے خاموش قاتل ثابت ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس جیسی بیماریاں ابتدا میں واضح علامات نہیں دیتیں، لیکن یہ جگر اور گردے سمیت جسم کے دیگر اعضاء کو شدید متاثر کر دیتی ہیں۔ اکثر یہ اس وقت سامنے آتی ہیں جب اعضا 90 فیصد تک ناکارہ ہو چکے ہوتے ہیں، اور یہی عوامل بالآخر دل کے دورے کا باعث بنتے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں ایک پروفیسر کے کلاس کے دوران گرنے کے واقعے کو کووِڈ ویکسین سے جوڑنے کی قیاس آرائیوں کو بھی بے بنیاد قرار دیا۔
ماہر امراضِ قلب ڈاکٹر اختر بندیشہ نے وضاحت کی کہ دل کے دورے دو طرح کے ہو سکتے ہیں۔ پہلا وہ جب مریض کو سینے میں شدید تکلیف ہوتی ہے اور فوری طور پر اسپتال پہنچانا پڑتا ہے، جبکہ دوسرا وہ جب دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو کر رکنے لگتی ہے، جس سے بلڈ پریشر گر جاتا ہے اور مریض زمین پر گر پڑتا ہے۔ ایسے کیسز میں فوری طور پر دل کو جھٹکا دے کر (ڈیفبریلیٹر یا ہاتھوں کے ذریعے) دوبارہ دھڑکن بحال کرنا پڑتی ہے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ مرغن اور چکنی غذاؤں سے پرہیز، تمباکو نوشی ترک کرنے اور باقاعدہ ورزش کو معمول کا حصہ بنا کر دل کے دورے کے خطرے کو نمایاں حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔
.
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
لوگوں چیٹ جی پی ٹی پر کیاکیا سرچ کرتے ہیں؟ کمپنی نے تفصیلات جاری کر دیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اوپن اے آئی نے چیٹ جی پی ٹی کے عالمی استعمال پر پہلی تفصیلی رپورٹ جاری کردی ہے جس کے نتائج حیران کن ثابت ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جب نومبر 2022 میں چیٹ جی پی ٹی متعارف کرایا گیا تو اسے دفتری امور کا گیم چینجر قرار دیا گیا تھا کیونکہ یہ ای میلز کے جواب دینے اور دفتری مراسلے تحریر کرنے میں مدد دیتا تھا۔ مگر تازہ رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا بھر میں زیادہ تر صارفین اس اے آئی ٹول کو ذاتی زندگی کے معاملات میں استعمال کر رہے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق 2024 کے وسط تک چیٹ جی پی ٹی پر ہونے والی لگ بھگ 50 فیصد گفتگو ملازمت سے متعلق تھی، تاہم 2025 کے وسط تک یہ شرح گھٹ کر صرف 27 فیصد رہ گئی۔ اس کمی کے باوجود اس ٹیکنالوجی کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر ہفتے 70 کروڑ سے زائد افراد چیٹ جی پی ٹی کا استعمال کرتے ہیں اور روزانہ تقریباً ڈھائی ارب میسجز بھیجے جاتے ہیں، یعنی ہر سیکنڈ 29 میسجز بھیجے جاتے ہیں۔
اوپن اے آئی کی یہ رپورٹ نیشنل بیورو آف اکنامک ریسرچ، ڈیوک یونیورسٹی اور ہارورڈ یونیورسٹی کے اشتراک سے تیار کی گئی۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اب صارفین چیٹ جی پی ٹی کو زیادہ تر تین بڑی کیٹیگریز کے لیے استعمال کرتے ہیں: پریکٹیکل گائیڈنس، معلومات کا حصول اور رائٹنگ۔ پریکٹیکل گائیڈنس سب سے عام کیٹیگری ہے، جس میں صارفین مختلف چیزوں کو سمجھنے، سیکھنے اور تخلیقی خیالات کے لیے چیٹ بوٹ سے رجوع کرتے ہیں۔ معلومات کے حصول کو روایتی سرچ انجنز کا متبادل قرار دیا گیا ہے جبکہ رائٹنگ میں ای میلز، دستاویزات، ترجمہ اور ایڈیٹنگ شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ملازمت سے جڑے کاموں میں سب سے زیادہ استعمال رائٹنگ کے لیے ہوتا ہے اور جون 2025 میں اس کی شرح 40 فیصد رہی۔ جبکہ کمپیوٹر پروگرامنگ سے متعلق گفتگو محض 4.2 فیصد تک محدود رہی۔ اگرچہ ذاتی مقاصد کے لیے استعمال بڑھا ہے، لیکن ورچوئل تعلقات یا سماجی و جذباتی مسائل پر گفتگو کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ خواتین چیٹ جی پی ٹی کو مردوں کے مقابلے میں زیادہ استعمال کرتی ہیں، جس کی شرح 52 فیصد ہے۔ صارفین میں سے 46 فیصد افراد کی عمریں 18 سے 25 سال کے درمیان ہیں جو زیادہ تر اپنے مشاغل اور ذاتی دلچسپیوں پر سوالات کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ چیٹ جی پی ٹی کا زیادہ تر استعمال اسمارٹ فونز پر ہورہا ہے اور یہ ٹول تیزی سے کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں مقبول ہورہا ہے۔