عام زکام یا فلو بھی ہارٹ اٹیک کے خطرے میں اضافہ کر سکتے ہیں، طبی تحقیق
اشاعت کی تاریخ: 31st, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حالیہ طبی تحقیق نے ایک چونکا دینے والا انکشاف کیا ہے کہ صرف بڑی یا خطرناک بیماریاں ہی نہیں بلکہ عام وائرل انفیکشنز جیسے فلو، زکام یا کورونا وائرس بھی ہارٹ اٹیک کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق جب جسم کسی وائرس سے لڑنے کی کوشش کرتا ہے تو اس دوران پیدا ہونے والی سوزش، خون کے بہاؤ میں تبدیلی اور آکسیجن کی کمی دل پر دباؤ ڈالتی ہے، جو بعض اوقات مہلک نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔
تحقیق کے مطابق جب کوئی شخص فلو یا نزلہ زکام میں مبتلا ہوتا ہے تو مدافعتی نظام متحرک ہو جاتا ہے۔ اس عمل میں جسم کے مختلف حصوں میں سوزش بڑھ جاتی ہے، جو خون کی نالیوں کی دیواروں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ یہی عمل ایتھروسکلروسس یعنی شریانوں میں چکنائی جمنے کے عمل کو تیز کرتا ہے۔ اگر یہ چکنائی کسی نالی کو مکمل طور پر بند کر دے تو دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔
مزید برآں کچھ وائرس ایسے بھی ہوتے ہیں جو خون کو گاڑھا کر دیتے ہیں۔ یہ کیفیت جسم میں خون کے لوتھڑے بننے کا باعث بنتی ہے، جو اگر دل یا دماغ کی نالی میں پھنس جائیں تو نتیجہ ہارٹ اٹیک یا فالج کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
ماہرین نے اس تحقیق میں اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ سانس کی نالی کے وائرس، جیسے فلو یا کورونا ، جسم میں آکسیجن کی سطح کم کر دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں دل کو زیادہ تیزی سے کام کرنا پڑتا ہے تاکہ جسم کو مناسب آکسیجن فراہم کی جا سکے۔ اگر دل پہلے ہی کسی بیماری کا شکار ہو تو یہ دباؤ مزید خطرناک ہو سکتا ہے۔
تحقیق میں ایک اور اہم پہلو پر روشنی ڈالی گئی کہ بعض وائرس براہِ راست دل کے پٹھوں پر حملہ کرتے ہیں۔ یہ حالت مایوکارڈائٹس کہلاتی ہے، جس میں دل کے پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں اور دل کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ بعض اوقات یہی عمل ہارٹ اٹیک جیسی علامات پیدا کر دیتا ہے۔
ماہرین امراضِ قلب کا کہنا ہے کہ عام فلو یا زکام کو معمولی سمجھ کر نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، خاص طور پر اگر مریض کو پہلے سے ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس یا کولیسٹرول کا مسئلہ ہو۔ ایسے افراد کو وائرل بیماری کے دوران دل کی دھڑکن، سانس لینے میں دشواری یا سینے میں بھاری پن محسوس ہو تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
دل کی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے طبی ماہرین نے تجویز دی ہے کہ سردیوں کے موسم میں ویکسین لگوانا، پانی کا زیادہ استعمال، متوازن غذا، ہلکی ورزش اور نیند کا مناسب دورانیہ برقرار رکھنا ضروری ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ہارٹ اٹیک
پڑھیں:
ملک شیک میں کیلے کا اضافہ دل و دماغ کے لیے فوائد کو کم کر دیتا ہے، تحقیق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پھلوں کے بنے ہوئے ملک شیک عام طور پر ایک صحت بخش مشروب سمجھے جاتے ہیں جو توانائی اور غذائیت دونوں فراہم کرتا ہے، تاہم امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق نے اس حوالے سے ایک دلچسپ اور حیران کن انکشاف کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر ملک شیک میں کیلا شامل کیا جائے تو یہ مشروب کے صحت بخش اثرات کو نمایاں طور پر کم کر دیتا ہے، خاص طور پر وہ فائدے جو دل اور دماغ کی کارکردگی کو بہتر بناتے ہیں۔
کیلیفورنیا یونیورسٹی کے محققین نے اپنی تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ دودھ میں مختلف پھل شامل کرنے سے جسم پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور غذائی اجزا کس حد تک جذب ہوتے ہیں۔
اس مطالعے میں انہوں نے خاص طور پر ایک انزائم ’پولی فینول آکسائیڈیز‘پر توجہ دی جو پھلوں میں پایا جاتا ہے اور جسم میں ’فلیونولز‘کے جذب پر اثر انداز ہوتا ہے۔ فلیونولز وہ اہم حیاتیاتی مرکبات ہیں جو دل و دماغ کی صحت کے لیے انتہائی مفید سمجھے جاتے ہیں اور یہ سیب، بیریز، انگور اور چاکلیٹ جیسے غذائی ذرائع میں بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔
تحقیق کے نتائج کے مطابق جب دودھ میں مختلف پھلوں کے ساتھ کیلا شامل کیا گیا تو مشروب میں موجود فلیونولز کی سطح 84 فیصد تک کم پائی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کیلا دیگر پھلوں کے ساتھ مل کر جسم میں ان مفید مرکبات کے جذب کو نمایاں طور پر روکتا ہے، جس کے نتیجے میں دل اور دماغ کو حاصل ہونے والے فوائد کم ہو جاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دریافت غذائی امتزاج کے حوالے سے ایک اہم ہے ۔ یعنی بعض اوقات صحت مند غذائیں بھی اگر غلط امتزاج میں کھائی جائیں تو ان کے فوائد گھٹ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیلا اپنی جگہ ایک مفید اور توانائی بخش پھل ہے، مگر جب اسے دودھ میں دیگر پھلوں کے ساتھ مکس کیا جاتا ہے تو اس کے کیمیائی اجزا دیگر غذائی مرکبات کے جذب کے عمل میں مداخلت کرتے ہیں۔
تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ بہتر کارڈیو میٹابولک صحت، یعنی دل اور جسم کے میٹابولزم کے افعال کو درست رکھنے کے لیے روزانہ 400 سے 600 ملی گرام فلیونولز کا جذب ہونا ضروری ہے۔ اگر یہ سطح کم ہو جائے تو دل کے امراض، فالج، ذیابیطس اور جگر کی چربی جیسے مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ماہرین نے مشورہ دیا کہ اگر کیلا استعمال کرنا مقصود ہو تو اسے علیحدہ کھایا جائے، نہ کہ دیگر فلیونولز سے بھرپور پھلوں جیسے بیریز یا سیب کے ساتھ ملک شیک میں ملایا جائے۔
اس کے علاوہ چائے جیسے مشروبات بھی فلیونولز کا ایک مؤثر ذریعہ ہیں، تاہم ان کی تیاری کے طریقوں پر مزید تحقیق جاری ہے تاکہ یہ جانا جا سکے کہ کس طرح ان غذائی اجزا کو جسم میں زیادہ بہتر انداز میں جذب کیا جا سکتا ہے۔
یہ تحقیق جرنل فوڈ میں شائع ہوئی ہے اور اسے غذائیت کے ماہرین ایک اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں، جو مستقبل میں خوراک کے امتزاجات پر مزید سائنسی مطالعات کی بنیاد بن سکتی ہے۔
 حکومت عوام کو سڑکوں پر نکلنے کے لیے مجبور کررہی ہے،شوکت یوسفزئی
حکومت عوام کو سڑکوں پر نکلنے کے لیے مجبور کررہی ہے،شوکت یوسفزئی