رات کو زیادہ تیز روشنی اُدھیڑ عمر افراد میں فالج اور ہارٹ فیل کا خطرہ بڑھاتی ہے، تحقیق
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
رات کے وقت زیادہ تیز روشنی میں رہنا صرف نیند کی خرابی کا باعث نہیں بنتا بلکہ ادھیڑ عمر افراد کے لیے سنگین دل اور دماغی امراض کے خطرات میں بھی اضافہ کر سکتا ہے۔
حالیہ طبی تحقیقات سے انکشاف ہوا ہے کہ جو لوگ رات میں مصنوعی روشنی کے زیرِ اثر رہتے ہیں، ان میں فالج اور ہارٹ فیلیئر جیسے خطرناک امراض لاحق ہونے کے امکانات نمایاں طور پر زیادہ ہوتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق نیند کے دوران جسم کی بحالی اور اعضا کی کارکردگی کا توازن روشنی کے اثر سے متاثر ہوتا ہے۔ زیادہ روشنی دماغ کے سرکیڈین ردم (Circadian Rhythm) کو بگاڑ دیتی ہے، جو جسم کے قدرتی سونے جاگنے کے نظام کو کنٹرول کرتا ہے۔
اس خلل کے نتیجے میں نیند نہ صرف کم ہوتی ہے بلکہ اس کا معیار بھی متاثر ہوتا ہے، جو بعد ازاں بلڈ پریشر، دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی اور ہارمونز کے توازن میں بگاڑ پیدا کرتا ہے۔
تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو لوگ سونے کے وقت موبائل، ٹی وی یا کمرے کی روشنیاں بند نہیں کرتے، ان میں کورٹیسول جیسے اسٹریس ہارمون کی سطح بڑھ جاتی ہے۔ یہ ہارمون جسم میں مسلسل دباؤ پیدا کرتا ہے، جو دل کی رگوں کو سخت کرتا ہے اور دل کے پٹھوں پر اضافی بوجھ ڈالتا ہے۔ نتیجتاً وقت کے ساتھ ساتھ ہارٹ فیلیئر یا دل کے دورے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
ماہرین نے مزید وضاحت کی ہے کہ رات کی روشنیاں دماغی خلیات پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں، جس سے دماغی دباؤ اور مائیکرو سلیپ (چند سیکنڈ کی بے خبر نیند) جیسے مسائل بڑھتے ہیں۔ یہ معمولی دکھائی دینے والے اثرات طویل مدت میں دماغی خون کی روانی میں خلل ڈال کر فالج کے خطرات میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ رات کے وقت نیند کے دوران ماحول کو زیادہ سے زیادہ اندھیرا رکھنا چاہیے۔ خاص طور پر موبائل فون، لیپ ٹاپ یا ایل ای ڈی لائٹس کا استعمال سونے سے کم از کم ایک گھنٹہ پہلے ترک کر دینا بہتر ہے۔ سادہ اندھیرا ماحول نیند کے معیار کو بہتر بناتا ہے، جسم کے ہارمونی توازن کو برقرار رکھتا ہے اور دل و دماغ کی صحت کے لیے قدرتی تحفظ فراہم کرتا ہے۔
طبی ماہرین کا مشورہ ہے کہ اگر نیند کے دوران روشنی کی ضرورت ہو تو مدھم یا سرخ رنگ کی لائٹ استعمال کی جائے کیونکہ سفید یا نیلی روشنی دماغ کو بیدار رکھنے کے سگنل دیتی ہے۔ اس چھوٹی سی تبدیلی سے دل کے امراض، فالج اور دیگر عمر رسیدہ بیماریوں کے خطرات میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نیند کے رات میں کرتا ہے
پڑھیں:
کینیا کی ماحولیاتی کارکن نے درخت کو 72 گھنٹے گلے لگا کر عالمی ریکارڈ قائم کر دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کینیا کی معروف ماحولیاتی کارکن تروفینا متھونی نے ماحول کے تحفظ کے لیے ایک منفرد اور حیران کن کارنامہ انجام دیتے ہوئے 72 گھنٹے تک ایک درخت کو گلے لگا کر نیا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق کینیا کی معروف ماحولیاتی کارکن تروفینا متھونی نے یہ چیلنج نیری کے قصبے میں سرکاری احاطے میں موجود ایک قدیم اور مقامی درخت کے پاس انجام دیا، جہاں ہر لمحے متھونی کے ساتھ ان کے معاونین اور حامی موجود رہے، جو انہیں حوصلہ دیتے اور سہارا فراہم کرتے رہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق ایک موقع پر نیند کے غلبے میں متھونی لڑکھڑائی، مگر فوراً مدد کرنے والے ساتھیوں نے انہیں سنبھالا، اس کارنامے کی تصدیق کے لیے گنیز ورلڈ ریکارڈز کے مبصرین بھی موجود تھے، جن کی فیس متھونی کی ٹیم نے ادا کی تھی۔
اس غیر معمولی مہم کے ذریعے انہوں نے نہ صرف اپنے سابقہ 48 گھنٹے کے ریکارڈ کو پیچھے چھوڑا بلکہ عالمی سطح پر ماحولیاتی شعور اجاگر کرنے کا پیغام بھی دیا۔
تروفینا متھونی نے اس اقدام کو ایک “انسانیت کو جگانے والا پرامن پیغام” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اکثر مظاہروں میں بدنظمی اور احتجاج کی منفی خبریں سننے کو ملتی ہیں، مگر درخت کو گلے لگانے والا یہ علامتی احتجاج اختلافات سے بالاتر ہوکر سب کو یکجہتی کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
اس موقع پر ان کا مخصوص لباس بھی توجہ کا مرکز رہا۔ سیاہ رنگ افریقی طاقت، مزاحمت اور ثابت قدمی کی علامت تھا، سبز رنگ جنگلات کی بحالی، امید اور نئی زندگی کی نمائندگی کرتا تھا جبکہ سرخ رنگ مقامی کمیونٹیز کی جدوجہد اور حوصلے کی علامت تھا۔ نیلا رنگ پانی اور سمندروں کے محافظوں کی نمائندگی کرتا تھا، جو ماحولیات کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتا ہے۔
متھونی کا کہنا تھا کہ یہ اقدام موسمیاتی تبدیلی، جنگلات کی کٹائی اور ماحولیاتی خطرات کے بارے میں عوام میں شعور پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ ان کی یہ منفرد مہم ثابت کرتی ہے کہ ماحول کے لیے جدوجہد کے لیے ضروری نہیں کہ احتجاج شور و غل میں ہو، بلکہ پرامن اور تخلیقی اقدامات بھی اتنے ہی مؤثر ہو سکتے ہیں۔