بھارتی فوج کے اعلیٰ افسر نے مان لی پاکستان کی فوجی طاقت، حیران کن انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
دہلی ( نیوز ڈیسک)بھارت کی فوجی قیادت کو پاک، چین اور ترکیہ کے بڑھتے ہوئے تعاون پر شدید تشویش لاحق ہو گئی ہے، اور اب بھارتی فوج خود اس حقیقت کا اعتراف کر رہی ہے کہ علاقائی سطح پر پاکستان کی عسکری برتری اسے مشکل میں ڈال رہی ہے۔ بھارتی فوج کے نائب سربراہ لیفٹیننٹ جنرل راہول سنگھ نے ایک حالیہ بیان میں تسلیم کیا کہ پاکستان نہ صرف بھارتی فوج کی نقل و حرکت سے آگاہ تھا بلکہ اسے چین کی مدد سے بھارتی اسٹریٹجک اہداف کی تفصیلات بھی حاصل ہو رہی تھیں۔
لیفٹیننٹ جنرل راہول سنگھ کا کہنا تھا کہ بھارتی فضائی دفاعی نظام نے متوقع کارکردگی نہیں دکھائی، جس کے باعث حساس علاقوں میں سیکیورٹی کمزور پڑ گئی۔ انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ پاکستان نے جدید الیکٹرانک وارفیئر ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے بھارتی نظام میں خلل ڈالا اور جنگی صورتِ حال میں برتری حاصل کی۔
عسکری ماہرین کے مطابق، پاک چین اسٹریٹجک پارٹنرشپ اور ترکیہ کے ساتھ گہرے دفاعی روابط بھارت کے لیے باعثِ تشویش ہیں۔ یہ تعاون نہ صرف خطے میں طاقت کا توازن بدل رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی جیوپولیٹیکل حالات میں نئی سمت متعارف کرا رہا ہے۔
سیکیورٹی حلقوں کا ماننا ہے کہ پاکستان کی سائبر اور الیکٹرانک وارفیئر صلاحیتوں نے بھارت کی دفاعی پالیسیوں پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب خطے میں ٹیکنالوجی کی جنگ شدت اختیار کر چکی ہے۔ بھارت کی اس اعترافی کمزوری نے جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک بیلنس کی بحث کو ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے۔
یہ صورتحال نہ صرف بھارتی عوام بلکہ عالمی طاقتوں کے لیے بھی ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ پاکستان اب محض ایک روایتی فوجی طاقت نہیں رہا، بلکہ اس نے جدید ٹیکنالوجی، سمارٹ اسٹریٹجی اور عالمی اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایک نیا دفاعی نظام تشکیل دے دیا ہے، جو دشمن کی چالوں کا بروقت اور مؤثر جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مزیدپڑھیں:یوٹیلٹی اسٹورز پر کیڑوں والا آٹا فروخت، 18 ارب کا اسکینڈل سامنے آ گیا
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بھارتی فوج کہ پاکستان
پڑھیں:
مودی کے بیانات، خطے میں آگ یا راکھ؟
دنیاکے سیاسی افق پرکچھ خطے ایسے ہوتے ہیں جوتاریخ کے ہرموڑپرآزمائش کی بھٹی میں تپتے ہیں۔ جنوبی ایشیاء انہی سرزمینوں میں سے ایک ہے، جہاں سرحدیں فقط جغرافیے کی لکیرنہیں بلکہ نظریات، عقائد اوراحساسات کی خونچکاں تاریخ کااستعارہ بن چکی ہیں۔ایسے میں جب ایک ریاست کامتعصب اور شدت پسندسربراہ،جس کے ہاتھ میں ایٹمی بٹن بھی ہے اور اقتدار کا زعم بھی،اپنے سیاسی جلسے میں کروڑوں پاکستانیوں کے ’’گولی سے اڑادینے‘‘کی کھلی دھمکی دے، توسوال صرف اخلاقیات یاسفارت کانہیں رہتا بلکہ یہ انسانی تہذیب کے اجتماعی شعور،بین الاقوامی قوانین اورعالمی اداروں کی بقاکاسوال بن جاتاہے۔
مودی کایہ حالیہ بیان،جوگجرات کی زمین پرگونجا،محض ایک انتخابی نعرہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی جنون کااظہارہے ایک ایسا جنون جواپنی ہی تاریخ کے آئینے میں شرمندہ نظرآتاہے، مگر اپنے آس پاس کے دشمنوں پرللکارکے ذریعے خودکوزندہ رکھنے کی کوشش کرتاہے مگریہ للکاراب ہنسی میں نہیں اڑائی جاسکتی،کیونکہ یہ اس خطے میں بسنے والے دوایٹمی طاقتوں کے کروڑوں انسانوں کے مستقبل کوجھونکنے کی ایک شعوری کوشش ہے۔
مودی کی دھمکی نے نہ صرف بین الاقوامی سفارتی آداب کی کھلم کھلاخلاف ورزی کی ہے بلکہ ایک ایسے ذہنی پس منظرکوآشکارکیاہے جوخطے میں امن کے امکانات کوزائل کرنے میں مصروف ہے۔یہ دھمکی، جواخلاقیات اورانسانی حقوق کے اصولوں کے برعکس ہے، نہ صرف ایک جنگی جنون کی علامت ہے بلکہ اس سے بھارت کی داخلی سیاسی صورتِ حال کابھی پتہ چلتاہے جس میں جارحیت کوسیاسی سرمایہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یہ بیان،جوانسانی اقدارکے منافی ہے،ایک ایسے ذہن کی ترجمانی کرتاہے جوجارحیت اورتفرقہ اندازی میں یقین رکھتا ہے، اورجوخطے کی سلامتی واستحکام کے لئے شدید خطرہ ہے۔
دراصل مودی کاحالیہ بیان ،شکست خوردہ ضمیراس مکاری کے سفرکی طرف لے گیاجہاں وہ ووٹوں کے لئے بڑھکیں مارکردجل وفریب سے کام لے رہاتھا کیونکہ ایک عالم جان چکاہے کہ دردیارِہند،جہاں غرورِ قوم پرستی کاشعلہ ایوانوں میں بلندہوتاہے اوردہلی کے ایوانِ اقتدارمیں تکبر،جاہ ومنصب کالباس پہنے بیٹھاہے، وہاں رافیل نامی وہ پرندے،جن پرخزان ملت کے خزف وگوہرلٹائے گئے،طیارہ تقدیرکے دوش پرپاکستان کے جواں ہمت صاعقہ برداروں کے سامنے خاک وخون میں گِر گئے۔جب رافیل کی شکست پرفرانس کی کمپنی نے تین پرندوں کی ہلاکت کااقرارکیا،تودہلی کی فصیلِ غرورپرایساسناٹاطاری ہوا، گویا آگرہ کے قلعہ لال پرسیاہ پرچم لہرانہیں بلکہ آنسوبہارہاہو۔وہی ایئرمارشل اے کے بھارتی، جن کے بیانات سے پیشتربادل گرجتے تھے، اب کہنے لگے کہ’’جنگ میں نقصان معمول ہے‘‘گویا شکست کوسبکی میں ملفوف کرکے پیش کیاجائے، اورخون کے رسنے کولفظوں کے رومال سے چھپایاجائے مگرتاریخ کی نگاہ تیزہے،وہ زخم دیکھ لیتی ہے،وہ چیخ سن لیتی ہے۔
پاکستانی شاہین،جن کی پروازپاک سرزمین کے افق تک محدودرہی،مگرجن کے فولادی تیردشمن کی فضاں کوکاٹتے ہوئے عبرت کانشان بنے،محض عسکری چابک دستی نہ تھے،بلکہ پاک وچین کے باہمی تدبرکا مجسمہ بنے۔اس معرکہ کی جیت،پاکستان کی ہمت سے زیادہ،چین کی تجارتی حکمت اورعسکری فن کاغیراعلانیہ اعلان تھی۔
دراصل مودی کے شعلہ اگلتے ہوئے بیان کی ایک وجہ یہ بھی ہے جب سیزفائرکی راکھ میں چینی حکمت نے ایک چنگاری رکھی جب بھارت کی توجہ مغرب میں پاکستان پرتھی،بیجنگ نے مشرق میں اروناچل پردیش کے مقامات کے نام،چینی وتبتی زبان میں بدل کریہ پیغام دیاکہ ’’نقشے فقط کاغذپرنہیں بنتے،وہ ذہنوں،دعووں اورقوتِ ارادہ میں نقش ہوتے ہیں‘‘۔یہ تبدیلی فقط زبان کی تکرارنہ تھی،بلکہ زمین کی ملکیت کاادبی اعلان تھااورجب بھارت نے مشرق کی جانب نظرکی،تووہاں پہاڑوں کے نام بدلے جا چکے تھے،وادیاں بیگانہ ہوچکی تھیں،اورنقشہ،اس کااپنانہ رہاتھا۔
بھارت کی تینوں سمتوں پرتین دیواریں چین، پاکستان،نیپال تناؤکی تین چٹانیں،جن میں ہندوستان ایک فریب زدہ خواب کی مانند محصورہوچکا ہے۔ نیپال، چھوٹاسہی،مگراس کی خودداری نے بھارتی غرورکے قلعے میں دراڑیں ڈال دیں۔پاکستان،جواب صرف فوجی نہیں بلکہ فکری قوت بھی ہے اورچین،جس کی طاقت صرف عسکری نہیں بلکہ تمدنی بھی ہے۔یہ ایسے ہے،جیسے ایک کمزورپروانہ تین شیروں کی کمین گاہوں میں جاگرے اور سمجھے کہ یہ رات کابادل ہے،جس سے سلامت گزرجائے گا۔بس یہی شکست خوردہ مودی کی حالت ہوچکی ہے۔مودی کے اس بیان کاپس منظرایک نہایت پیچیدہ اورکشیدہ خطے میں ہے،جہاں بھارت اورپاکستان کے مابین فضائی جھڑپیں، سرحدی کشیدگی، اورنفسیاتی جنگ جاری ہے۔گزشتہ دنوں بھارتی فضائیہ کے فرانسیسی ساختہ رافیل طیاروں کی تباہی،پاکستان کی عسکری حکمت عملی اورپاک چین تعاون کی بدولت، بھارت کی عسکری اورسیاسی حالت کوایک نئے سنگ میل پرلے گئی ہے۔
مودی کی دھمکی اسی تناظرمیں سامنے آئی ہے،جہاں ایک طرف بھارت نے سرتاج کی طرح اپنی عسکری طاقت کامظاہرہ کرنے کی ناکام کوشش میں بری طرح منہ کی کھائی ہے اور جہاں عالمی طورپرشرمندگی کا سامناکرناپڑاہے وہاں دوسری طرف،بھارت کی داخلی اورخارجی پالیسیوں میں شدیدالجھن اورعدم استحکام کی جھلک بھی نظرآتی ہے۔مودی کے اس جارحانہ بیان کاپس منظرایک ایسے خطے میں ہے جہاں کشیدگی عروج پرہے اورحالیہ دنوں میں بھارت اورپاکستان کے مابین فضائی جھڑپیں اورمیزائلوں کی بازگشت سنی گئی ہے۔ بھارت نے اس دوران عام طورپرایک خاموشی کامظاہرہ اس لئے کیاگیاکہ مودی کوپاکستان کی طرف سے ایسے جواب کاقطعی اندازہ ہی نہیں تھامگرمودی کی اس تازہ تقریرنے اس خاموشی کی نقاب کشائی کردی ہے اوربے لاگ جارحانہ بیانیہ سامنے لادیاہے۔یہ تضاد،خاموشی اوردھمکی کے درمیان،بین الاقوامی سیاست میں ایک پراناالمیہ ہے۔کیاخاموشی واقعی فتح کی علامت ہے یایہ شکست کاپردہ ہے؟
عالمی سیاست میں خاموشی کواکثرحکمت اور صبرکی علامت سمجھاجاتاہے،لیکن تاریخ اس بات کابھی درس دیتی ہے کہ حکمت صرف اسی وقت کامیاب ہوتی ہے جب وہ بروقت ہو، مناسب ہواورمثبت نتائج دے۔اگردشمن تمہاری حدودمیں گھس آئے اورتم زبان سے بھی جواب نہ دے سکوتویہ خاموشی حکمت نہیں،بزدلی کے سواکچھ نہیں۔مودی کے بیان سے قبل،بھارت نے چینی فوج کی سرحدی پیش قدمیوں کے سامنے توہمیشہ خاموشی اختیارکی،جوحکمتِ عملی کی بجائے خوف اور غیریقینی کی علامت تھی۔اس کے برعکس،پاکستان نے اپنی عسکری کارروائیوں اورسفارتی حکمت عملیوں سے خطے میں اپنامقام مستحکم کیاجبکہ چین نے اپنے جغرافیائی دعوؤں کوعملی جامہ پہناکرخطے کی سیاست میں نئی جہتیں پیداکیں۔
تاریخ نے ہمیں بارہاسکھایاہے کہ حکمت صرف تب ہوتی ہے جب وقت کی نزاکت کوسمجھ کرجواب دیا جائے اوروہ جواب فتح کی جانب لے جائے۔ سفارتی خاموشی کواکثرطاقت کی علامت تصورکیاجاتا ہے، لیکن جب یہ خاموشی دشمن کے سامنے گھبراہٹ اور نااہلی کی شکل اختیارکرلے توپھریہ بہادری کے بجائے بزدلی کے سواکچھ نہیں۔بھارت کی جانب سے چین کی سرحدی پیش قدمیوں اورسرحدپارداخلوں پرجوردعمل نظرآیا،وہ اس بات کاثبوت ہے کہ اس خاموشی کے پیچھے کمزوری اور حکمت کی کمی ہے۔جبکہ پاکستان کے خلاف ہر وقت جارحانہ بیانات دینے والے بھارتی میڈیااورعسکری حلقے چین کے خلاف مکمل طورپر خاموش ہیں،جوان کے فکری الجھن اورحکمت کی کمی کوظاہرکرتاہے۔
(جاری ہے)