Jasarat News:
2025-07-05@03:10:13 GMT

شام، ابراہام معاہدے اور گولان پہاڑی

اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اور تم ان لوگوں کی طرف ہرگز نہ جھکو جنہوں نے ظلم کیا، ورنہ تمہیں بھی آگ آ پکڑے گی۔ (ہود: 113) قرآن نے بارہا مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ باطل کے ساتھ مصالحت نہ کریں اور نہ ہی ظلم و استبداد کے سامنے خاموش تماشائی بنیں، کیونکہ ظلم کے ساتھ خاموشی، گناہ میں شرکت کے مترادف ہے۔ اْمّتِ مسلمہ ایک ایسا جسم ہے، جس کے کسی ایک حصے کو چوٹ لگے تو پورا جسم تڑپ اٹھتا ہے۔ مگر افسوس کہ آج یہی اْمّت، اپنے وجود پر لگنے والے زخموں کو مصلحت کی پٹیوں سے ڈھانپ رہی ہے، اور اپنے مظلوم بھائیوں کے لہو سے سیاست کی شطرنج کھیل رہی ہے۔
قبلۂ اوّل کی حرمت، فلسطین کی جدوجہد اور اسلامی وحدت کا تقاضا یہی ہے کہ مسلم قیادتیں ہر اس معاہدے اور سمجھوتے کو رد کریں جو صہیونیت کی بالادستی کو تسلیم کرنے کے مترادف ہو۔ مگر موجودہ منظرنامہ ایک ایسے اخلاقی بحران کی نشاندہی کرتا ہے جس میں ضمیر کی آوازیں خاموش اور مفادات کی صدائیں بلند ہو چکی ہیں۔ یہ مضمون اسی فکری و اخلاقی بحران پر ایک تفصیلی نگاہ ہے۔ شام جیسے ملک کی طرف سے ابراہام معاہدوں کی حمایت اور گولان پہاڑی پر خاموشی، محض سیاسی حکمت ِ عملی نہیں، بلکہ ایک فکری و تہذیبی انحراف کا آئینہ ہے، جو ملّت ِ اسلامیہ کے لیے ایک بیداری کا لمحہ ہے۔ سیاست اگر اصولوں سے عاری ہو جائے تو وہ محض چالاکی کا کھیل بن جاتی ہے، اور اگر کسی ملّت کی قیادت بے ضمیر ہو جائے تو وہ ملّت خود فریب میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ شام وہی ملک جہاں خلافت ِ اْمیہ کی عظمت نے جنم لیا، جہاں دمشق کی فضائوں سے اسلام کی روشنی پھیلی، آج اپنی تاریخ، عقیدے، اور وحدتِ ملّت کے برعکس ایسے فیصلوں کی راہ پر گامزن ہے جو اْمّتِ مسلمہ کی اجتماعی روح کو چور چور کر رہے ہیں۔ شام کی نئی حکومت کی جانب سے ابراہام معاہدوں کی حمایت اور گولان پہاڑی کے مسئلے پر خاموش مفاہمت ایسے اقدامات ہیں جو نہ صرف سیاسی بصیرت کے فقدان کی علامت ہیں بلکہ ایک اخلاقی و تہذیبی زوال کا مظہر بھی۔ ابراہام معاہدہ دراصل اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے کا منصوبہ ہے جس کے تحت اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ کی ایک جائز ریاست تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ امریکا کی سرپرستی میں یہ معاہدہ چند عرب ریاستوں کے ذریعے نافذ کیا گیا، جس کی روح میں فلسطینی مزاحمت کو دبانا، قبلۂ اوّل کی اہمیت کو مٹانا، اور صہیونی عزائم کو تقویت دینا شامل ہے۔ شام، جو خود اسرائیلی جارحیت کا شکار رہا ہے، خاص طور پر جس کی گولان کی پہاڑیاں آج بھی اسرائیل کے قبضے میں ہیں، جب وہ ابراہام معاہدے کی حمایت کرے تو یہ سیاسی منافقت سے بڑھ کر تاریخی بے وفائی کا نشان بن جاتا ہے۔ یہی شام ماضی میں فلسطینی کاز کا علمبردار تھا، جہاں سے ’’القدس لنا‘‘ کی صدائیں اٹھتی تھیں۔ اب اگر یہی ملک صہیونی طاقتوں کے ساتھ مفاہمت کرے تو یہ ضمیر کے دیوالیہ پن کی بدترین مثال ہے۔
شام کی حمایت ایک علامتی اعلان ہے کہ اسلامی وحدت صرف کتابی نعرہ رہ گئی ہے اور اب مسلمان ممالک قومی مفاد کی آڑ میں استعماری منصوبوں کا حصّہ بننے لگے ہیں۔ جب ایک کے بعد ایک مسلم ریاست اسرائیل کو تسلیم کرے، تو فلسطینی مزاحمت تنہا ہوتی چلی جاتی ہے۔ شام کی حمایت اس تنہائی کو مزید گہرا کرے گی۔ اسرائیل اس حمایت کو ایک سیاسی فتح سمجھ کر اپنے قدم عرب دنیا میں اور مضبوطی سے جما لے گا۔ اس کا براہِ راست اثر قبلۂ اوّل پر پڑے گا، جسے محض ایک سیاحتی مقام بنا دیا جائے گا۔ یہ وقت علماء، مفکرین اور نوجوان دانشوروں کے لیے آزمائش کا وقت ہے کہ وہ اسلام کی اصل روح عدل، حریت، مزاحمت اور وفاداری کو اجاگر کریں اور سیاسی چالاکیوں کے پردے چاک کریں۔
’’اگر تمہارے دل میں اْمّت کے زخموں کا درد نہیں، تو تمہاری مسکراہٹ بھی ایک دھوکہ ہے‘‘۔ کبھی کچھ زمینیں صرف جغرافیہ نہیں ہوتیں، وہ ضمیر ِ ملّت کا حصّہ بن جاتی ہیں؛ ان کا سودہ فقط سرحدوں کا نہیں، بلکہ غیرت، وفا اور خونِ شہیداں کا سودا ہوتا ہے۔
گولان پہاڑی شام کی وہ سر زمین جو 1967ء کی جنگ کے بعد اسرائیل کے قبضے میں چلی گئی۔ آج شام کی نئی حکومت کی خاموشی کے باعث ایک خطرناک سمجھوتے کی علامت بن چکی ہے۔ دنیا نے اس قبضے کو کبھی تسلیم نہیں کیا، مگر آج کی سیاسی مصلحت نے شام کو اس سر زمین سے عملاً دستبردار کرا دیا ہے۔ شام کی خاموشی اسرائیل کو نہ صرف گولان پہاڑی پر مزید حق جتانے کی اجازت دے گی بلکہ اسے پورے خطے میں مزاحمت کے خاتمے کا اشارہ بھی ملے گا۔ غزہ پہلے ہی مصر، اسرائیل اور سمندر سے گھرا ہوا ہے۔ شام کی حمایت مزاحمت کے حلقے سے ایک اور ملک کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ گولان پہاڑی کا سودا صرف زمین کا نہیں بلکہ اسلامی حمیت، مزاحمت کے اخلاص، اور اْمّت کی غیرت کا سودا ہے۔
اے شام! جب تْو نے گولان پہاڑی کی مٹی کو سوداگروں کے حوالے کیا، تو غزہ کی ماؤں نے اپنے بیٹوں کو قبروں میں دفناتے وقت پوچھا ہوگا: یہ خون کس قیمت پر بیچا گیا؟ غزہ کے وہ بچّے، مائیں، اور نوجوان جو صہیونی جارحیت کے خلاف ڈٹے رہے، اب ایک بار پھر تنہائی، بے بسی اور دھوکے کے سائے میں آ گئے ہیں۔ یہ وقت صرف نعرے بازی کا نہیں، بلکہ عمل، اتحاد اور بیداری کا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ صرف فلسطین کا نہیں، بلکہ پوری ملّت ِ اسلامیہ کا اجتماعی ضمیر ہے۔ جو قومیں اپنے شہیدوں کے خون کی قیمت پر سیاسی مفاد اٹھاتی ہیں، وہ تاریخ میں کبھی سرخرو نہیں ہوتیں۔ ’’گولان پہاڑی کا سودا ایک ایسی دستاویز ہے جس پر خون سے نہیں، ضمیر کی مردنی سے دستخط ہوئے ہیں‘‘۔
وقت آ چکا ہے کہ ملّت ِ اسلامیہ کے نوجوان، مفکرین اور اہل ِ علم سیاسی حقیقتوں کو بے نقاب کریں، اسلامی اخوت کی روح کو زندہ کریں، اور ان معاہدوں کے خلاف آواز بلند کریں جو ہمیں دشمنوں کے قدموں میں گرانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ شام کا فیصلہ صرف شام کا نہیں، بلکہ پوری اْمّت کی آئندہ نسلوں کے مقدر کا فیصلہ ہے۔ ’’کیا وہ اْمّت، جو اپنے شہیدوں کے لہو کی قدر نہ کرے، حق کی پاسبانی کا دعویٰ کر سکتی ہے؟‘‘ آج جب شام جیسے تاریخی اور مزاحمتی مرکز نے استعمار کے دباؤ میں آ کر اپنی سمت بدل لی ہے، تو یہ صرف ایک ملک کا فیصلہ نہیں، بلکہ اْمّت ِ مسلمہ کے اجتماعی شعور کا امتحان ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم جذباتی غفلت، لسانی تفرقے اور قومی خود غرضی سے باہر نکل کر اْمّت ِ واحدہ کے اس تصور کو عملی شکل دیں جس کی بنیاد نبی کریمؐ نے مدینہ کی گلیوں میں رکھی تھی۔
ہمیں سوچنا ہوگا کہ اگر قبلۂ اوّل کی حرمت، فلسطینی مزاحمت کا حق، اور شہیدوں کے خون کی قیمت ہم نے عالمی سیاست کی میز پر رکھ دی، تو ہم تاریخ میں اپنی کوئی جگہ نہ پا سکیں گے، نہ اللہ کے حضور، نہ آنے والی نسلوں کے سامنے۔ یہ وقت شعور کی بیداری، قومی غیرت کی واپسی، اور فکری و دینی استقامت کا ہے۔ ہمیں وہی زبان، وہی قلم، وہی سچائی، اور وہی مزاحمت دوبارہ زندہ کرنا ہوگی جو سید قطب شہید کی پھانسی گاہ پر بولی گئی، جو شہید اسماعیل ہنیہ کی آنکھوں میں چمکتی تھی اور جو غزہ کے بچّوں کی مٹھیوں میں بند کنکریوں میں اب بھی سانس لیتی ہے۔ اب فیصلہ اْمّت کے باشعور افراد کے ہاتھ میں ہے! وہ اہل ِ علم، اہل ِ قلم، اور اہل ِ درد، جو صرف تقریر نہیں، تحریر نہیں، بلکہ کردار کی طاقت سے وقت کی کج روی کو سیدھا کر سکتے ہیں۔
ہمیں اپنے ربّ کے اس فرمان کو یاد رکھنا ہوگا: اے ایمان والو! اللہ کے لیے قائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو۔ (المائدہ: 8)۔ اگر ہم آج بھی خاموش رہے، تو تاریخ ہم پر خاموش نہیں رہے گی۔ اور اگر ہم نے سچ کا ساتھ نہ دیا، تو جھوٹ ہمارے بچوں کا مقدر بن جائے گا۔ اے اْمّتِ مسلمہ! اب جاگنے کا وقت ہے، بصیرت کا چراغ جلانے کا وقت ہے، اور وفا کے عہد کی تجدید کا وقت ہے۔

 

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کا وقت ہے کی حمایت کا نہیں کا سودا کے ساتھ شام کی بلکہ ا کے لیے

پڑھیں:

پی ٹی آئی اور مفاہمت کا سیاسی ایجنڈا

پی ٹی آئی بنیادی طورپر اس وقت ایک سیاسی راستے کی تلاش میں ہے تاکہ وہ دوبارہ سرگرم ہوکر اپنی سیاسی سرگرمیوں کے آغاز کو یقینی بناسکے اور دوسری طرف جیلوں میں قید بانی پی ٹی آئی سمیت دیگر راہنماؤں کی رہائی کو بھی ممکن بنایا جاسکے۔لیکن فی الحال ایسے ہی محسوس ہوتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی کے سیاسی اور قانونی ریلیف کے امکانات محدود ہیں ۔

جولوگ پس پردہ بات چیت کی مدد سے اسٹیبلیشمنٹ،پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان مفاہمت پر مبنی کوئی درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کررہے تھے ان کو بھی تاحال ناکامی یا مشکلات کا سامنا ہے۔ جو لوگ پی ٹی آئی کے اندر رہتے ہوئے اسٹیبلیشمنٹ کی مدد سے آگے بڑھنے کی سیاسی حکمت عملی رکھتے ہیں وہ بھی بانی پی ٹی آئی کو کوئی ریلیف نہیں دلوا سکے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اپنے اندر اسٹیبلیشمنٹ سے مفاہمت کی بنیاد پر آگے بڑھنے والوں کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔پارٹی کی سطح پر ایک مضبوط گروپ اسٹیبلیشمنٹ سمیت حکومت کے ساتھ بھی مذاکرات کا حامی ہے اور اس طبقہ کے بقول ہمیں دونوں سطحوں پر مذاکرات کرنے ہوں گے اور دروازہ کسی بھی سطح پر بند نہیں کرنا چاہیے۔جب کہ اس کے برعکس بانی پی ٹی آئی کا موقف یہ ہے کہ مذاکرات اسی سے ہوں گے جو طاقت اور فیصلہ کا اختیار رکھتے ہیں یعنی اسٹیبلیشمنٹ کے سوا کسی اور یا حکومت سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ بے اختیار لوگ ہیں ۔

حال ہی میں پی ٹی آئی کے پرانے اور نظریاتی ساتھیوں جو اس وقت جیلوں میں ہیں ان میں مخدوم شاہ محمود قریشی،ڈاکٹر یاسمین راشد،میاں محمود الرشید، اعجاز چوہدری اور عمر سرفراز چیمہ نے ایک خط کی مدد سے حالیہ سیاسی بحران اور پی ٹی آئی کو درپیش مشکلات کے حل میں مذاکرات ہی کے راستے کو واحد سیاسی آپشن قرار دیا ہے اور ان کے بقول مذاکرات کے راستے سے جتنا سیاسی فرار اختیار کیا جائے گا سیاسی بحران کم نہیں بلکہ اور زیادہ بڑھے گا۔ان راہنماؤں نے بھی اسی نقطہ پر زور دیا ہے کہ ہمیں سیاسی دروازے بند کرنے کے بجائے اسٹیبلیشمنٹ اور حکومت دونوں کے ساتھ اپنے ایجنڈے پر بات چیت یا مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور اس تاثر کی نفی کرنی چاہیے کہ ہم حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں۔

پی ٹی آئی کے ان راہنماؤں نے اپنے خط میں یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ ان کی بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ملاقات بھی کروائی جائے تاکہ ہم ان کی مدد سے مذاکرات کا ایک بڑے سیاسی فریم ورک کو حتمی شکل دے سکیں اور وہ خود بھی ان مذاکراتی عمل کا حصہ بننے کے خواہش مند ہیں۔

ان راہنماؤں کی حکمت عملی بانی پی ٹی آئی کی حکمت عملی یا محض اسٹیبلیشمنٹ سے مذاکرات کی سوچ کے برعکس ہے ۔دیکھنا ہوگا کہ بانی پی ٹی آئی اپنے ان اہم راہنماؤں کی حکمت عملی سے کس حد تک متفق ہوتے ہیں اور حکومت سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے ان راہنماؤں کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ حکومت جو بھی پی ٹی آئی کو سیاسی یا قانونی سطح پر ریلیف ممکن بنائے گی اس میں اول وہ حکومتی شرائط پر مبنی ہوگی اور دوئم ان کو بھی حتمی فیصلہ کرنے سے قبل اسٹیلشمنٹ ہی کی طرف دیکھنا ہوگا۔لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی کو حکومت سے اپنی شرائط پر بات چیت ضرور کرنا چاہیے تاکہ اس تاثر کی پی ٹی آئی نفی کرے کہ وہ حکومت سے بات چیت کے لیے تیار نہیں ۔پی ٹی آئی راہنماؤں کو یقینی طور پر بانی پی ٹی آئی کی مشاورت کے ساتھ اپنے مذاکرات اور ان کی اپنی شرائط یا نکات کا فریم ورک بنا کر حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ دونوں سے بات چیت کرنی چاہیے۔ حکومت کے ساتھ بات چیت فرنٹ لائن اور اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ یقینی طور پر پس پردہ ہوگی۔

سیاست میں سیاسی جماعت اور قیادت کا کام ہی مشکل وقت پر یا دروازوں کے بند ہونے کی صورت میں دروازوں کے کھولنے اور نئے مفاہمت کے امکانات کو پید ا کرنا ہوتا ہے اور اس کے لیے سیاسی لچک پیدا کرنا اور توازن پر مبنی حکمت عملی کی بھی بڑی سیاسی اہمیت ہوتی ہے۔پی ٹی آئی کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی سینئر قیادت اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان مشاورت کا عمل بند ہے اور اگر واقعی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ مفاہمت چاہتی ہے تو اسے اس بند دروازے کو کھولنا ہوگا۔

حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنا ہوگا کہ مذاکرات اور ڈکٹیشن یا مسلط کردہ ایجنڈے میں بنیادی نوعیت کا فرق ہوتا ہے اور اگر دونوں اطراف سے مفاہمت کے لیے کھلے ذہن اور کھلے دل کے ساتھ مذاکراتی عمل آگے نہیں بڑھے گا تو کچھ بھی بہتر نتیجہ نہیں نکل سکے گا۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ڈکٹیشن ، دباؤ اور ڈرا کر مذاکرات کے مصنوعی عمل سے استحکام کی سیاست کی طرف بڑھا جاسکتا ہے وہ غلطی پر ہے۔ اسی طرح جب تک ہم ایک جماعت کے سیاسی وجود کو قبول نہیں کریں گے اور اسے طاقت کی بنیاد پر ختم کرنے کی حکمت عملی کو اختیار کریں گے تو یہ حکمت عملی نہ تو کسی کو ماضی میں کوئی مثبت نتیجہ دے سکی اور نہ ہی آج اورنہ ہی مستقبل میںدے سکے گی۔

اس لیے اگر پی ٹی آئی کی جیل میں موجود قیادت نے اپنے خط کی مدد سے ایک سیاسی راستہ نکالنے کی بات کی ہے تو پی ٹی آئی ،بانی پی ٹی آئی سمیت خود حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو اس پیش کش کا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہیے۔ایک طرف اگر بانی پی ٹی آئی کو اپنے سخت موقف میں لچک پیدا کرنی ہے تو دوسری طرف حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو بھی اپنے سخت موقف میں لچک پیدا کرکے تعاون کے امکانات پیدا کرنے ہوں گے۔ اگر حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو اسے اس کے لیے یقینی طور پر سازگار حالات بھی پیدا کرکے ماحول میں موجود سیاسی تلخیوں کو کم کرنا ہوگا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کی موجودہ سیاسی سطح پر قیادت جو پارلیمنٹ کے اندر یا پارلیمنٹ سے باہر ہے اس نے اپنی سیاسی حکمت عملیوں میں کافی مایوس کیا ہے اور ان ہی کی داخلی شخصی لڑائیوں کی وجہ سے پارٹی کمزور بھی ہوئی اور تقسیم بھی ۔ پی ٹی آئی کی پارلیمانی سیاست اچھی بھلی عددی تعداد کے باوجود پارلیمانی سیاست میں کوئی بڑے سیاسی دباؤ کی سیاست پیدا نہیں کرسکی۔

ملک کے سیاسی ،سماجی، معاشی، انتظامی، گورننس، دہشت گردی یا سیکیورٹی کے سنگین مسائل کا ہمیں سامنا ہے اس کا ہمیں دیانت داری سے ادراک کرناچاہیے اور ان مسائل کے حل کے لیے سب ہی فریقوں کو سر جوڑ کر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ مسئلہ کا یہ حل نہیں کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف سیاسی لنگوٹ کس کر میدان میں کود پڑیں ۔ہمیں ایک دوسرے کی اہمیت کو قبول کرکے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا ہے ۔ایسے موقع پر جب داخلی کے ساتھ ساتھ علاقائی سیاست کے مسائل بالخصوص بھارت کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کی موجودگی میں ہمیں اپنے داخلی سیاسی اور معاشی استحکام پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

کیونکہ اگر ہم نے اس وقت کی موجودہ صورتحال میں اپنے گھر کے معاملات میںدرستگی نہیں کی اور پہلے سے موجود سیاسی تلخیوں یا سیاسی دشمنیوں کو کم نہیں کیا تو اس کا جہاں نقصان ہمیں داخلی محاذ پر ہوگا وہیں دشمن ہماری داخلی کمزوریوں یا داخلی خلیج،ٹکراؤ اورتقسیم کا فائدہ اٹھا کر ہمیں مختلف حکمت عملیوں ہی کے تحت کمزور کرسکتا ہے یا اپنی جارحیت دکھا سکتا ہے۔اس لیے اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کا ریاستی،حکومتی اور سیاسی نظام ماضی کے دائرے کار سے باہر نکل کر موجودہ حقایق کو تسلیم کرکے نئی مضبوط حکمت عملیوں کو اختیار کرے جو ریاست کے مفاد میں ہو۔

متعلقہ مضامین

  • کئی ممالک ابراہم معاہدے کا حصہ بننے والے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ
  • پی ٹی آئی اور مفاہمت کا سیاسی ایجنڈا
  • ابراہام معاہدے سے متعلق حکومت پر ٹرمپ انتظامیہ یا کسی اور کا کوئی دباؤ نہیں، بیرسٹر عقیل ملک
  • مودی کے بیانات، خطے میں آگ یا راکھ؟
  • غزہ جنگ بندی معاہدے کیلئے ٹرمپ کی تجاویز کا جائزہ لے رہے ہیں: حماس
  • تخیل سے حقیقت تک،پاکستان کا خاموش سفر
  • کتے کی دم
  • معجزاتی دور اور ابدی راحت سے پہلے کا منظر
  • حق کی تلوار اور ظلم کا تخت