اسلام آباد ہائیکورٹ کا جھوٹے مقدمات بنانے میں ملوث پولیس اہلکاروں کیخلاف تحقیقات کا حکم WhatsAppFacebookTwitter 0 28 October, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(آئی پی ایس) اسلام آباد ہائیکورٹ نے جھوٹے مقدمات بنانے میں ملوث پولیس اہلکاروں کیخلاف تحقیقات کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس محسن اختر کیانی نے محمد وقاص کی مقدمہ اخراج کی درخواست پر سماعت کی، آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی، ڈائریکٹر ایف آئی اے شہزاد بخاری، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد عدالت میں پیش ہوئے۔

لاہور اور بہاولپور سے کم سن بچیوں اور انکی والدہ کے اغوا کے بعد اسی فیملی کے خلاف مقدمات درج کرنے کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایس ایس پی انویسٹی گیشن کو کم سن بچیوں کی والدہ کا بیان قلمبند کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے پنجاب پولیس کا بچیوں کے اغوا میں ملوث ہونے کا معاملہ وزیر اعلیٰ اور آئی جی پنجاب کو بھیجنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب خود خاتون ہیں وہ متاثرہ خاتون اور بچیوں کے اغوا کا معاملہ ضرور دیکھیں۔

عدالت نے حکم دیا کہ ڈائریکٹر کرائمز ایف آئی اے پولیس اہلکاروں کے اغوا میں ملوث ہونے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ رپورٹس جمع ہونے کے بعد ایف آئی اے اس کیس کی تفتیش کریگی، اصل الزام پنجاب پولیس پر ہے کہ اُنہوں نے یہ سارا واقعہ کیا، اس کیس کی تحقیقات کیلئے خصوصی جے آئی ٹی ضروری ہے، خصوصی جے آئی ٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے کی سربراہی میں ہوگی جو تحقیقات کرے گی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس می کہا کہ ویڈیو میں واضح ہے کہ تین بچیوں اور والدہ کو اغواء کیا گیا، بچیوں کے والد نے جو بھی کیا اسکو اسکی سزا ملے گی، بچیوں اور والدہ کے ساتھ کیوں زیادتی کی گئی؟، جعلی مقابلے کے بعد بچیوں کو چائلڈ پروٹیکشن سنٹر بھجوا گیا۔

آئی جی اسلام آباد نے عدالت میں کہا کہ اس سارے معاملے کی تحقیقات کیلئے ہم نے ایک خصوصی ٹیم بنائی ہے، اسپیشل فورس کے مطابق تھانہ کھنہ میں ایک گاڑی کی چوری کا مقدمہ درج کیا گیا۔

عدالت نے ایس پی انویسٹیگیشن کو متاثرہ خاتون کا انٹرویو کرکے بیان قلمبند کرنے کی ہدایت کردی، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ رپورٹ میں وزیر اعلیٰ اور آئی جی پنجاب کو بھیجونگا۔

عدالت نے کہا کہ ایڈیشنل رپورٹس جب عدالت کو جمع ہوں گی تو آگے کارروائی ایف آئی اے کرے گی، اس کیس میں پولیس تفتیش نہیں کریگی کیونکہ الزام پولیس پر ہے، پنجاب اور اسلام آباد پولیس اس کیس میں ملوث ہے۔

وکیل درخواست گزار لطیف کھوسہ نے آئی جی کے بیان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کچھ نہیں کریں گے صرف کور کریں گے اور ٹوٹل پورا کرینگے، پاکستان میں ایسے ہی واقعات ملتے ہیں، اب آئین پاکستان اور قانون کہاں ہے؟۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ انہوں نے تفتیش کرلی ہے اب انکو رپورٹ جمع کرانے دیں، پولیس رپورٹ کے بعد ایف آئی اے مقدمے کو دیکھ لے گی، پنجاب میں خاتون وزیر اعلیٰ ہے مگر پنجاب پولیس نے چادر چار دیواری کو پامال کیا، چادر چار دیواری کو پامال کرتے ہوئے ایک خاتون کو بچیوں سمیت گھر سے اٹھا کر تھانے میں بند کردیا گیا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ آئی جی صاحب کی مہربانی ہے کہ انہوں نے گاڑیوں کو ریکور کیا، جس گاڑی کو لیکر آئے ہیں وہ تو خود سی آئی اے لیکر آئی ہے، اٹھایا لاہور سے اور یہاں آکر پولیس مقابلہ کر رہے ہیں، بتایا کہ مقتول نے فائرنگ کی پولیس اہلکار بلٹ پروف جیکٹ کی وجہ سے بچ گئے، آئی جی کی ذمہ داری ہے کہ پولیس کو بچانے کی بجائے قوم کا ساتھ دیں۔

عدالت نے کل دن ایک بجے ایس ایس پی آپریشنز کے آفس میں میٹنگ کی ہدایت کرتے ہوئے لطیف کھوسہ کی گاڑیوں کی حوالگی کی استدعا مسترد کردی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ یہ کیس پراپرٹی ہے، گاڑیاں ابھی نہیں مل سکتیں، عدالت نے کیس کی سماعت نومبر کے دوسرے ہفتے تک کیلئے ملتوی کردی۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرکوہستان کرپشن اسکینڈل میں گرفتار ملزم کے گھر سے 115 تولے سونا برآمد کوہستان کرپشن اسکینڈل میں گرفتار ملزم کے گھر سے 115 تولے سونا برآمد اختیارات کےناجائز استعمال پر این سی سی آئی اے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر سمیت 4 افسران گرفتار وزیر اعظم آزاد کشمیر کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر پارٹی سے مشاورت کریں گے، امیر مقام پیپلز پارٹی کی وزیراعظم آزاد کشمیر کو استعفے کیلئے مہلت، انوار الحق کا تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنیکا فیصلہ اسرائیلی آرمی چیف کا حماس کے خلاف جنگ جاری رکھنےکا اعلان عدالت نے 9 مئی سمیت 5 مقدمات میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی گرفتاری روک دی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: جسٹس محسن اختر کیانی نے پولیس اہلکاروں اسلام ا باد ایف ا ئی اے نے کہا کہ عدالت نے میں ملوث کہا کہ ا کے اغوا کا حکم کے بعد اس کیس

پڑھیں:

پیکا قانون کا غلط استعمال: — پنجاب میں صحافیوں کے خلاف جھوٹے مقدمات میں اضافہ

میڈیا کی آزادی پر نظر رکھنے والے ادارے فریڈم نیٹ ورک کی دو تازہ تحقیقی رپورٹس نے پنجاب میں صحافیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے دباؤ اور قانونی کارروائیوں پر سنگین خدشات ظاہر کیے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق شمالی اور وسطی پنجاب میں صحافی نہ صرف سنسرشپ اور جھوٹے مقدمات کا نشانہ بن رہے ہیں بلکہ انہیں معاشی طور پر کمزور کر کے دباؤ میں لانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔
یہ رپورٹس انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ کے تعاون سے جاری کی گئیں، جن میں اقوام متحدہ کے 2012ء کے پلان آف ایکشن برائے تحفظِ صحافیان کے تناظر میں پاکستان کو اُن چند ممالک میں شمار کیا گیا ہے جہاں صحافیوں کے تحفظ کے لیے مقامی سطح پر اقدامات تو ہو رہے ہیں، لیکن خطرات اب بھی کم نہیں ہوئے۔
رپورٹس کی رونمائی کے موقع پر فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک، سینئر صحافی سہیل وڑائچ، لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری اور فیڈرل کمیشن برائے تحفظِ صحافیان کے رکن کمال الدین ٹیپو نے خطاب کیا۔
رپورٹ کے مطابق، پیکا قانون اور دیگر ضابطوں کے تحت صحافیوں کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کرنے کے رجحان میں تیزی آئی ہے۔ 2025ء کے دوران شمالی پنجاب میں دو جسمانی حملے، پیکا کے تحت 31 ایف آئی آرز اور دیگر قوانین کے تحت آٹھ جھوٹے مقدمات رپورٹ ہوئے، جب کہ وسطی پنجاب میں 32 مقدمات صرف پیکا ایکٹ کے تحت درج کیے گئے — ان میں کئی کارروائیاں پرانی سوشل میڈیا پوسٹس کی بنیاد پر ہوئیں۔
اقبال خٹک کے مطابق، “جب تک مقامی میڈیا کو مضبوط نہیں کیا جائے گا، عوام کو درست اور مستند معلومات تک رسائی ممکن نہیں۔ یہ نتائج حکومت، میڈیا تنظیموں اور سیاسی جماعتوں سب کے لیے سنجیدہ انتباہ ہیں۔
رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پرنٹ میڈیا کے زوال اور کم آمدنی والے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے پھیلاؤ نے صحافیوں کو مزید غیر یقینی صورتحال میں دھکیل دیا ہے۔ خواتین صحافیوں کے لیے حالات اور بھی مشکل ہیں — انہیں پریس کلبوں میں رکنیت نہ ملنا، ہراسانی اور محدود نوعیت کی اسائنمنٹس جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اگرچہ کچھ شہروں میں معمولی بہتری ضرور دیکھی گئی ہے۔
رپورٹس کے مطابق پیکا ایکٹ 2025ء کی نئی ترامیم نے قانونی سنسرشپ کی ایک نئی شکل اختیار کر لی ہے، کیونکہ اب پولیس کو اختیار ہے کہ وہ سوشل میڈیا پوسٹس پر بھی مقدمات درج کرے، جس کے نتیجے میں صحافیوں کے اندر خود سنسرشپ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
تحقیقی رپورٹ میں کئی سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں، جن میں شامل ہیں:
پنجاب میں صحافیوں کے تحفظ کا قانون اور اس کے تحت تحقیقی کمیشن کا قیام۔
تمام نامہ نگاروں کے لیے کم از کم اجرت اور محنت کش حقوق کا نفاذ۔
شفاف اشتہاراتی نظام تاکہ معاشی دباؤ کے ذریعے سنسرشپ کا خاتمہ ہو۔
معلومات تک آسان رسائی، باقاعدہ سرکاری بریفنگز، اور خواتین صحافیوں کے لیے مساوی مواقع و تربیت۔
میڈیا، سول سوسائٹی اور اکیڈمیا کے درمیان بہتر روابط تاکہ صحافت کو پائیدار اور محفوظ بنایا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق، اگر حکومت اور میڈیا ادارے فوری طور پر اصلاحات کی طرف نہ بڑھے تو صحافت پر دباؤ میں مزید اضافہ ہوگا — اور یہ رجحان نہ صرف آزادیٔ اظہار بلکہ جمہوری عمل کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پیکا قانون کا غلط استعمال: — پنجاب میں صحافیوں کے خلاف جھوٹے مقدمات میں اضافہ
  • پیکا کا غلط استعمال، پنجاب میں صحافیوں کے خلاف جھوٹے مقدمات میں اضافے کا انکشاف
  • جھوٹےمقدمات میں ملوث اہلکاروں کیخلاف تحقیقات کاحکم
  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس اہلکاروں کیخلاف تحقیقات کا حکم دے دیا
  • اغوا کے بعد متاثرہ فیملی کیخلاف ہی مقدمہ کرنے پر پولیس اہلکاروں کیخلاف تحقیقات کا حکم 
  • خاتون وزیراعلیٰ کے ہوتے پولیس نے چادر، چار دیواری کا تقدس پامال کیا: جسٹس محسن اختر
  • فلک جاوید پولیس افسران پر حملے میں ملوث ہے، پولیس، عدالت سے مزید ریمانڈ کی درخواست
  • لاہور: پتنگ بازی میں ملوث 1681 افراد گرفتار، 1647 کیخلاف مقدمات درج