امریکہ کا ویزا شرائط مزید سخت کرنے کا فیصلہ ، درخواست گزاروں کی گزشتہ 5 سال کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کی مکمل جانچ کی جائے گی
اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT
نیویارک (ڈیلی پاکستان آن لائن )ٹرمپ انتظامیہ نے ویزا حاصل کرنے کے خواہش مند افراد کیلئے سخت شرائط متعارف کرانے کا فیصلہ کرلیا ہے، جس کے تحت درخواست گزاروں کی گزشتہ 5 سال کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کی مکمل جانچ کی جائے گی۔
امریکی کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن نے اس فیصلے کا نوٹس فیڈرل رجسٹر میں شائع کردیا ہے، جسے لازمی قرار دیا گیا ہے۔
فیصلے کے مطابق امریکی سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز یہ جانچ کرے گی کہ آیا درخواست دہندگان نے گزشتہ برسوں میں امریکا مخالف، یہود مخالف یا دہشت گردی سے متعلق کوئی مواد شیئر یا ترویج تو نہیں کی۔ تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ اس پالیسی پر عمل درآمد کب سے شروع ہوگا۔
بھارت کے بغیر پاکستان کے ساتھ ’کسی اتحاد‘ میں شمولیت ممکن ہے: بنگلہ دیش
امریکی عوام کو 60 روز کے اندر اس نئے اقدام پر اپنی رائے دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
رپورٹس کے مطابق امریکا میں داخلے کے خواہش مند افراد سے اہل خانہ کے ای میل ایڈریس، فون نمبر اور دیگر ذاتی معلومات بھی طلب کی جائیں گی۔
اس سے قبل محکمہ خارجہ نے سیاحوں کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی سوشل میڈیا پوسٹس کو ’پبلک‘ کریں، جبکہ اگست میں ٹرمپ انتظامیہ نے کہا تھا کہ وہ ویزا اور گرین کارڈ کیلئے درخواست دینے والوں کی سوشل میڈیا تاریخ کی جانچ کرنا چاہتی ہے۔
ماہرین کے مطابق اس اقدام کے بعد طلبہ، سیاحوں اور دیگر وزیٹرز کی امریکا مخالف سوشل میڈیا سرگرمیاں ویزا مسترد ہونے کا سبب بن سکتی ہیں، جبکہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ حکام اب سیاسی یا نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر بھی ویزا مسترد کرسکیں گے۔
سٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی ، ڈالر بھی سستا ہو گیا
ٹرمپ انتظامیہ پہلے ہی 19 ممالک کے شہریوں کیلئے امریکا کے دروازے بند کرچکی ہے اور اس دائرے کو 30 ممالک تک بڑھانے پر غور کیا جارہا ہے۔ حیران کن طور پر یہ نیا اقدام برطانیہ اور جرمنی جیسے ممالک پر بھی نافذ ہوگا، جنہیں اب تک ویزا چھوٹ حاصل تھی۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا
پڑھیں:
پاکستان کو غزہ کے شہریوں کی مصر منتقلی کے اسرائیلی منصوبے پر تشویش
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان، سعودی عرب، مصر، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، ترکی اور قطر نے جمعے کو اپنے مشترکہ بیان میں ان اسرائیلی بیانات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، جن میں رفح کراسنگ کو یکطرفہ طور پر کھولنے اور غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کو مصر منتقل کرنے کا ذکر ہے۔پاکستان، سعودی عرب، مصر، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، ترکی اور قطر نے جمعے کو اپنے مشترکہ بیان میں ان اسرائیلی بیانات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، جن میں رفح کراسنگ کو یکطرفہ طور پر کھولنے اور غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کو مصر منتقل کرنے کا ذکر ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جمعے کو جاری کیے گئے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ان ممالک کے وزرائے خارجہ ’’فلسطینی عوام کو ان سرزمین سے بے دخل کرنے کی کسی بھی کوشش کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں‘‘۔
بیان میں کہا گیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے کی مکمل پابندی ضروری ہے، جس میں رفح کراسنگ کو دونوں سمتوں میں کھلا رکھنے، آبادی کی آزادانہ نقل و حرکت یقینی بنانے اور غزہ کی پٹی کے کسی بھی رہائشی کو روانہ ہونے پر مجبور نہ کرنے کی شقیں شامل ہیں۔مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا کہ ’’ایسے حالات پیدا کرنے کی ضرورت ہے جن کے تحت غزہ کے شہری اپنی سرزمین پر رہ سکیں اور اپنے وطن کی تعمیر میں حصہ لے سکیں، ایک جامع حکمتِ عملی کے تحت، جس کا مقصد استحکام کی بحالی اور ان کی انسانی صورت حال کو بہتر بنانا ہے۔وزرائے خارجہ نے خطے میں امن قائم کرنے کے لیے صدر ٹرمپ کے عزم کو سراہا اور زور دیا کہ سلامتی اور امن کے حصول اور علاقائی استحکام کی بنیادو کو مضبوط کرنے کے لیے ’ٹرمپ پلان‘ پر بلا تاخیر اور بغیر کسی رکاوٹ کے مکمل عمل درآمد میں پیش رفت ضروری ہے‘‘۔
اس سلسلے میں انہوں نے زور دیا کہ فائر بندی کو مکمل طور پر برقرار رکھا جائے، عام شہریوں کی تکلیف کم کی جائے، غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کی بلا روک ٹوک رسائی یقینی بنائی جائے، ابتدائی بحالی اور تعمیرِ نو کی کوششوں کا آغاز کیا جائے اور ایسے حالات پیدا کیے جائیں جن کے تحت فلسطینی اتھارٹی غزہ کی پٹی میں اپنی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھال سکے اور خطے میں سیکورٹی اور استحکام کے نئے مرحلے کی بنیاد رکھی جا سکے۔
وزرائے خارجہ نے اس بات کی بھی توثیق کہ ان کے ممالک امریکا اور تمام متعلقہ علاقائی و بین الاقوامی فریقوں کے ساتھ تعاون اور ہم آہنگی جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں، تاکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2803 اور دیگر متعلقہ قراردادوں پر مکمل عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔اور ایسے مناسب حالات پیدا کیے جائیں جن کے ذریعے بین الاقوامی قوانین اور دو ریاستی حل کے مطابق ایک منصفانہ، جامع اور دیرپا امن حاصل ہو سکے، جس کا نتیجہ 4 جون 1967 کی سرحدوں پر مشتمل ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں نکلے، جس میں غزہ اور مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقے شامل ہوں اور جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو۔