WE News:
2025-12-11@10:25:29 GMT

پاکستان میں ہائی پروفائل کورٹ مارشلز کی تاریخ

اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT

پاکستان میں ہائی پروفائل کورٹ مارشلز کی تاریخ

سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائے جانے کے بعد پاکستان میں اعلیٰ سطح پر ہونے والے کورٹ مارشلز کی تاریخ ایک بار پھر موضوعِ گفتگو بن گئی ہے۔ ملک میں فوجی احتساب کے کئی اہم مقدمات پہلے بھی سامنے آ چکے ہیں جنہوں نے عوامی توجہ حاصل کی اور ادارہ جاتی کارروائیوں کی مثال بنے۔

پاکستان کی فوجی تاریخ میں متعدد ایسے سینیئر افسران گزرے ہیں جن کے خلاف سنگین الزامات پر کارروائیاں ہوئیں۔ ذیل میں ان اہم کیسز کا خلاصہ پیش ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد منیر خان، لیفٹیننٹ جنرل (ر) افضل مظفر

2009  میں این ایل سی کو 1.

8 ارب روپے کا نقصان ہوا جس پر پارلیمانی کمیٹی نے انکوائری کا حکم دیا۔ تحقیقات میں بے ضابطگیاں، ناقص فیصلے اور قواعد کی خلاف ورزیاں ثابت ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیں:آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ثابت،جنرل فیض حمید کو 14 سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی، آئی ایس پی آر

جنرل کیانی نے معاملہ نیب کے بجائے آرمی ایکٹ کے تحت چلانے کا فیصلہ کیا۔ 2015 میں تحقیقات مکمل ہونے پر 2 ریٹائرڈ جنرلز سمیت متعدد افراد کو ذمہ دار قرار دیا گیا۔

خالد ظہیر کو سروس سے برطرف جبکہ افضل مظفر کو ’سیویئر ڈِسپلیژر‘ کی سزا سنائی گئی۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال

لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال کو حساس معلومات بیرونی ایجنسیوں کو دینے کے الزام میں مئی 2019 میں 14 سال قید کی سزا ہوئی، جسے بعد ازاں مختلف مراحل میں کم کر دیا گیا۔جس کے بعد وہ رہا ہوگئے۔

میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی اور دیگر

1995 میں میجر جنرل عباسی اور متعدد افسران پر الزام لگا کہ وہ کور کمانڈرز کانفرنس پر حملہ کر کے حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے میجر جنرل عباسی کو 7 سال جبکہ بریگیڈیئر مستنصر باللہ کو 14 سال قید کی سزا سنائی۔ دیگر افسران کو 4-4 سال قید ہوئی۔

بریگیڈیئر (ر) علی خان

2011 میں بریگیڈیئر (ر) علی خان کو کالعدم تنظیم حزب التحریر سے تعلق اور فوج میں بغاوت کی کوشش کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

فوجی عدالت نے انہیں 5 سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔ ان کے ساتھ متعدد میجرز کو بھی مختلف سزائیں دی گئیں۔

انتظامی طور پر برطرفی کے واقعات

بعض سینیئر افسران کو کورٹ مارشل کے بجائے محکمانہ کارروائی کے تحت برطرف کیا گیا، جن میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) ضیا الدین بٹ اور 2016 میں کرپشن کے الزام میں برطرف کیے جانے والے 2 حاضر سروس جنرلز بھی شامل ہیں۔

سپریم کورٹ کے باوجود کورٹ مارشل نہ ہونے کے معاملات

اصغر خان کیس میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کے خلاف کارروائی کے احکامات دیے گئے، مگر بعد میں مؤثر پیش رفت نہ ہوسکی۔

یہ بھی پڑھیں:جنرل فیض حمید کو سزا، ’ 9 مئی کے کیسز ابھی باقی ہیں‘، فیصل واوڈا

بعد ازاں جنرل درانی کی کتاب Spy Chronicles پر بھی تحقیقات کا حکم ہوا، مگر کوئی حتمی کارروائی سامنے نہ آسکی۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید

یاد رہے کہ فیض حمید کے خلاف کارروائی ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے سی ای او کنور معیز خان کی سپریم کورٹ میں دائر درخواست سے شروع ہوئی۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ آئی ایس آئی اور رینجرز نے ان کے دفتر اور گھر پر چھاپہ مار کر زیورات، نقدی اور دیگر قیمتی اشیا ضبط کیں۔

ان کے مطابق بعد ازاں فیض حمید نے رابطہ کر کے تمام سامان واپس کرنے کی پیشکش کی، سوائے 400 تولہ سونے اور نقد رقم کے۔ درخواست میں یہ الزام بھی تھا کہ 2 سابق بریگیڈیئرز نے مبینہ طور پر 4 کروڑ روپے نقد اور چند ماہ تک ایک نجی ٹی وی چینل کی سرپرستی پر مجبور کیا۔

سپریم کورٹ نے معاملہ متعلقہ اداروں کو بھیجتے ہوئے کہا کہ اس نوعیت کے سنگین الزامات نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ بعد ازاں فیض حمید کو حراست میں لیا گیا اور تقریباً نو ماہ بعد ان پر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی۔

پاکستان میں فیض حمید کی سزا نے ایک بار پھر اس حقیقت کو نمایاں کر دیا ہے کہ فوج میں احتساب کا سلسلہ مختلف ادوار میں جاری رہا ہے، اور کئی بڑے نام عدالتوں اور فوجی قوانین کے تحت جوابدہ بنتے رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جنرل فیض حمید کورٹ مارشل لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال مستنصر باللہ

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جنرل فیض حمید کورٹ مارشل مستنصر باللہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو کورٹ مارشل سال قید کی سزا

پڑھیں:

پشاور کی عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ شام کے اوقات میں سماعت کا آغاز

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پشاور: پشاور کی عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ شام کے اوقات میں سماعت کاآغاز کردیا گیاہے ۔

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے باضابطہ افتتاح کیا ۔ اس موقع پر رجسٹرار پشاورہائی کورٹ محمد زیب، پرنسپل سیکریٹری ٹو چیف جسٹس عادل مجید، ڈسٹرکٹ سیشن جج پشاور انعام اللہ وزیر، سینئر سول جج ارشد علی مہمند اور دیگر جوڈیشل افسران بھی موجود تھے۔

چیف جسٹس نے مذکورہ عدالت کا معائنہ بھی کیا اور ڈیوٹی پر موجود ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج سے مختلف عدالتی امور پر بات چیت کی اور ججوں کو ہدایت کی کہ وہ سائلین کو فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنائے تاکہ زیرالتوا مقدمات جلد نمٹائے جاسکیں۔

اس موقع پر میڈیا سے گفتگو میں رجسٹرار پشاور ہائی کورٹ نے کہا کہ سب سے پہلے شام کی عدالتیں ایبٹ آباد میں شروع کی گئیں، اب سیکنڈ شفٹ کی دو عدالتیں پشاور میں فعال کر دی گئی ہیں۔

ویب ڈیسک عادل سلطان

متعلقہ مضامین

  • ‏قوم برسوں فیض حمید، جنرل باجوہ کے بوئے بیجوں کی فصل کاٹے گی: خواجہ آصف
  • آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ثابت،سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو 14 سال قید بامشقت کی سزا   
  • سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو 14 سال قیدِ بامشقت کی سزا
  • سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو 14 سال قیدِ بامشقت کی سزا
  •  لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی کہانی کیا ہے؟
  • فیض حمید کو 14 سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی
  • سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو 14 سال قید با مشقت کی سزا سنا دی گئی
  • سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو 14 سال قید کی سزا سنا دی گئی
  • پشاور کی عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ شام کے اوقات میں سماعت کا آغاز