لاہور ہائیکورٹ نے کم از کم تنخواہ ایک ہزار ڈالر کرنے کی درخواست مسترد کردی
اشاعت کی تاریخ: 10th, December 2025 GMT
لاہور:
لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان میں کم از کم تنخواہ ایک ہزار ڈالر کے مساوی کرنے کی آئینی درخواست ناقابل سماعت قرار دیکر مسترد کردی۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے فہمید نواز انصاری ایڈووکیٹ کی درخواست پر سماعت کی جس میں وزیراعظم سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔
عدالت نے رجسٹرار آفس کے اعتراض کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ آپ کی درخواست ہائیکورٹ میں قابلِ سماعت نہیں، درخواست کو داخل دفتر کرنے کیلئے حکم جاری کیا جانا ضروری ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست میں کچھ چیزوں کو آپ یہاں چیلنج نہیں کرسکتے۔
درخواست گزار نے درخواست مین موقف اختیار کیا کہ پاکستان برطانوی کالونی رہا ہے اور وہی قوانین یہاں پر لاگو ہیں، عدالتی کیسوں میں بھی امریکہ اور برطانوی عدالتوں کے فیصلوں کو مانا جاتا ہے،
درخواست گزار نے کہا کہ امریکہ اور برطانیہ کے قوانین کو بھی پاکستان میں مانا جاتا ہے لہذا پاکستان میں بھی برطانوی اور امریکی لیبر قوانین ہونے چاہئیں۔
درخواستگزار نے کہا کہ امریکہ اور برطانیہ میں کم از کم تنخواہ ایک ہزار ڈالر مقرر ہے، عدالت پاکستان میں بھی کم از کم تنخواہ ایک ہزار ڈالر مقرر کرنے کا حکم دے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کم از کم تنخواہ ایک ہزار ڈالر پاکستان میں کہا کہ
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ: جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کی درخواست قابل سماعت قرار
اسلام آباد (وقار عباسی/وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بنچ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کی درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے علاوہ وفاق کو بذریعہ وزارت قانون اور صدر مملکت کو بذریعہ پرنسپل سیکرٹری، سیکرٹری جوڈیشل کمشن، پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرر،ایچ ای سی اور کراچی یونیورسٹی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تین روز میں جواب طلب کر لیا۔ گذشتہ روز میاں داؤد ایڈووکیٹ کی درخواست پر سماعت کے دوران درخواست گزار وکیل ذاتی طور پر عدالت پیش ہوئے جبکہ اسلام آباد بار کونسل کے ممبر راجہ علیم عباسی، اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے صدر نعیم گجر اپنے وکیل احمد حسن کے ہمراہ، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد ایاز شوکت، عدالتی معاون بیرسٹر ظفر اللہ اور دیگر عدالت پیش ہوئے، درخواست گزار پھر بار اس کے بعد عدالتی معاون کو سنوں گا، درخواست گزار وکیل میاں داؤد نے دلائل کاآغاز کرتے ہوئے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 193 کے تحت ہائیکورٹ جج کے لیے وکیل ہونا لازم ہے،جسٹس جہانگیری جج بلکہ وکیل بننے کیلئے بھی کوالیفائی نہیں کرتے تھے، جج پر الزام سچا لگا یا جھوٹا اب بارِ ثبوت اْن پر ہے کہ وہ ثابت کریں کہ ڈگری اصل ہے، احمد حسن بھی روسٹرم پر آگئے اور کہاکہ پہلے بار کو اس کیس میں سنا جائے اس کے بعد عدالتی معاون کو سنا جائے، میں آٹھ ہزار وکلاء کا نمائندہ ہوں مجھے پہلے سنا جائے، یہ درخواست اسلام ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے درخواست دائر کی ہے، دوران سماعت درخواست گزار وکیل نے اسلام آباد بار کے فریق بننے پر اعتراض عائد کر دیا، اس موقع پر اسلام آباد بار کے وکیل احمد حسن نے دلائل کا آغاز کر دیا جبکہ بیرسٹر ظفر اللہ دوبارہ بیٹھ گئے۔ اسلام آباد بارکے وکیل احمد حسن نے کہاکہ درخواست گزرا اس کیس میں متاثرہ فریق نہیں ہے، اگر یہ سمجھتے ہیں کوئی ایشو ہے تو ان کو بار کونسل جانا چاہیے، وکیل کی ڈگری کا معاملہ ڈسٹرکٹ بار اور بار کونسل ہی دیکھتی ہیں، اگر درخواست گزار وکیل صاحب کو مسئلہ ہے تو بار کونسل سے رجوع کریں، جس جج کے خلاف کیس ہے وہ پہلے وکیل رہے، بعد میں جج بنے، وکالت کے بعد جسٹس جہانگیری کو جوڈیشل کمشن نے جج تعینات کیا۔ ڈگری اور دیگر معاملات کا فیصلہ بار کونسل نے کرنا ہے، ڈگری غلط ہو تو معاملہ عدالت نہیں، بار کونسل لے کر جانا ہوتا ہے۔ اگر کسی کو ان کی دس سالہ وکالت پر اعتراض ہے تو بار کونسل میں جائے، اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار کے وکیل نے جسٹس طارق جہانگیری کے خلاف کیس قابلِ سماعت قرار دینے کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ یہ کیس اِس ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار کا نہیں، سپریم جوڈیشل کونسل کا اختیار ہے۔ استدعا ہے کہ عدالت بار کونسل کے اختیارات میں مداخلت نہ کرے، عدالت سے استدعا ہے کہ اپنے ہی ساتھی جج کو ماتحت نہ سمجھا جائے، اسلام آباد ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن کے وکیل احمد حسن کے دلائل مکمل ہو جانے پر اسلام آباد بار کونسل کے ممبر راجہ علیم عباسی عدالت کے سامنے پیش ہوگئے۔ بار کے وکیل احمد حسن نے کہاکہ اگر ہائیکورٹ کا ایک جج دوسرے جج کے خلاف اس طرح کارروائیاں شروع کر دے گا تو نظام عدل دھرم برہم ہو جائے گا، اسلام آباد بار کونسل کی جانب سے بھی کیس دوسرے بنچ میں منتقل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہاگیاکہ آج اگر یہ نظیر قائم ہوگئی تو کل کسی کو نہیں روک سکیں گے، یونیورسٹی کچھ بھی کہے، عدالت فیصلہ نہیں دے سکتی،جج کا معاملہ جوڈیشل کونسل، وکالت کا معاملہ بار کونسل دیکھے گی، یہ ہماری ہائی کورٹ ہے۔ اس کا تحفظ ضروری ہے، ممبر اسلام آباد بار کونسل راجہ علیم عباسی کے دلائل مکمل ہو جانے پر عدالتی معاون بیرسٹر ظفراللہ خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ میں ذاتی رائے نہیں دوں گا، صرف قانونی نکات سامنے رکھوں گا، رِٹ درخواست پر بھارتی اعلیٰ عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا گیا۔ عدالتی معاون بیرسٹر ظفر اللہ کی جانب سے کو وارنٹو رٹ کے قابل سماعت ہونے پر دلائل کے دوران مختلف اعلیٰ عدالتی فیصلوں کا بھی حوالہ دیاگیا اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے کیس قابل سماعت ہونے کی حمایت کی گئی۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد ایاز شوکت روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو کراچی یونیورسٹی کی رپورٹ پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاگیا کہ یونیورسٹی رپورٹ کے مطابق اسلامیہ کالج نے طارق محمود کو Stranger قرار دیا، یونیورسٹی یہ کہہ رہی ہے کہ طارق محمود اسلامیہ کالج کے کبھی سٹوڈنٹ ہی نہیں رہے؟، کراچی یونیورسٹی کا جواب بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا جس میں کہاگیاکہ سال1989میں طارق محمود پر ان فیئر مینز کمیٹی 3 سال کی پابندی لگا چکی تھی،کمیٹی نے نقل کرنے اور ایگزامنر کو دھمکیاں دینے کا الزام ثابت ہونے پر طارق محمود پر 3 سالہ پابندی لگائی تھی۔ یونیورسٹی سے 1989ء کے فیصلے کے تحت طارق محمود 1992ء میں دوبارہ امتحان دینے کیلئے اہل تھے، پابندی کے خلاف طالبعلم طارق محمود نے ڈگری حاصل کرنے کیلئے 1990 کا جعلی انرولمنٹ فارم استعمال کیا، رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ نے 5 جولائی 2024ء کو بذریعہ ای میل کنٹرولر ایگزامیشن کے لیٹر کی تصدیق مانگی۔ رجسٹرار ہائیکورٹ کی ای میل کے جواب میں یونیورسٹی نے ڈگری کو غلط قرار دینے کے مراسلے کی تصدیق کی۔ پرنسپل اسلامیہ کالج نے تصدیق کی کہ طارق محمود 1984ء تا 1991ء تک کبھی کالج میں طالب علم ہی نہیں رہا، وکلاء کے دلائل مکمل ہو جانے پر عدالت نے درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے فریقین سے تین روز میں جواب طلب کر لیا اور سماعت ملتوی کر دی گئی۔