خاتون بازیابی کیس:یہ چیف جسٹس کی عدالت ہے کوئی مذاق نہیں‘ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
اشاعت کی تاریخ: 12th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251212-08-27
لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)کاہنہ سے مبینہ اغوا ہونے والی فوزیہ بی بی کی بازیابی کے لیے لاہور ہائیکورٹ نے درخواست نمٹاتے ہوئے 15 روز میں تفتیش کی پراگرس رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔دوران سماعت، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل وقاص عمر نے بتایا کہ عدالت کے حکم پر معاملے کی ایڈیشنل آئی جی نے انکوائری کی۔چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ پولیس کی تحویل میں لی گئی فائل سے کچھ نہیں ملا خالی ہے، پولیس کی بری عادت ہے فائل سے کچھ چیزوں کو نکال لیتی ہے۔چیف جسٹس نے سخت ریمارکس دیے کہ یہ چیف جسٹس کی عدالت ہے کوئی مذاق نہیں، ایسے غیر سنجیدہ اہلکاروں کو پولیس محکمے میں نہیں ہونا چاہیے۔سرکاری وکیل نے کہا کہ انکوائری کے بعد تفتیشی کو برطرف کرکے پیکا کے تحت کارروائی کی سفارش کی گئی ہے، پولیس فوزیہ کی بازیابی کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے مدد لے رہی ہے۔عدالت نے درخواست گزار وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے فوزیہ کا آئی ڈی کیوں نہیں بنوایا؟ وکیل نے بتایا کہ لاعلمی کی وجہ سے درخواست گزار کے تینوں بچوں کے شناختی کارڈز نہیں بنوائے گئے۔چیف جسٹس نے درخواست گزار وکیل سے استفسار کیا کہ فیملی ٹری میں فوزیہ کا نام بھی شامل نہیں ہے، کوئی دستاویزی ثبوت دیں جس سے ثابت ہو سکے فوزیہ آپ کی بیٹی ہے۔ آپ نے بچوں کی تعداد کم کیوں بتائی؟ فوزیہ کو جنات لے گئے یہ پتا ہے لیکن اتنا نہیں پتا آپ کو کہ شناختی کارڈ نہیں بنایا، فیملی ٹری میں نام نہیں۔وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ فوزیہ کی ایک تصویر اور بھائی کی شادی کی وڈیو پولیس کو دی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو شادی کی وڈیو بنانے کا پتا ہے لیکن شناختی کارڈ کیوں نہ بنوایا۔درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ پولیس کا کام خاتون کو بازیاب کرنا ہے وہ کرلے گی، پچھلے دنوں ڈپٹی کمشنر کا کتا گم ہوگیا تھا اس کو ڈھونڈ لیا گیا۔چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ وکیل صاحب ایسی باتیں نا کریں، میڈیا کے لیے خبر نا بنائے، ایسی باتیں زیب نہیں دیتی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ریمارکس دیے کہ درخواست گزار چیف جسٹس
پڑھیں:
لاہور ہائیکورٹ، جعلی پولیس مقابلوں کے خلاف درخواست پر نوٹسز جاری کر دیے
لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب میں جاری جعلی پولیس مقابلوں کے خلاف درخواست پر وفاقی سیکریٹری داخلہ، ڈی جی یگ آئی اور کمیشن برائے تحفظ انسانی حقوق کو جواب جمع کرانے کے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ جسٹس شہرام سرور چودھری نے میاں دائود ایڈووکیٹ سمیت دیگر وکلا کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے حکم دیا کہ جواب جنوری کے تیسرے ہفتے تک عدالت میں جمع کرایا جائے۔
نوٹسز جاریدرخواستگزار وکلا کے مطابق جنوری 2025 سے پنجاب میں جعلی پولیس مقابلوں میں شہریوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ شہریوں کو جعلی اور نامعلوم مقدمات میں نامزد کرکے ہلاک کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پنجاب پولیس کے صوبہ بھر میں کومبنگ آپریشنز اور موک ایکسرسائز
میڈیا رپورٹس کے مطابق اب تک تقریباً 1100 شہری پولیس مقابلوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ نے متعدد فیصلوں میں جعلی پولیس مقابلے آئین و قانون کے خلاف قرار دیے ہیں۔ درخواست میں کہا گیا کہ جعلی پولیس مقابلے کریمنل جسٹس سسٹم کے متبادل کے طور پر استعمال کیے جا رہے ہیں، اور وہاڑی میں ذیشان ڈھڈی ایڈووکیٹ کا قتل اس کی شرمناک مثال ہے۔
انسداد حراست ہلاکت ایکٹ 2022 کے تحت ایف آئی اے کو ہر ہلاکت کی 30 دن میں انکوائری کرنے کی پابندی ہے، لیکن آج تک کسی ہلاکت کی انکوائری نہیں کی گئی۔
عدالت سے استدعا کی گئی کہ پنجاب میں فوری طور پر پولیس مقابلے روکنے کا حکم دیا جائے اور تمام مقابلوں کی انکوائری کرائی جائے۔ عدالت نے وزیر اعلیٰ پنجاب اور وفاقی حکومت کو 2022 کے قانون پر سختی سے عملدرآمد کا حکم دیا ہے۔
درخواستگزار وکلا کا کہنا ہے کہ قانون کے نفاذ اور عدالتی فیصلوں کے باوجود پنجاب میں شہریوں کو ملزم قرار دے کر قتل کیا جا رہا ہے، اور عدالت کے احکامات کے باوجود ایف آئی اے نے ابھی تک کسی ہلاکت کی انکوائری انجام نہیں دی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پنجاب پولیس پولیس مقابلہ لاہور ہائیکورٹ