مودی کے بیانات، خطے میں آگ یا راکھ؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
دنیاکے سیاسی افق پرکچھ خطے ایسے ہوتے ہیں جوتاریخ کے ہرموڑپرآزمائش کی بھٹی میں تپتے ہیں۔ جنوبی ایشیاء انہی سرزمینوں میں سے ایک ہے، جہاں سرحدیں فقط جغرافیے کی لکیرنہیں بلکہ نظریات، عقائد اوراحساسات کی خونچکاں تاریخ کااستعارہ بن چکی ہیں۔ایسے میں جب ایک ریاست کامتعصب اور شدت پسندسربراہ،جس کے ہاتھ میں ایٹمی بٹن بھی ہے اور اقتدار کا زعم بھی،اپنے سیاسی جلسے میں کروڑوں پاکستانیوں کے ’’گولی سے اڑادینے‘‘کی کھلی دھمکی دے، توسوال صرف اخلاقیات یاسفارت کانہیں رہتا بلکہ یہ انسانی تہذیب کے اجتماعی شعور،بین الاقوامی قوانین اورعالمی اداروں کی بقاکاسوال بن جاتاہے۔
مودی کایہ حالیہ بیان،جوگجرات کی زمین پرگونجا،محض ایک انتخابی نعرہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی جنون کااظہارہے ایک ایسا جنون جواپنی ہی تاریخ کے آئینے میں شرمندہ نظرآتاہے، مگر اپنے آس پاس کے دشمنوں پرللکارکے ذریعے خودکوزندہ رکھنے کی کوشش کرتاہے مگریہ للکاراب ہنسی میں نہیں اڑائی جاسکتی،کیونکہ یہ اس خطے میں بسنے والے دوایٹمی طاقتوں کے کروڑوں انسانوں کے مستقبل کوجھونکنے کی ایک شعوری کوشش ہے۔
مودی کی دھمکی نے نہ صرف بین الاقوامی سفارتی آداب کی کھلم کھلاخلاف ورزی کی ہے بلکہ ایک ایسے ذہنی پس منظرکوآشکارکیاہے جوخطے میں امن کے امکانات کوزائل کرنے میں مصروف ہے۔یہ دھمکی، جواخلاقیات اورانسانی حقوق کے اصولوں کے برعکس ہے، نہ صرف ایک جنگی جنون کی علامت ہے بلکہ اس سے بھارت کی داخلی سیاسی صورتِ حال کابھی پتہ چلتاہے جس میں جارحیت کوسیاسی سرمایہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یہ بیان،جوانسانی اقدارکے منافی ہے،ایک ایسے ذہن کی ترجمانی کرتاہے جوجارحیت اورتفرقہ اندازی میں یقین رکھتا ہے، اورجوخطے کی سلامتی واستحکام کے لئے شدید خطرہ ہے۔
دراصل مودی کاحالیہ بیان ،شکست خوردہ ضمیراس مکاری کے سفرکی طرف لے گیاجہاں وہ ووٹوں کے لئے بڑھکیں مارکردجل وفریب سے کام لے رہاتھا کیونکہ ایک عالم جان چکاہے کہ دردیارِہند،جہاں غرورِ قوم پرستی کاشعلہ ایوانوں میں بلندہوتاہے اوردہلی کے ایوانِ اقتدارمیں تکبر،جاہ ومنصب کالباس پہنے بیٹھاہے، وہاں رافیل نامی وہ پرندے،جن پرخزان ملت کے خزف وگوہرلٹائے گئے،طیارہ تقدیرکے دوش پرپاکستان کے جواں ہمت صاعقہ برداروں کے سامنے خاک وخون میں گِر گئے۔جب رافیل کی شکست پرفرانس کی کمپنی نے تین پرندوں کی ہلاکت کااقرارکیا،تودہلی کی فصیلِ غرورپرایساسناٹاطاری ہوا، گویا آگرہ کے قلعہ لال پرسیاہ پرچم لہرانہیں بلکہ آنسوبہارہاہو۔وہی ایئرمارشل اے کے بھارتی، جن کے بیانات سے پیشتربادل گرجتے تھے، اب کہنے لگے کہ’’جنگ میں نقصان معمول ہے‘‘گویا شکست کوسبکی میں ملفوف کرکے پیش کیاجائے، اورخون کے رسنے کولفظوں کے رومال سے چھپایاجائے مگرتاریخ کی نگاہ تیزہے،وہ زخم دیکھ لیتی ہے،وہ چیخ سن لیتی ہے۔
پاکستانی شاہین،جن کی پروازپاک سرزمین کے افق تک محدودرہی،مگرجن کے فولادی تیردشمن کی فضاں کوکاٹتے ہوئے عبرت کانشان بنے،محض عسکری چابک دستی نہ تھے،بلکہ پاک وچین کے باہمی تدبرکا مجسمہ بنے۔اس معرکہ کی جیت،پاکستان کی ہمت سے زیادہ،چین کی تجارتی حکمت اورعسکری فن کاغیراعلانیہ اعلان تھی۔
دراصل مودی کے شعلہ اگلتے ہوئے بیان کی ایک وجہ یہ بھی ہے جب سیزفائرکی راکھ میں چینی حکمت نے ایک چنگاری رکھی جب بھارت کی توجہ مغرب میں پاکستان پرتھی،بیجنگ نے مشرق میں اروناچل پردیش کے مقامات کے نام،چینی وتبتی زبان میں بدل کریہ پیغام دیاکہ ’’نقشے فقط کاغذپرنہیں بنتے،وہ ذہنوں،دعووں اورقوتِ ارادہ میں نقش ہوتے ہیں‘‘۔یہ تبدیلی فقط زبان کی تکرارنہ تھی،بلکہ زمین کی ملکیت کاادبی اعلان تھااورجب بھارت نے مشرق کی جانب نظرکی،تووہاں پہاڑوں کے نام بدلے جا چکے تھے،وادیاں بیگانہ ہوچکی تھیں،اورنقشہ،اس کااپنانہ رہاتھا۔
بھارت کی تینوں سمتوں پرتین دیواریں چین، پاکستان،نیپال تناؤکی تین چٹانیں،جن میں ہندوستان ایک فریب زدہ خواب کی مانند محصورہوچکا ہے۔ نیپال، چھوٹاسہی،مگراس کی خودداری نے بھارتی غرورکے قلعے میں دراڑیں ڈال دیں۔پاکستان،جواب صرف فوجی نہیں بلکہ فکری قوت بھی ہے اورچین،جس کی طاقت صرف عسکری نہیں بلکہ تمدنی بھی ہے۔یہ ایسے ہے،جیسے ایک کمزورپروانہ تین شیروں کی کمین گاہوں میں جاگرے اور سمجھے کہ یہ رات کابادل ہے،جس سے سلامت گزرجائے گا۔بس یہی شکست خوردہ مودی کی حالت ہوچکی ہے۔مودی کے اس بیان کاپس منظرایک نہایت پیچیدہ اورکشیدہ خطے میں ہے،جہاں بھارت اورپاکستان کے مابین فضائی جھڑپیں، سرحدی کشیدگی، اورنفسیاتی جنگ جاری ہے۔گزشتہ دنوں بھارتی فضائیہ کے فرانسیسی ساختہ رافیل طیاروں کی تباہی،پاکستان کی عسکری حکمت عملی اورپاک چین تعاون کی بدولت، بھارت کی عسکری اورسیاسی حالت کوایک نئے سنگ میل پرلے گئی ہے۔
مودی کی دھمکی اسی تناظرمیں سامنے آئی ہے،جہاں ایک طرف بھارت نے سرتاج کی طرح اپنی عسکری طاقت کامظاہرہ کرنے کی ناکام کوشش میں بری طرح منہ کی کھائی ہے اور جہاں عالمی طورپرشرمندگی کا سامناکرناپڑاہے وہاں دوسری طرف،بھارت کی داخلی اورخارجی پالیسیوں میں شدیدالجھن اورعدم استحکام کی جھلک بھی نظرآتی ہے۔مودی کے اس جارحانہ بیان کاپس منظرایک ایسے خطے میں ہے جہاں کشیدگی عروج پرہے اورحالیہ دنوں میں بھارت اورپاکستان کے مابین فضائی جھڑپیں اورمیزائلوں کی بازگشت سنی گئی ہے۔ بھارت نے اس دوران عام طورپرایک خاموشی کامظاہرہ اس لئے کیاگیاکہ مودی کوپاکستان کی طرف سے ایسے جواب کاقطعی اندازہ ہی نہیں تھامگرمودی کی اس تازہ تقریرنے اس خاموشی کی نقاب کشائی کردی ہے اوربے لاگ جارحانہ بیانیہ سامنے لادیاہے۔یہ تضاد،خاموشی اوردھمکی کے درمیان،بین الاقوامی سیاست میں ایک پراناالمیہ ہے۔کیاخاموشی واقعی فتح کی علامت ہے یایہ شکست کاپردہ ہے؟
عالمی سیاست میں خاموشی کواکثرحکمت اور صبرکی علامت سمجھاجاتاہے،لیکن تاریخ اس بات کابھی درس دیتی ہے کہ حکمت صرف اسی وقت کامیاب ہوتی ہے جب وہ بروقت ہو، مناسب ہواورمثبت نتائج دے۔اگردشمن تمہاری حدودمیں گھس آئے اورتم زبان سے بھی جواب نہ دے سکوتویہ خاموشی حکمت نہیں،بزدلی کے سواکچھ نہیں۔مودی کے بیان سے قبل،بھارت نے چینی فوج کی سرحدی پیش قدمیوں کے سامنے توہمیشہ خاموشی اختیارکی،جوحکمتِ عملی کی بجائے خوف اور غیریقینی کی علامت تھی۔اس کے برعکس،پاکستان نے اپنی عسکری کارروائیوں اورسفارتی حکمت عملیوں سے خطے میں اپنامقام مستحکم کیاجبکہ چین نے اپنے جغرافیائی دعوؤں کوعملی جامہ پہناکرخطے کی سیاست میں نئی جہتیں پیداکیں۔
تاریخ نے ہمیں بارہاسکھایاہے کہ حکمت صرف تب ہوتی ہے جب وقت کی نزاکت کوسمجھ کرجواب دیا جائے اوروہ جواب فتح کی جانب لے جائے۔ سفارتی خاموشی کواکثرطاقت کی علامت تصورکیاجاتا ہے، لیکن جب یہ خاموشی دشمن کے سامنے گھبراہٹ اور نااہلی کی شکل اختیارکرلے توپھریہ بہادری کے بجائے بزدلی کے سواکچھ نہیں۔بھارت کی جانب سے چین کی سرحدی پیش قدمیوں اورسرحدپارداخلوں پرجوردعمل نظرآیا،وہ اس بات کاثبوت ہے کہ اس خاموشی کے پیچھے کمزوری اور حکمت کی کمی ہے۔جبکہ پاکستان کے خلاف ہر وقت جارحانہ بیانات دینے والے بھارتی میڈیااورعسکری حلقے چین کے خلاف مکمل طورپر خاموش ہیں،جوان کے فکری الجھن اورحکمت کی کمی کوظاہرکرتاہے۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان کے نہیں بلکہ کی علامت بھارت کی بھارت نے مودی کی مودی کے بھی ہے ہے اور
پڑھیں:
پاکستان کا پہلا ہائپر ا سپیکٹرل سیٹلائٹ
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
جس لمحے کسی قوم کا پرچم خلا کی وسعتوں میں لہرانے لگے ، اس لمحے تاریخ ایک نئے باب کا آغاز لکھتی ہے ۔ پاکستان کے لیے وہ لمحہ تب آیا جب اسپارکو نے چین کے خلائی مرکز سے پہلا ”ہائپر ا سپیکٹرل سیٹلائٹ” HS-1خلا میں روانہ کیا۔ یہ صرف ایک تکنیکی پیشرفت نہیں بلکہ خود اعتمادی، سائنسی بیداری اور قومی وقار کا اظہار ہے ۔ صدیوں سے زمینی حدود میں الجھا ہوا انسان جب اپنے علم اور تخلیقی قوت سے فلک کی سرحدوں تک جا پہنچتا ہے تو اس کی قومیں بھی خوابوں کی نئی تعبیر لکھتی ہیں۔ ”ویژن 2047” کے تحت لانچ ہونے والا یہ سیٹلائٹ دراصل اس پیغام کا اعلان ہے کہ پاکستان اب زمین کا مشاہد بن کر نہیں، بلکہ خلا کا محقق بن کر اُبھرا ہے ۔جب کسی قوم کا خواب زمین کی سرحدوں سے نکل کر خلا کی وسعتوں میں جا پہنچے تو یہ صرف ایک سائنسی کامیابی نہیں ہوتی بلکہ اس کے فکری ارتقاء اور ترقی یافتہ مستقبل کا اعلان بھی ہوتا ہے ۔ پاکستان کے لیے 19 اکتوبر 2025 کا دن اسی نوعیت کا تاریخی موڑ بن گیا، جب سپارکو نے چین کے تعاون سے اپنا پہلا ”ہائپر اسپیکٹرل سیٹلائٹ” HS-1خلا میں بھیجا۔ یہ مشن چین کے شمال مغربی علاقے ”جیوکوان سیٹلائٹ لانچ سینٹر” سے کامیابی کے ساتھ لانچ کیا گیا اور اسے پاکستان کے ”ویژن 2047” کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے ۔ یہ منصوبہ محض ایک سائنسی تجربہ نہیں بلکہ ایک ایسے خواب کی عملی تعبیر ہے جس کا آغاز 1961 میں اُس وقت ہوا تھا جب پاکستان نے خلائی تحقیق کے لیے سپارکو کی بنیاد رکھی تھی۔ہائپرا سپیکٹرل سیٹلائٹ وہ جدید ترین ٹیکنالوجی ہے جو زمین کی سطح کی ہر پرت کا تجزیہ سینکڑوں اسپیکٹرل بینڈز میں کرتی ہے ۔ اس کے ذریعے کسی علاقے کی مٹی، فصل، پانی، معدنی وسائل اور ماحولیاتی تغیرات کا غیر معمولی درستی کے ساتھ مشاہدہ ممکن ہوتا ہے ۔ ”HS-1” سیٹلائٹ میں نصب سینسر زمین سے واپس آنے والی روشنی کے مختلف طول موج (wavelengths) کو اس باریکی سے ریکارڈ کرتے ہیں کہ انسانی آنکھ سے پوشیدہ فرق بھی نمایاں ہو جاتا ہے ۔ مثلاً کسی کھیت میں بیماری پھیلنے سے پہلے ہی فصل کے رنگ میں معمولی تبدیلی کا سراغ لگایا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح پانی کے ذخائر میں آلودگی یا سمندری پودوں کی کیفیت کا مشاہدہ بھی اس ٹیکنالوجی سے ممکن ہے ۔ یہ صلاحیت پاکستان کے لیے زراعت، ماحولیاتی تحفظ، قدرتی وسائل کے درست استعمال، اور شہری منصوبہ بندی میں انقلاب برپا کر سکتی ہے ۔
اسپارکو کے مطابق ”HS-1”سیٹلائٹ پاکستان کے خلائی پروگرام میں وہ مرحلہ ہے جہاں سے مقامی ڈیٹا کی خود مختار فراہمی ممکن ہوگی۔ اب تک ملک کو زمین کے مشاہدے کے لیے غیر ملکی سیٹلائٹس پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ اس سے نہ صرف معلومات تک رسائی محدود تھی بلکہ سلامتی کے کئی پہلوؤں پر بھی اثرات مرتب ہوتے تھے ۔ اب یہ سیٹلائٹ پاکستان کو اپنے موسمیاتی پیٹرنز، زمینی ساخت اور زرعی پیداوار کے متعلق براہ راست ڈیٹا فراہم کرے گا۔ ماہرین کے مطابق اس سے موسمیاتی تبدیلیوں کی پیشگی آگاہی میں بھی مدد ملے گی، جو پاکستان جیسے ملک کے لیے نہایت اہم ہے جہاں 2022 کے تباہ کن سیلاب نے ماحولیاتی خطرات کی سنگینی کو واضح کیا۔
یہ لانچ چین اور پاکستان کے دیرینہ سائنسی تعاون کا عملی مظہر بھی ہے ۔ چین کی نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن (CNSA) کے اشتراک سے کی جانے والی یہ لانچ نہ صرف دوستی کی علامت ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں خلائی تحقیق کے نئے امکانات کو بھی روشن کرتی ہے ۔ چین نے اس سے قبل بھی پاکستان کے مواصلاتی سیٹلائٹ ”پاک سیٹ-1 آر” کو 2011 میں لانچ کرنے میں مدد دی تھی، مگر ”HS-1”پہلی مرتبہ ایسا منصوبہ ہے جو جدید ”ہائپر ا سپیکٹرل امیجنگ” ٹیکنالوجی سے لیس ہے ۔ یہ ٹیکنالوجی دنیا میں صرف چند ممالک کے پاس موجود ہے جن میں امریکہ، چین، فرانس، بھارت اور جاپان شامل ہیں۔ پاکستان اب ان ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے ، جو اپنی زمین کا سائنسی و تکنیکی سطح پر تجزیہ خود کر سکتے ہیں۔
”ویژن 2047” کے تحت پاکستان نے جو حکمتِ عملی مرتب کی ہے ، اس کا مقصد ملک کو اگلی دو دہائیوں میں خود کفیل سائنسی طاقت میں تبدیل کرنا ہے ۔ اس ویژن کے اہم نکات میں قومی خلائی پالیسی، مصنوعی ذہانت، ری موٹ سینسنگ، موسمیاتی تحقیق، اور دفاعی ٹیکنالوجی کا امتزاج شامل ہے ۔ ”HS-1”ان تمام ستونوں کو مضبوط بنانے والا پہلا قدم ہے ۔ ماہرین کے مطابق یہ سیٹلائٹ 600 کلومیٹر کی بلندی پر مدار میں گردش کرے گا اور روزانہ پاکستان کے مختلف حصوں کی سینکڑوں تصاویر لے گا۔ اس کے ذریعے زمین کی سطح کے مختلف حصوں سے حاصل شدہ معلومات کو ایک ڈیجیٹل نقشے کی صورت میں ترتیب دیا جائے گا، جو پالیسی سازی اور سائنسی تحقیق میں بنیادی کردار ادا کرے گا۔
زراعت پاکستان کی معیشت کا ریڑھ کی ہڈی ہے ۔ اندازہ ہے کہ ملک کی کل آبادی کا 38٪ براہ راست اسی شعبے سے وابستہ ہے ۔ مگر بدلتے موسمی حالات، پانی کی قلت اور غیر مستحکم زرعی پالیسیوں نے کسانوں کو مشکلات میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ ”HS-1” کی مدد سے فصلوں کی افزائش، آبپاشی کے نظام، اور زمین کی زرخیزی کے بارے میں حقیقی وقت ڈیٹا حاصل کیا جا سکے گا۔ اس ڈیٹا سے حکومت بہتر زرعی پالیسیاں بنا سکے گی، جبکہ کسانوں کو بروقت معلومات ملنے سے پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہو گا۔اسی طرح قدرتی آفات کی پیشگوئی میں بھی یہ سیٹلائٹ ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے ۔ ہائپر سپیکٹرل امیجنگ کی مدد سے زمین کی پرتوں میں ہونے والی معمولی تبدیلیاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں، جس سے لینڈ سلائیڈنگ، سیلاب یا خشک سالی جیسے خطرات کا قبل از وقت اندازہ لگایا جا سکے گا۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں پہاڑی تودے گرنے اور دریاؤں کی سطح میں اچانک اضافے جیسے واقعات کی نگرانی ”HS-1”سے زیادہ مؤثر طریقے سے ممکن ہوگی۔
اس سیٹلائٹ کے ذریعے حاصل ہونے والا ڈیٹا ماحولیاتی پالیسیوں میں بھی بنیادی کردار ادا کرے گا۔ صنعتی آلودگی، جنگلات کے خاتمے اور شہری پھیلاؤ کے اثرات کا درست اندازہ صرف خلائی تصویروں سے لگایا جا سکتا ہے ۔
پاکستان میں جنگلات کی تیزی سے ختم ہوتی ہوئی شرح ایک سنگین ماحولیاتی المیہ بنتی جا رہی ہے ۔ مختلف قومی و بین الاقوامی اداروں کے مطابق ملک میں ہر سال تقریباً 27,000 ہیکٹر جنگلات صفحئہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں، جو زمینی توازن، ماحولیاتی تحفظ اور حیاتیاتی تنوع کے لیے شدید خطرہ ہے ۔ اقوامِ متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اُن ممالک میں شامل
ہے جہاں جنگلات کا رقبہ کل زمینی علاقے کے محض 5.1% کے قریب رہ گیا ہے ، جب کہ عالمی اوسط تقریباً 31٪ ہے ۔ یہ تشویشناک صورتِ حال نہ صرف ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہی ہے بلکہ درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ، بارشوں کے نظام میں بگاڑ، زمین کے کٹاؤ اور حیوانی و نباتاتی زندگی کے خاتمے جیسے مسائل کو بھی جنم دے رہی ہے ۔ اس کے نتیجے میں ملک کے کئی علاقے تیزی سے بنجر ہو رہے ہیں اور مقامی آبادی کو پانی کی قلت، زرعی زرخیزی میں کمی اور موسمیاتی تغیرات کے منفی اثرات کا سامنا ہے ۔ جنگلات کی کٹائی کے اس بڑھتے ہوئے رجحان میں انسانی لالچ، غیر قانونی لکڑی کا کاروبار، زمینوں کی رہائشی و صنعتی تبدیلی، اور آگ لگنے کے واقعات اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر فوری سطح پر قومی سطح پر جنگلات کے تحفظ، شجرکاری کے فروغ اور غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف سخت اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے چند دہائیوں میں پاکستان کا ماحولیاتی نقشہ ناقابلِ واپسی نقصان سے دوچار ہو سکتا ہے ۔
”HS-1”ان تبدیلیوں کی مسلسل نگرانی کر کے حکومت کو علاقوں کی نشاندہی میں مدد دے گا جہاں فوری اقدامات درکار ہوں۔یہ منصوبہ پاکستان کے نوجوان سائنس دانوں اور انجینئرز کے لیے بھی ایک محرک قوت بن سکتا ہے ۔ سپارکو کی قیادت نے واضح کیا ہے کہ ملک میں خلائی علوم کے فروغ کے لیے نئے تحقیقی مراکز اور تربیتی پروگرام شروع کیے جائیں گے ۔ تعلیمی اداروں میں مصنوعی ذہانت، ریموٹ سینسنگ، اور ڈیٹا تجزیہ سے متعلق کورسز متعارف کرانے کا منصوبہ ہے تاکہ ”ویژن 2047” صرف ایک حکومتی دستاویز نہ رہے بلکہ قومی جذبے کی صورت اختیار کر لے ۔
تاہم اس عظیم پیشرفت کے ساتھ چند چیلنجز بھی موجود ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ فنڈنگ اور تکنیکی خودمختاری کا ہے ۔ پاکستان کو اس شعبے میں چین پر انحصار کم کرنے کے لیے اپنی اندرونی سائنسی بنیاد مضبوط کرنا ہوگی۔ اس کے علاوہ خلائی ڈیٹا کے سیکیورٹی پہلو بھی اہم ہیں کیونکہ ہائپرا سپیکٹرل ڈیٹا حساس نوعیت کا ہوتا ہے اور اس کا غلط استعمال ممکن ہے ۔ اس لیے ڈیٹا کے تحفظ کے لیے قومی سطح پر ضابطے (regulations) مرتب کرنا ناگزیر ہیں۔
اب جبکہ ”HS-1” پاکستان کے مدار میں گردش کر رہا ہے ، تو ضروری ہے کہ اس کے ثمرات صرف اعداد و شمار تک محدود نہ رہیں بلکہ عوامی فلاح میں ڈھل جائیں۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو چاہیئے کہ وہ حاصل شدہ معلومات کو زرعی، ماحولیاتی، شہری اور تعلیمی شعبوں میں عملی منصوبہ بندی سے جوڑے ۔ کسانوں کے لیے موبائل ایپس، یونیورسٹیوں کے لیے تحقیقی ڈیٹا بیس، اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے لیے فوری معلوماتی نظام تشکیل دیا جائے تاکہ یہ ٹیکنالوجی براہ راست عوامی زندگی میں اثر انداز ہو۔
پاکستان کے لیے یہ لمحہ محض ایک سیٹلائٹ لانچ نہیں بلکہ اپنی علمی خودمختاری کی بازیافت ہے ۔ جب ایک ترقی پذیر ملک اپنی زمین، فضا اور ماحول کی نگرانی کے لیے خود ساختہ ٹیکنالوجی استعمال کرنے لگتا ہے تو یہ اس کے فکری عزم کی دلیل ہوتا ہے ۔”HS-1” دراصل اس اعتماد کی علامت ہے کہ ہم علم، تعاون اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے مستقبل کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ یہ وہ روشنی ہے جو نہ صرف آسمان میں چمک رہی ہے بلکہ پاکستان کے نوجوان ذہنوں میں امید کا نیا چراغ روشن کر رہی ہے ، اور یہی وہ سمت ہے جسے ”ویژن 2047” نے نشان زد کیا ہے ایک خود مختار، سائنسی اور مضبوط پاکستان کی سمت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔