اسلام ٹائمز: ایران کا IAEA سے تعاون ختم کرنا ایک ردعمل ہے ان مظالم اور غیرجانبداریت کے فقدان پر، جس نے اس کے سائنسدانوں اور تنصیبات کو نشانہ بنوایا۔ اگر مغرب واقعی خطے میں امن چاہتا ہے تو اسے ایران کو تنہا ٹارگٹ کرنے کے بجائے اسرائیل کو بھی IAEA کے دائرے میں لانا ہوگا۔ بصورت دیگر، یہ دوہرا معیار ہی مشرق وسطیٰ کو ایٹمی جنگ کی دہلیز پر لے جائے گا، جس کا نتیجہ پوری دنیا کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے۔ تحریر و تجزیہ: ایس این سبزواری

ایران نے حالیہ دنوں میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ تعاون معطل کرتے ہوئے اپنے جوہری تنصیبات سے کیمرے ہٹا دیے اور انسپکشن کی رسائی محدود کر دی۔ اس اقدام نے مغرب میں تشویش کی لہر دوڑا دی، جبکہ ایران نے الزام لگایا کہ آئی اے ای اے ایک غیرجانبدار ادارہ نہیں بلکہ امریکی و اسرائیلی ایجنڈے کا آلہ کار ہے۔

ایران کا مؤقف اور کیوں آئی اے ای اے سے تعاون ختم کیا؟ ایران کے مطابق:
آئی اے ای اے کے معائنوں سے ملنے والی معلومات اسرائیل اور امریکا کے ہاتھ لگتی رہیں، جن کی بنیاد پر ایرانی سائنسدانوں کو قتل کیا گیا۔ اسرائیل کی "ایرانی جوہری راز چرانے" کی فلمی کہانی دراصل آئی اے ای اے کے ریکارڈز پر مبنی تھی، جسے اسرائیل نے ڈرامائی انداز میں پیش کیا۔ ایران سمجھتا ہے کہ اگر وہ پہلے دن سے ہی آئی اے ای اے کے ساتھ اس درجے کا تعاون نہ کرتا، تو نہ اس کے سائنسدان مارے جاتے، نہ جوہری تنصیبات پر بار بار حملے ہوتے۔
حوالہ: ایرانی حکام کے بیانات (Press TV، 2024)، محسن فخری زادہ کیس اسٹڈی۔

دوہرا معیار: اسرائیل کا ایٹمی پروگرام کیوں مستثنیٰ؟
اسرائیل نے کبھی NPT پر دستخط نہیں کیے اور IAEA کے لیے اپنی جوہری تنصیبات کے دروازے بند رکھے ہیں، لیکن اس پر کوئی عالمی دباؤ نہیں۔ رپورٹس کے مطابق اسرائیل کے پاس 80-200 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، جو مشرق وسطیٰ میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کی اصل بنیاد ہیں۔ اس کے برعکس ایران نے NPT پر دستخط کر رکھے ہیں اور کئی سالوں تک IAEA کو مکمل رسائی دیتا رہا، اس کے باوجود اس پر عالمی دباؤ بڑھایا جاتا رہا۔
 حوالہ: SIPRI Yearbook 2023، IAEA Annual Reports۔

خطے کا حقیقی خطرہ: جارح اسرائیلی پالیسی
13 جون 2025ء کو اسرائیل نے ایران پر اچانک حملہ کیا اور جوہری پروگرام کو تباہ کرنے کی کوشش کی، جس کے بعد ایران کا جواب آیا۔ یہ واضح کرتا ہے کہ اس خطے کے لیے اصل خطرہ ایٹمی صلاحیت نہیں، بلکہ نیتن یاہو کی جارحانہ پالیسیاں ہیں، جو مشرق وسطیٰ کو بڑی جنگ کے دہانے پر لے آئی ہیں۔
 حوالہ: UN Secretary General Antonio Guterres کا بیان، جون 2025: "Israel’s unilateral aggression has escalated the regional tensions dangerously.

"

عالمی طاقتوں کا دہرا معیار:
جب ایران IAEA کے کیمرے ہٹاتا ہے، مغرب اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کہتا ہے۔ مگر اسرائیل آئی اے ای اے کو اندر داخل ہونے ہی نہیں دیتا، پھر بھی امریکا اور یورپ اسے “سیکورٹی کی ضرورت” کہہ کر جواز فراہم کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور IAEA کی خاموشی اس دوہرے معیار کا ثبوت ہے۔

چین اور روس کا بدلتا مؤقف:
بظاہر چین اور روس ایران کو IAEA سے تعاون کا مشورہ دیتے رہے، لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق وہ پس پردہ اس فیصلے کے حامی ہیں کیونکہ، IAEA کے کیمرے ہٹنے کے بعد ایران کو اپنی جوہری سرگرمیوں میں رازداری ملی۔ چین اور روس یا جنوبی کوریا اب کھل کر ایران کی جوہری ٹیکنالوجی میں مدد کر سکتے ہیں، بغیر اس خوف کے کہ ان کا تعاون IAEA کی رپورٹوں میں ظاہر ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کی سخت تنقید کے باوجود چین اور روس نے ایران کے خلاف کوئی مذمتی قرارداد نہیں آنے دی۔
 حوالہ: Russian FM Sergey Lavrov کا بیان جون 2025: "Iran has every right to protect its sovereignty from espionage disguised as inspections."

مشرق وسطیٰ کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانے کی تجویز اور اس کا مستقبل:
ایران کی یہ تجویز کہ "پورا مشرق وسطیٰ ایٹمی ہتھیاروں سے پاک ہو، اور اسرائیل کو بھی اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنا پڑے" ایک عملی اور منصفانہ حل ہے لیکن امریکا اور اسرائیل کبھی اس شرط کو قبول نہیں کریں گے کیونکہ اسرائیل کا ایٹمی پروگرام مغرب کے لیے خطے میں دباؤ برقرار رکھنے کا بنیادی ذریعہ ہے۔ اقوام متحدہ بھی اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ اسرائیل پر اس کی قراردادیں کبھی اثرانداز نہیں ہوئیں، نہ آئندہ ہوں گی۔
حوالہ: اقوام متحدہ کی 1980 اور 1995 کی قراردادیں برائے Middle East Nuclear Weapon Free Zone، جو آج تک عملی شکل نہ لے سکیں۔

ایران کا IAEA سے تعاون ختم کرنا ایک ردعمل ہے ان مظالم اور غیرجانبداریت کے فقدان پر، جس نے اس کے سائنسدانوں اور تنصیبات کو نشانہ بنوایا۔ اگر مغرب واقعی خطے میں امن چاہتا ہے تو اسے ایران کو تنہا ٹارگٹ کرنے کے بجائے اسرائیل کو بھی IAEA کے دائرے میں لانا ہوگا۔ بصورت دیگر، یہ دوہرا معیار ہی مشرق وسطیٰ کو ایٹمی جنگ کی دہلیز پر لے جائے گا، جس کا نتیجہ پوری دنیا کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: آئی اے ای اے چین اور روس ایران کا سے تعاون ایران کو کے لیے

پڑھیں:

اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے دوران 21 ہزار مشتبہ افراد گرفتار کیے، ایران کا دعویٰ

تہران: ایران نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ حالیہ 12 روزہ جنگ کے دوران ملک بھر میں 21 ہزار مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ایرانی میڈیا کے مطابق یہ گرفتاری مہم 13 جون کو اسرائیلی فضائی حملے کے بعد شروع کی گئی، جس میں ایرانی سیکیورٹی اور پولیس فورسز نے ملک گیر کریک ڈاؤن کیا۔

ایرانی پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ 41 فیصد گرفتاریاں عوام کی جانب سے دی گئی اطلاعات کی بنیاد پر کی گئیں، جبکہ حراست میں لیے گئے افراد میں دو ہزار سے زائد غیر قانونی مہاجرین شامل ہیں۔

ترجمان کے مطابق 261 افراد کو اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے لیے جاسوسی کے شبے میں اور 172 افراد کو حکومتی اجازت کے بغیر ویڈیو بنانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

واضح رہے کہ ایران ماضی میں بھی اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں متعدد افراد کو سزائے موت دے چکا ہے۔
 

متعلقہ مضامین

  • فرانس، جرمنی اور برطانیہ ایران پر دوبارہ پابندیاں لگانے کے لیے تیار
  • ایران کے ایٹمی پروگرام پر یورپی ممالک کا سخت انتباہ، دوبارہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کا عندیہ
  • ایران کیساتھ سکیورٹی مفاہمت کا تعلق سرحدوں کیساتھ ہے، بغداد
  • تعاون انسداد دہشت گردی اور پانی کا مسئلہ
  • اسرائیلی فوج کا غزہ پٹی پر نئے حملے کا منصوبہ تیار
  • برطانیہ، فرانس اور جرمنی کا ایران کے ایٹمی پروگرام پر پابندیوں کے لیے اقوام متحدہ کو خط
  • اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے دوران 21 ہزار مشتبہ افراد گرفتار کیے، ایران کا دعویٰ
  • ایران،  اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ کشیدگی کے دوران 21 ہزار مشتبہ افراد گرفتار
  • نوجوان پاکستان کا حقیقی سرمایہ اور مستقبل کے معمار ہیں،ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان
  • انڈونیشیا کے صوبہ پاپوا میں 6.3 شدت کا زلزلہ، سونامی کا کوئی خطرہ نہیں