ایران اور آئی اے ای اے کا تنازع: خطے کے لیے حقیقی خطرہ اور بدلتی عالمی صف بندیاں
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ایران کا IAEA سے تعاون ختم کرنا ایک ردعمل ہے ان مظالم اور غیرجانبداریت کے فقدان پر، جس نے اس کے سائنسدانوں اور تنصیبات کو نشانہ بنوایا۔ اگر مغرب واقعی خطے میں امن چاہتا ہے تو اسے ایران کو تنہا ٹارگٹ کرنے کے بجائے اسرائیل کو بھی IAEA کے دائرے میں لانا ہوگا۔ بصورت دیگر، یہ دوہرا معیار ہی مشرق وسطیٰ کو ایٹمی جنگ کی دہلیز پر لے جائے گا، جس کا نتیجہ پوری دنیا کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے۔ تحریر و تجزیہ: ایس این سبزواری
ایران نے حالیہ دنوں میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ تعاون معطل کرتے ہوئے اپنے جوہری تنصیبات سے کیمرے ہٹا دیے اور انسپکشن کی رسائی محدود کر دی۔ اس اقدام نے مغرب میں تشویش کی لہر دوڑا دی، جبکہ ایران نے الزام لگایا کہ آئی اے ای اے ایک غیرجانبدار ادارہ نہیں بلکہ امریکی و اسرائیلی ایجنڈے کا آلہ کار ہے۔
ایران کا مؤقف اور کیوں آئی اے ای اے سے تعاون ختم کیا؟ ایران کے مطابق:
آئی اے ای اے کے معائنوں سے ملنے والی معلومات اسرائیل اور امریکا کے ہاتھ لگتی رہیں، جن کی بنیاد پر ایرانی سائنسدانوں کو قتل کیا گیا۔ اسرائیل کی "ایرانی جوہری راز چرانے" کی فلمی کہانی دراصل آئی اے ای اے کے ریکارڈز پر مبنی تھی، جسے اسرائیل نے ڈرامائی انداز میں پیش کیا۔ ایران سمجھتا ہے کہ اگر وہ پہلے دن سے ہی آئی اے ای اے کے ساتھ اس درجے کا تعاون نہ کرتا، تو نہ اس کے سائنسدان مارے جاتے، نہ جوہری تنصیبات پر بار بار حملے ہوتے۔
حوالہ: ایرانی حکام کے بیانات (Press TV، 2024)، محسن فخری زادہ کیس اسٹڈی۔
دوہرا معیار: اسرائیل کا ایٹمی پروگرام کیوں مستثنیٰ؟
اسرائیل نے کبھی NPT پر دستخط نہیں کیے اور IAEA کے لیے اپنی جوہری تنصیبات کے دروازے بند رکھے ہیں، لیکن اس پر کوئی عالمی دباؤ نہیں۔ رپورٹس کے مطابق اسرائیل کے پاس 80-200 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، جو مشرق وسطیٰ میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کی اصل بنیاد ہیں۔ اس کے برعکس ایران نے NPT پر دستخط کر رکھے ہیں اور کئی سالوں تک IAEA کو مکمل رسائی دیتا رہا، اس کے باوجود اس پر عالمی دباؤ بڑھایا جاتا رہا۔
حوالہ: SIPRI Yearbook 2023، IAEA Annual Reports۔
خطے کا حقیقی خطرہ: جارح اسرائیلی پالیسی
13 جون 2025ء کو اسرائیل نے ایران پر اچانک حملہ کیا اور جوہری پروگرام کو تباہ کرنے کی کوشش کی، جس کے بعد ایران کا جواب آیا۔ یہ واضح کرتا ہے کہ اس خطے کے لیے اصل خطرہ ایٹمی صلاحیت نہیں، بلکہ نیتن یاہو کی جارحانہ پالیسیاں ہیں، جو مشرق وسطیٰ کو بڑی جنگ کے دہانے پر لے آئی ہیں۔
حوالہ: UN Secretary General Antonio Guterres کا بیان، جون 2025: "Israel’s unilateral aggression has escalated the regional tensions dangerously.
عالمی طاقتوں کا دہرا معیار:
جب ایران IAEA کے کیمرے ہٹاتا ہے، مغرب اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کہتا ہے۔ مگر اسرائیل آئی اے ای اے کو اندر داخل ہونے ہی نہیں دیتا، پھر بھی امریکا اور یورپ اسے “سیکورٹی کی ضرورت” کہہ کر جواز فراہم کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور IAEA کی خاموشی اس دوہرے معیار کا ثبوت ہے۔
چین اور روس کا بدلتا مؤقف:
بظاہر چین اور روس ایران کو IAEA سے تعاون کا مشورہ دیتے رہے، لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق وہ پس پردہ اس فیصلے کے حامی ہیں کیونکہ، IAEA کے کیمرے ہٹنے کے بعد ایران کو اپنی جوہری سرگرمیوں میں رازداری ملی۔ چین اور روس یا جنوبی کوریا اب کھل کر ایران کی جوہری ٹیکنالوجی میں مدد کر سکتے ہیں، بغیر اس خوف کے کہ ان کا تعاون IAEA کی رپورٹوں میں ظاہر ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کی سخت تنقید کے باوجود چین اور روس نے ایران کے خلاف کوئی مذمتی قرارداد نہیں آنے دی۔
حوالہ: Russian FM Sergey Lavrov کا بیان جون 2025: "Iran has every right to protect its sovereignty from espionage disguised as inspections."
مشرق وسطیٰ کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانے کی تجویز اور اس کا مستقبل:
ایران کی یہ تجویز کہ "پورا مشرق وسطیٰ ایٹمی ہتھیاروں سے پاک ہو، اور اسرائیل کو بھی اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنا پڑے" ایک عملی اور منصفانہ حل ہے لیکن امریکا اور اسرائیل کبھی اس شرط کو قبول نہیں کریں گے کیونکہ اسرائیل کا ایٹمی پروگرام مغرب کے لیے خطے میں دباؤ برقرار رکھنے کا بنیادی ذریعہ ہے۔ اقوام متحدہ بھی اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ اسرائیل پر اس کی قراردادیں کبھی اثرانداز نہیں ہوئیں، نہ آئندہ ہوں گی۔
حوالہ: اقوام متحدہ کی 1980 اور 1995 کی قراردادیں برائے Middle East Nuclear Weapon Free Zone، جو آج تک عملی شکل نہ لے سکیں۔
ایران کا IAEA سے تعاون ختم کرنا ایک ردعمل ہے ان مظالم اور غیرجانبداریت کے فقدان پر، جس نے اس کے سائنسدانوں اور تنصیبات کو نشانہ بنوایا۔ اگر مغرب واقعی خطے میں امن چاہتا ہے تو اسے ایران کو تنہا ٹارگٹ کرنے کے بجائے اسرائیل کو بھی IAEA کے دائرے میں لانا ہوگا۔ بصورت دیگر، یہ دوہرا معیار ہی مشرق وسطیٰ کو ایٹمی جنگ کی دہلیز پر لے جائے گا، جس کا نتیجہ پوری دنیا کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: آئی اے ای اے چین اور روس ایران کا سے تعاون ایران کو کے لیے
پڑھیں:
ایران میں اسرائیل سے روابط کے الزام پر 6 عسکریت پسندوں کو سزائے موت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران: ایران نے اسرائیل سے روابط کے الزام میں 6 عسکریت پسندوں کو سزائے موت دے کر پھانسی دے دی۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق ایران نے آج اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد سے وابستگی اور تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات پر 6 عسکریت پسندوں کو سزائے موت دے دی۔
ایرانی میڈیا کے مطابق ان افراد پر الزام تھا کہ وہ اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی کے ساتھ رابطے میں تھے اور ایران کے سیکیورٹی اداروں اور مذہبی شخصیات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سزائے موت پانے والوں میں ایک کُرد عسکریت پسند شامل تھا، جس پر ایک مذہبی رہنما کے قتل کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا، ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد اور ان کے اپنے اعترافی بیانات موجود ہیں۔
ایرانی حکام کا مؤقف ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ملک میں عدم استحکام پھیلانے کی کوششوں کا بھرپور جواب دیا جائے گا اور جاسوسوں کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی، اسرائیل کے خلاف سائبر اور انٹیلی جنس محاذ پر بھی بھرپور دفاع جاری ہے۔
یاد رہے کہ ایران میں حالیہ مہینوں کے دوران اسرائیل سے مبینہ روابط رکھنے والے افراد کے خلاف کارروائیوں میں تیزی دیکھی گئی ہے۔ 13 جون کو ایران اور اسرائیل کے درمیان مسلح تصادم کے بعد تہران نے اعلان کیا تھا کہ قومی سلامتی سے متعلق جرائم میں ملوث افراد کے خلاف فوری عدالتی عمل شروع کیا جائے گا۔