جنگ بندی سمیت کسی بھی وعدے پر عملدرآمد کے بارے میں شدید شکوک ہیں، ایران
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
میجر جنرل موسوی نے گفتگو کے دوران واضح کیا کہ ایران نے صیہونی حکومت اور امریکہ کی جارحیت کے باوجود صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے جنرل اسٹاف کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق چیف آف اسٹاف میجر جنرل سید عبدالرحیم موسوی اور سعودی عرب کے وزیر دفاع خالد بن سلمان کے درمیان ایک اہم ٹیلیفونک گفتگو ہوئی۔ اس رابطے میں ایران، امریکہ اور صیہونی ریاست کے درمیان حالیہ 12 روزہ جنگ، دو طرفہ تعلقات اور خطے کی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ میجر جنرل موسوی نے گفتگو کے دوران واضح کیا کہ ایران نے صیہونی حکومت اور امریکہ کی جارحیت کے باوجود صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا، حالانکہ ان ہی دنوں ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات بھی جاری تھے۔
انہوں نے کہا کہ یہ دونوں حکومتیں (صیہونی ریاست اور امریکہ) کسی بھی بین الاقوامی اصول یا ضابطے کی پابند نہیں رہیں، اور یہ بات حالیہ 12 روزہ مسلط کردہ جنگ میں دنیا کے سامنے عیاں ہو گئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے جنگ کی ابتدا نہیں کی، لیکن دشمن کی جارحیت کا پوری قوت سے جواب دیا۔ ہمیں دشمن کے جنگ بندی سمیت کسی بھی وعدے پر عملدرآمد کے بارے میں شدید شکوک ہیں، اور اگر دوبارہ جارحیت کی گئی تو ہمارا جواب بھی بھرپور ہو گا۔ ٹیلیفونک گفتگو کے دوران سعودی وزیر دفاع خالد بن سلمان نے کہا کہ سعودی حکومت نے صرف جارحیت کی مذمت تک خود کو محدود نہیں رکھا، بلکہ جنگ بندی اور جارحیت کے خاتمے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ انہوں نے حالیہ مسلط کردہ جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے متعدد کمانڈروں کی شہادت پر تعزیت بھی پیش کی۔ گفتگو کے اختتام پر دونوں فریقین نے دو طرفہ مشاورت کے تسلسل، باہمی تعلقات کے فروغ، اور خطے میں امن و استحکام کے قیام پر زور دیا۔ دونوں رہنماؤں نے اس امر پر اتفاق کیا کہ ایران اور سعودی عرب اس ہدف کے حصول میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اور امریکہ گفتگو کے
پڑھیں:
صدر ٹرمپ کا مضحکہ خیز بھاشن
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’سوشلٹروتھ‘‘پر لکھا ہے کہ’’چین اب ایران سے تیل کی خریداری جاری رکھ سکتا ہے اور مجھے امید ہے کہ چین امریکہ سے بھی بڑی مقدار میں تیل خریدے گا‘‘ بین الاقوامی سیاست میں توانائی خاص طور پر خام تیل ہمیشہ سے عالمی طاقتوں کے توازن اور غلبے کا ایک بنیادی ستون رہی ہے ۔بیسویں صدی کا بیشتر حصہ امریکی اثرو رسوخ کے سائبان تلے گزرا ۔جہاں تیل کی پیداوار، تقسیم اور نرخوں کا تعین عام طور پر واشنگٹن کے اشاروں کے تابع رہا ہے۔امریکی ڈالر کے ساتھ تیل کی عالمی تجارت امریکہ کو اقتصادی اجارہ داری، سفارتی دبائو اور اسٹریٹجک فیصلوں میں برتری دینے میں اہم کردار ادا کیا۔تاہم اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں طاقت کے مراکز تنوع سے ہمکنار ہوئے۔روس اور چین کی شمولیت آور مشرق وسطیٰ کی خود مختار پالیسیز اور ایران جیسے ممالک کی مزاحمتی معیشت نے تیل کی سیاست کا پانسہ پلٹنا شروع کردیا۔
حالیہ دنوں میں جب امریکہ چین کو ایران سے تیل خریدنے پر تنبیہ کرتا ہے یا روس پر ایسی پابندیاں عائد کرتا ہے تو یہ سوال شدت سے سر اٹھاتا ہے کہ ’’کیا امریکہ اب بھی تیل کی عالمی منڈی میں اپنے کر دار کو اعلیٰ و ارفع تصور کرتا ہے ،یا ایک موثر کھلاڑی کی حیثیت تک محدود ہے ؟ آج یہی سوال دور حاضر کی بین الاقوامی حرکیات کو سمجھنے کی اصل کلید ہے ۔اس پر سوچ بچار ہمیں ناصرف توانائی کی منڈی کے تغیر پذیر ہوتے رجحانات کی آگہی سے ہمکنار کرتی ہے بلکہ یہ عقدہ بھی کشا کرتی ہے کہ اب عالمی طاقت فقط عسکری یا مالی دبائو کی محتاجی کے تابع نہیں بلکہ کثیر الجہتی حکمت عملی، باہمی تعاون و مفادات کے توازن کے تابع ہوکر رہ گئی ہے ۔اسی احساس کے پیش نظر امریکہ یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ ’’چین ایران سے تیل خرید سکتا ہے اور امید ہے امریکہ سے بھی خریدے گا‘‘ شپنگ ڈیٹا فراہم کرنے والی کمپنی vortexaکے مطابق ’’ایران کے تیل کی تقریباً 90فیصد برآمدات چین کو جاتی ہے جو ماہانہ اوسطا ً45 ملین بیرل بنتی ہے جو کہ چین کی مجموعی خام تیل کی درآمدات کا لگ بھگ 13.6 فیصد ہے۔
ایران کے قریب واقع آبنائے ہرمز سے گزرنے والے تمام خام تیل اور کنڈینسیٹ میں سے تقریباً 65 فیصد منرل بھی چین ہی کی ہوتی ہے جوکہ خطے میں چین کے اسٹریٹجک مفادات کو اجاگر کرتی ہے ۔ تاہم اب بھی امریکہ دنیا کے بڑے تیل و گیس پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہے اور برآمدکنندہ اور کنٹرولر بھی رہا۔اوپیک کی سیاست میں بھی امریکہ کا غیر رسمی طور پر موثر رہا ہے اس کے علاوہ تیل کے بدلے ڈالرنے امریکہ کو عالمی مالیاتی نظام کا کنٹرول بھی دیا۔تاہم موجودہ صورت حال طاقت میں کمی آئی اور اثر باقی ہے ۔اب بین الاقوامی بنکنگ اور پابندیوں کے ذریعے امریکہ کے تیل کے خریداروں اور بیچنے والوں پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں ہے۔پھر یہ ہوا کہ روس اورسعودی عرب جیسے ممالک نے امریکہ سے مغائرت برتی اور اس کے فیصلوں کے خلاف فیصلوں پر صاد کرنا شروع کیا ،یہاں تک کہ چین ،بھارت ،ترکی اور کئی دوسرے ممالک نے بھی امریکی پابندیوں کو نظر کرکے ایران ،روس اور وینزویلا سے تیل خریدنے لگے۔
معروضی حقیقت یہ ہے کہ اب طاقت صرف امریکہ کے ہاتھ میں نہیں رہی،روس ،چین ،یورپ خلیجی ممالک سے الگ ایجنڈا رکھتے ہیں ۔جبکہ چین اور روس جیسے ممالک اب ڈالر میں تیل کی تجارت سے گریزگی پر مائل ہیں اور روبل اور یوان جیسی کرنسیاں مارکیٹ میں جگہ بنارہی ہیں۔اسی طرح امریکہ کی پابندیوں کو خاطرمیں نہ لاتے ہوئے ایران بلیک مارکیٹ کے تحت تیل بیچ رہا ہے اور امریکہ کی کسی تنبیہ یا اجازت کے بغیر چین ایران کا سب سے بڑا ایرانی تیل کا بائیر ہے ۔یوکرائن جنگ کے بعد روس بھی انڈیا اور چین کو تیل بیچ رہا ہے۔اور اب صورت حال یہ ہےکہ امریکہ با اختیار ہونے کے باوجود تنہا دنیا کا چوہدری نہیں رہا۔برآمدات پر اس کے کنٹرول میں کمی ہو گئی ہے اور سعودی عرب ،ایران اور روس آزادانہ فیصلوں پر انحصار کرنے لگے ہیں ۔اس میں شک نہیں کہ مالیاتی قوت یا مرکزی کرنسی کی حیثیت اب بھی امریکی ڈالر کو ہے مگر متبادل کا اثر بڑھنے لگا ہے ، پابندیاں متنازع اور غیر موثر ہو رہی ہیں۔طاقت کے کھیل کا میدان اب رفتہ رفتہ امریکہ کے ہاتھ سے نکلتا اور پھسلتا جارہا ہے ۔اور امریکہ کے سفارتی اتحاد اورمعاشی چالاکیاں تک ماندپڑتی جارہی ہیں ۔ان حالات میں صدرڈونلڈ ٹرمپ کا ایران کے لئے یہ بھاشن جاری کرنا کہ ’’میں ایران کو چین کے ہاتھ تیل فروخت کرنے کی اجازت دیتاہوں‘‘ بھیگی بلی کھمبہ نوچے کے مترادف ہے اور انتہائی مضحکہ خیز لگتا ہے ۔