اسرائیلی دھمکیوں کے مقابلے میں لبنانی حکومت، عوام اور مزاحمت کیساتھ کھڑے ہیں، ایران
اشاعت کی تاریخ: 16th, November 2025 GMT
بین الاقوامی خبر رساں ادارہ تسنیم کے مطابق لبنان کے سابق وزیر خارجہ عدنان منصور نے تہران میں منعقدہ جارحیت، حملے اور دفاع سے متاثر حقوق بین الملل كانفرنس میں شرکت کی۔ انہوں نے اس دوران وزیر خارجہ سید عباس عراقچی سے ملاقات کی۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے لبنان کے سابق وزیر خارجہ عدنان منصور سے ملاقات میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ایران، لبنان کی حکومت، عوام اور مزاحمتی محاذ کی بھرپور حمایت جاری رکھے گا۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارہ تسنیم کے مطابق لبنان کے سابق وزیر خارجہ عدنان منصور نے تہران میں منعقدہ جارحیت، حملے اور دفاع سے متاثر حقوق بین الملل كانفرنس میں شرکت کی۔ انہوں نے اس دوران وزیر خارجہ سید عباس عراقچی سے ملاقات کی۔
ایران کے وزیر خارجہ نے موجودہ علاقائی اور بین الاقوامی حساس حالات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی جارحانہ یکطرفہ پالیسی اور صہیونی رجیم کی خطے کے ممالک کے خلاف مسلسل جارحیت کے نتیجے میں خطہ ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ خطے کے ممالک کو قانون شکنی اور صہیونی رجیم کی تسلط پسندانہ پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد اور ہم آہنگ ہونا چاہیے۔
عراقچی نے مزید کہا کہ لبنان کے اندر مختلف سیاسی و سماجی طبقات کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی صہیونی جنگ طلبی اور دھمکیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے، اور ایران لبنانی حکومت، اس کے عوام اور مزاحمت (حزب اللہ) کی حمایت جاری رکھے گا۔ لبنان کے سابق وزیر خارجہ عدنان منصور نے بھی صہیونی رجیم کی توسیع پسندانہ پالیسیوں اور اس کی جانب سے فلسطین اور خطے کے دیگر ممالک پر مسلسل فوجی حملوں کی مذمت کی۔
انہوں نے صیہونی جارحیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خطے کے ممالک پر لازم ہے کہ وہ صہیونی رجیم کی بڑھتی ہوئی دھمکیوں اور خطے کے امن و استحکام کے خلاف سازشوں کے مقابلے میں مشترکہ ذمہ داری ادا کریں۔ عدنان منصور نے 12 روزہ جنگ کے دوران اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں ایرانی قوم کے اتحاد اور یکجہتی کو سراہا، اور لبنان کی حکومت، عوام اور مزاحمت کی ایران کی مستقل حمایت پر شکریہ ادا کیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: لبنان کے سابق وزیر خارجہ عدنان منصور صہیونی رجیم کی عوام اور انہوں نے خطے کے
پڑھیں:
ایران کی وزارت خارجہ کا موقف
اسلام ٹائمز: ہم نے امریکی صدر کے اس دعوے کو فوری طور پر اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں ایک دستاویز کے طور پر درج کرایا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق اس اعتراف کو کسی بھی عدالت میں ایک جارحانہ عمل میں امریکہ کی شرکت کے طور پر استعمال کیا جائیگا۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم صیہونی حکومت اور امریکہ کی فوجی جارحیت کو دستاویزی شکل دینے کے معاملے پر سنجیدگی سے پیروی کر رہے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر امریکہ کیخلاف شکایت اور مقدمہ دائر کرنے کے تمام دستیاب امکانات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس پر صدر پزشکیان کے قانونی دفتر اور عدلیہ کے تعاون سے سنجیدگی سے غور و خوض کیا جا رہا ہے۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایران کے جوہری حقوق کی حمایت پر زور دیتے ہوئے یاد دلایا کہ ایک دن مغربی ممالک ایران کو جوہری سائنس کے مرکز کے طور پر قبول کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ایران کی سفارتی سروس کے ترجمان نے صحافیوں کے ساتھ سوال و جواب کی نشست میں ایران کی جانب سے معاہدے پر آمادگی کے حوالے سے امریکی صدر کے بیانات کے بارے میں کہا کہ امریکی رویہ ان کے بیانات کے برعکس ہے، ان کا نقطہ نظر موجودہ حالات میں دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حقیقت میں وہ نہ تو خیر خواہی اور نہ ہی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے بھی گذشتہ دنوں ایران کی جوہری توانائی تنظیم میں جوہری صنعت کی نئی کامیابیوں کی نمائش کا دورہ کرتے ہوئے تنظیم کے سینیئر حکام کے ایک گروپ کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کی۔
ایران کی ایٹمی توانائی کی تنظیم کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور سربراہ محمد اسلامی نے بھی ملک کی ایٹمی صنعت کی تازہ ترین صورتحال، پروگراموں اور کامیابیوں کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔ اس موقع پر وزیر خارجہ نے یہ بات زور دیکر کہی کہ ایٹمی صنعت اب ایک بہت بڑی صنعت بن چکی ہے اور مختلف شعبوں میں تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میری رائے میں، مغربی ممالک کے پاس بالآخر پرامن ایٹمی صنعت کے میدان میں ایران کو ایک سائنسی مرکز کے طور پر قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ یہ بیان کرتے ہوئے کہ ایرانی سائنسدانوں نے پرامن ایٹمی صنعت کے لیے سخت محنت کی ہے اور خون بہایا ہے اور ایران نے اس صنعت کے لیے جدوجہد کی ہے، وزیر خارجہ نے تاکید کی کہ ایران میں کوئی شخص بھی اپنے اس حق سے دستبردار نہیں ہوگا۔
بات چیت کے ساتھ ساتھ ایران کو نقصان پہنچانے کا منصوبہ
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے گذشتہ دنوں ہفتہ وار پریس کانفرنس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران کے بارے میں بیانات کے بارے میں کئی سوالات کے جوابات دیئے۔ اس سوال کے جواب میں کہ امریکی صدر نے ایران پر حملے کا اعتراف کرنے کے بعد مزید کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ایران ایک معاہدے تک پہنچ جائے، کہا کہ ایرانی اچھے مذاکرات کار ہیں؛ وہ یہ نہیں کہتے کہ وہ کسی معاہدے تک پہنچنا چاہتے ہیں، لیکن وہ واقعی ایک معاہدے کی تلاش میں ہیں۔ اس معاملے میں آپ کی کیا رائے ہے۔؟ بقائی نے کہا کہ میں اس کا مختصر جواب دوں گا اور وہ یہ ہے کہ امریکی اس کے برعکس ہیں، جو وہ کہتے ہیں۔ جو وہ کہتے ہیں، حقیقت میں وہ ایسا نہیں کرتے۔ یہ ایک فریب ہے۔ عملی طور پر انہوں نے ثابت کیا ہے کہ اس سلسلے میں نہ ان کی نیت اچھی اور نہ ہی اس میں سنجیدگی ہے۔
سینیئر سفارت کار بقائی نے مزید کہا کہ امریکہ واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ ہم 22 سال سے ایران کی پرامن جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کی مشق کر رہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام سالوں میں جب بات چیت ہو رہی تھی، امریکی حکومت ایرانی قوم کو نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی کرتی رہی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں، وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ایسی صورت حال میں، جہاں ایک فریق دوسرے فریق کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے اور بین الاقوامی قانون پر مبنی معقول مذاکراتی عمل پر یقین نہیں رکھتا تو اس صورتحال میں مذاکرات کے لیے ضروری شرائط کی تشکیل مشکل ہو جاتی ہے۔
جرم پر فخر، بات کرنے پر آمادگی؟!
پارلیمنٹ کے 80 اراکین کی جانب سے وزیر خارجہ کو حال ہی میں پیش کی گئی ایک یادداشت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ 12 روزہ جنگ میں امریکی جرم کا بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے اور اس بات پر زور دیا جائے کہ اس جنگ کو شروع کرنے میں براہ راست کردار کی وجہ سے امریکہ کو دنیا میں "جنگی مجرم" کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیئے، وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ایران کے ماضی کے تجربے اس پر شاہد ہیں، لیکن ہم ماضی میں نہیں رہیں گے، ہماری نگاہیں آگے کی طرف ہیں۔ ماضی کے تجربات پر نظر رکھتے ہوئے، یہ دیکھنے کے لیے 1953ء یا 1953ء میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایرانی قوم کے بارے میں امریکہ کا رویہ کیا تھا اور کیا ہے، اس کے لئے تین ماہ قبل جون کے مہینے کے امریکی اقدامات پر غور کرنا کافی ہے۔
ایران اور خطے کے بارے میں امریکہ کی کارکردگی کو نظر انداز کرنے والے خیالات پر تنقید کرتے ہوئے، سینیئر سفارت کار اسماعیل بقائی نے کہا ہے کہ یہ خیالات، جو میرے خیال میں یک طرفہ طور پر پیش کیے جاتے ہیں اور ایران اور خطے کے بارے میں امریکہ کی کارکردگی کو نظر انداز کرتے ہیں، حقائق سے دور ہیں۔ ایران کے خلاف امریکہ کے معاندانہ اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ نے اعلیٰ سطح پر ایران کے خلاف جرم کیا ہے اور وہ اس جرم پر مسلسل فخر کر رہا ہے اور دوسری طرف یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ ہم ایران کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت کے خواہاں ہیں۔ بقائی نے تاکید کی کہ سب کو سمجھنا چاہیئے کہ ایران پر حملہ مذاکراتی عمل کے درمیان ہوا، اب یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے۔ پہلے کہتے تھے کہ یہ حملہ صیہونی حکومت کا کام ہے، لیکن اب امریکی صدر کے اعتراف سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اس حملے میں امریکہ کا براہ راست کردار تھا۔
ایران امریکہ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر رہا ہے
وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس پریس کانفرنس میں ایران کے خلاف صیہونی حکومت کی فوجی جارحیت میں ٹرمپ کے ملوث ہونے کے اعتراف اور امریکی حکام کو جوابدہ بنانے کے ایران کے اقدامات کے بارے میں بھی کہا ہے کہ ہم نے امریکی صدر کے اس دعوے کو فوری طور پر اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں ایک دستاویز کے طور پر درج کرایا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق اس اعتراف کو کسی بھی عدالت میں ایک جارحانہ عمل میں امریکہ کی شرکت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم صیہونی حکومت اور امریکہ کی فوجی جارحیت کو دستاویزی شکل دینے کے معاملے پر سنجیدگی سے پیروی کر رہے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر امریکہ کے خلاف شکایت اور مقدمہ دائر کرنے کے تمام دستیاب امکانات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس پر صدر پزشکیان کے قانونی دفتر اور عدلیہ کے تعاون سے سنجیدگی سے غور و خوض کیا جا رہا ہے۔